بنگلہ دیش میں لوگوں کو آفات سے بچانے کے لیے ایک عالمی سطح کا نظام موجود ہے، جس میں خواتین کی بہتر مدد کے لیے خواتین رضاکاروں کی فوج بھی شامل ہے۔ اس نظام میں دوسرے ممالک کے لیے سیکھنے کے لئے بہت کچھ موجود ہے
چینا مستری بھی انہی رضاکاروں میں شامل ہیں، جن کے دو ماہ کے بھائی کی موت سنہ 1988 کے اواخر میں آدھی رات کو ایک طوفان میں ہوئی تھی
یہ طوفان غیر متوقع تھا۔ چینا کے پینسٹھ سالہ والد سورنجن اس طوفان کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ”ہم نے اسے آتے ہوئے نہیں دیکھا“
بنگلہ دیش کے جنوبی سرے پر واقع ایک چھوٹے سے گاؤں ٹیلا میں رہنے والے سورنجن نے بتایا ”ہم نے ریڈیو پر ایک اعلان سنا تھا کہ ایک طوفان ہمارے قریب پہنچ رہا ہے لیکن ہم پریشان نہیں تھے“
سورنجن کہتے ہیں ”طوفان کی سطح کو ماپنے والا سگنل نمبر جو ایک سے دس کے پیمانے پر طوفانوں کی شدت کی درجہ بندی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اس پر طوفان کی شدت کم تھی لیکن پھر صبح سویرے یہ اچانک بڑھنا شروع ہو گیا“
سورنجن یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ”کوئی دس بجے اچانک طوفان شدید ہو گیا اور پھر ایک لہر ٹکرائی۔۔ پانی کی دیوار، جو گھر کی بلندی سے اونچی تھی، ہمارے گھر سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجے میں ایک دیوار گر گئی اور اس کے سائے میں سوتا ہوا نوزائیدہ بچہ نیچے آ گیا“
چینا مستری کے لیے اپنے بھائی کی موت کے بعد بہت کچھ بدل گیا، جو اب انتیس سال کی ہیں لیکن انہیں اپنے بڑے بھائی سے کبھی ملنے کا موقع نہیں ملا
قدرتی آفات کی وجہ سے بنگلہ دیش دنیا کے سب سے زیادہ تباہی کے شکار ممالک میں سے ایک ہے اور اب بھی ہر سال اسے کئی قسم کے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں سیلاب اور ساحلی کٹاؤ اکثر نشیبی ساحلی علاقوں میں تباہی پھیلاتے ہیں
رواں سال جون میں بھی بنگلہ دیش صدی کے بدترین سیلاب کی زد میں آیا تھا، جس کے نتیجے میں ستر لاکھ سے زائد افراد خوراک اور رہائش کے بغیر تھے
سائنسدان اس تباہی میں ممکنہ طور پر موسمیاتی تبدیلی کے کردار کو دیکھتے ہیں
اب شدید موسمی واقعات سے مرنے والوں کی تعداد میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ موسم کی نگرانی کے آلات، مواصلاتی نظام اور رضاکاروں کے ایک جامع نیٹ ورک پر مشتمل کثیر سطحی ابتدائی انتباہی نظام ہے
اہم بات یہ ہے کہ ان رضاکاروں میں سے نصف خواتین ہیں، جو بڑے پیمانے پر صنفی فرق پر قابو پانے کے لیے سخت محنت کر رہی ہیں، جو آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں
بنگلہ دیش کا نظام نسبتاً کم وسائل کے ساتھ قدرتی آفات کے خلاف مزاحمت کو بڑھانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کی کامیابی کو ماہرین نے دوسرے کم آمدنی والے ممالک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر سراہا ہے، جو بدلتے ہوئے موسم کے پیش نظر قبل از وقت انتباہی نظام تیار کرنا چاہتے ہیں
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (WMO) میں موسم کے خطرے اور ابتدائی وارننگ سسٹمز (CREWS) کے سربراہ جان ہارڈنگ کہتے ہیں ”جب یہ دیکھنے کی بات آتی ہے کہ ابتدائی وارننگ کا مؤثر نظام کیسا ہو تو اس معاملے میں بنگلہ دیش واقعی تھوڑا سا موجد رہا ہے“
