پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس سوشل میڈیا پر ہدف تنقید ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے گذشتہ رات پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کے ڈرائیور کی اہلیہ کو