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریز نے ایک ایسے منصوبے کا اعلان کیا، جس کے تحت دنیا کے ہر شخص کو پانچ سال میں انتباہی نظام کے ذریعے محفوظ بنایا جا سکے گا۔ یہ منصوبہ موسمیاتی تبدیلی کی روشنی میں ہونے والی کوششوں کا اہم حصہ ہے، جس کا ایکشن پلان ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (WMO) اسی سال ہونے والی اقوام متحدہ کی کلائمٹ کانفرنس میں پیش کرے گی
ہارڈنگ کہتے ہیں ”ابتدائی انتباہی نظام ہمارے پاس موجود سب سے مؤثر آلہ ہے، جس کی مدد سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے“
بنگلہ دیش کئی دہائیوں سے اپنے ایسے ہی وارننگ سسٹم یا انتباہی نظام کو مضبوط بنا رہا ہے، تو پھر دیگر ممالک اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
انتباہی نظام
بنگلہ دیش میں عالمی طرز کے بہترین نظام کی شروعات 1970ع میں ہوئی، جب سمندری طوفان ’بھولا‘ نے خلیج بنگال میں تباہی مچا دی اور لگ بھگ پانچ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اتنی بڑی تباہی کے بعد بنگلہ دیش نے موسمی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری شروع کی، سمندری طوفان سے بچاؤ کے لیے پناہ گاہیں بنائی گئیں اور ساحل پر رضاکاروں کی تربیت کا آغاز کیا گیا
2020ع میں جب سمندری طوفان ’ایمفان‘ آیا، جو تقریباً اتنا ہی طاقتور تھا، جتنا 1970 میں آنے والا سمندری طوفان بھولا تھا، تو صرف چھبیس اموات ہوئیں۔ جب یہ سمندری طوفان ساحل کی جانب بڑھ رہا تھا تو سب کی طرح چینا مستری کے خاندان کو ریڈیو پر پیشگی اطلاع ملی، اس لیے اس بار وہ تیار تھیں
دو دن پہلے ہی چینا مستری کے فون پر ایک پیغام موصول ہوا تھا، جس میں ان کو خلیج بنگال میں موسم کی خرابی کی اطلاع دی گئی تھی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر پیغامات کے ذریعے سمندری طوفان کے بارے میں مسلسل معلومات حاصل کیں اور جب تک یہ طوفان ساحل تک پہنچا، ان کا خاندان اپنا سامان لے کر قریبی محفوظ پناہ گاہ منتقل ہو چکا تھا
بنگلہ دیش میں سمندری طوفان سے ہلاکتوں میں کمی کی ایک وجہ وہ صلاحیت ہے، جو سمندری طوفان کے بننے کے عمل کو جانچ سکتی ہے۔ سنہ 1970ع تک بنگلہ دیش میں صرف دو ساحلی ریڈار تھے جو سمندری طوفان کو اس وقت مانیٹر کر سکتے تھے، جب وہ ساحل سے دو سو میل دوری پر پہنچ چکے ہوتے تھے۔ آج یہاں موسمیاتی اسٹیشنز کا ایک مربوط نظام موجود ہے، جس میں ساحلی ریڈار، زمینی قسٹیشن اور فضائی آلات شامل ہیں، جو ہوا کا دباؤ اور نمی جانچتے رہتے ہیں۔ ان کی مدد سے بنگلہ دیش ہر وقت موسم پر نظر رکھے ہوئے ہے
گذشتہ سال ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے ایک قرارداد منظور کی، جس میں تمام رکن ممالک جو پابند بنایا گیا کہ وہ موسمیاتی ڈیٹا کا تبادلہ بنا کسی معاوضے کے کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ بنگلہ دیش سمیت دیگر کم ترقی یافتہ اور موسمی تغیّرات کا سامنا کرنے والے ممالک کو اب بہت دور تک موسمی حالات اور معلومات تک رسائی حاصل ہے
ہارڈنگ کہتے ہیں ”معلومات کا یہ تبادلہ سمندری طوفانوں جیسے حالات میں بہت اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے جب ایک واقعہ خلیج بنگال سے کہیں بہت دور شروع ہوتا ہے“
لیکن معلومات حاصل ہونا لوگوں کو خطرات سے پیشگی آگاہ کرنے کے عمل کا صرف ایک حصہ ہے۔ اہم اس بات کو یقینی بنانا ہے، کہ یہ معلومات لوگوں تک پہنچ جائیں
ہارڈنگ کہتے ہیں ”اگر آپ کے پاس بہترین سائنس ہے، بہترین موسمی پیشگوئی ہے لیکن اگر اس کو درست زبان اور طریقے سے مقامی آبادی تک نہیں پہنچایا گیا تو وہ سمجھ نہیں سکیں گے۔ اسی لیے ایسا نظام شروع سے ہی مقامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کرنے کی ضرورت ہے“
بنگلہ دیش کا ابتدائی انتباہی نظام پیغام رسانی کے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے جن میں ٹی وی اور ریڈیو نشریات، موبائل فون کے ذریعے پیغامات، مخصوص علاقوں میں ایس ایم ایس اور ایک ہیلپ لائن شامل ہے، جہاں لوگ فون کریں تو ریکارڈڈ پیغامات سننے کو ملتے ہیں
لیکن بنگلہ دیش کے اس نظام کا سب سے اہم ستون، جس کے ذریعے معلومات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائی جاتی ہیں اور جسے ماہرین ’آخری میل‘ کا نام دیتے ہیں، وہ رضاکاروں کا ایک بہت وسیع نیٹ ورک ہے
مقامی حالات سے مطابقت رکھنے والا حل
1970ع کی تباہی کے بعد بنگلہ دیش میں ہلال احمر سوسائٹی نے سمندری طوفان سے نمٹنے کی تیاری کا ایک پروگرام مرتب کیا، جسے ’سی پی پی‘ کا نام دیا گیا۔ اس کا مقصد غیر ضروری اموات میں کمی اور مقامی آبادی کی صلاحیت میں بہتری لانا شامل تھا۔ اب اس پروگرام کو بنگلہ دیش کی حکومت کی وزارت ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اینڈ ریلیف چلاتی ہے، جس کے تحت ساحل پر دیہات میں 76 ہزار رضاکار کام کرتے ہیں
جب یہ پروگرام ان کے علاقے میں 2009ع میں شروع ہوا، تو 1988 کے طوفان میں اپنے بھائی کو کھونے والی چینا مستری بھی انہی لوگوں میں شامل تھیں، جو بطور رضاکار کام کرنے کے لیے تیار تھے
وہ کہتی ہیں ”میں اپنے بھائی سے کبھی نہیں مل سکی۔ یہ میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ میں اس پروگرام کا حصہ اس لیے بنی کہ کوئی اور بچہ اپنی جان نہ گنوائے“
چینا اب بیس افراد کی ٹیم کا حصہ ہیں، جن کی ذمہ داری ہے کہ ان کی مقامی آبادی میں تازہ ترین موسمی خطرات سے ہر کوئی آگاہ ہو۔ یہ رضاکار مقامی بازار یا چوک میں جھنڈوں کے نظام کے ذریعے کسی بھی آنے والے طوفان کی شدت سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں۔ وہ گلیوں میں میگا فون تھامے انتباہی پیغامات بھی سناتے ہیں اور پیدل یا موٹر سائیکل پر گھر گھر جا کر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ یہ پیغام سب تک پہنچ جائے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگوں تک بھی معلومات پہنچ جائیں جو ان پڑھ ہیں یا جن کے پاس فون نہیں
واضح رہے کہ مختلف تحقیقات میں ثابت ہوا ہے کہ کسی بھی قدرتی آفت کی صورت میں زندگی بچانے کے لیے فوری اور وسیع کارروائی کا انحصار حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کی صلاحیت اور ردعمل پر ہوتا ہے
گذشتہ سال بنگلہ دیش کے سی پی پی پروگرام نے کوشش کی کہ ’آخری میل‘ کو اسکول کے بچوں تک پہنچایا جائے۔ اس کے لیے کھیل کے ذریعے جاننے کا پروگرام شروع کیا گیا
احمد الحق سی پی پی کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”پروگرام کے تحت اسکول میں مخصوص دنوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری ہوتی ہے، جس کے دوران مختلف مشقیں ہوتی ہیں، بچے فرسٹ ایڈ سیکھتے ہیں اور ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ٹیمیں بناتے ہیں۔۔ اس کا مقصد ہے کہ اگلی نسل کسی بھی قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے ہر دم تیار ہو“
بنگلہ دیش میں انٹرنیشنل سینٹر برائے کلائمٹ چینج اینڈ ڈویلپمنٹ کے ڈائریکٹر سلیم الحق کہتے ہیں ”کسی بھی ایسے پروگرام کی کامیابی کا سب سے اہم جزو یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ کیا کرنا ہے۔۔ رضاکاروں کا نظام مقامی طور پر لوگوں کو بااختیار بنانے کا بہترین طریقہ ہے“
محفوظ پناہ گاہیں
موسمی تغیر سے انسانی زندگی کو بچانے میں بنگلہ دیش کی کامیابی کا ایک راز محفوظ پناہ گاہوں کا نظام ہے۔ ان کے ذریعے بنگلہ دیش نے لوگوں کو ایک ایسا واضح نظام فراہم کیا ہے کہ انتباہ ملتے ہی وہ خود کو محفوظ بنا سکیں
1970ع میں بنگلہ دیش میں صرف چوالیس پناہ گاہیں تھیں۔ بھولا کی تباہی کے بعد حکومت نے بین الاقوامی مدد سے اس تعداد کو بڑھا کر سنہ 2020ع میں چار ہزار تک پہنچا دیا۔ ان میں سے بیشتر عام دنوں میں اسکول اور کمیونٹی سینٹر کے طور پر چلائے جاتے ہیں
گذشتہ سال ایک تحقیقاتی مقالے میں لکھا گیا کہ بنگلہ دیش کی ان کوششوں کی وجہ سے انخلا کے رویے بھی تبدیل ہوئے ہیں
حق کہتے ہیں ”یہ ایک سیکھنے کا عمل ہے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش نے کئی سال میں یہ نظام بنایا اور ہر قدرتی آفت سے ایک نیا سبق سیکھا کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں“ وہ سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیش موسمیاتی تبدیلی کا سامنا کرتے دیگر ممالک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر کام آ سکتا ہے
حق کا کہنا ہے کہ اب بنگلہ دیش سمندری طوفان کے علاوہ دیگر آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے انتباہی نظام کو وسیع کرنا چاہتا ہے جیسا کہ زلزلے اور سیلاب۔ اس منصوبے کے تحت ان آفات میں اموات کم کرنے میں مدد ملے گی۔ حق کا کہنا ہے کہ ’سمندری طوفان کا معاملہ نسبتا آسان ہے کیونکہ سیلاب کی پیشگوئی کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’اگرچہ انتباہی نظام زندگی بچانے میں مددگار ہوتا ہے لیکن یہ معاشی اثرات کم نہیں کر سکتا۔‘ 2020 میں جہاں سمندری طوفان ایمفان سے قبل انتباہی نظام نے بہت زندگیاں بچا لیں، وہیں تقریبا پانچ لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔
حق کا کہنا ہے ’اس وقت موسمیاتی تبدیلی کا شکار آبادی کے لیے عالمی معاشی امداد موجود نہیں۔ صرف لوگوں کی زندگی بچا لینا اور ان کو روزگار کی بحالی میں مدد نہ کرنا ایک ایسی چیز ہے جس پر ہم توجہ نہیں دے سکے۔‘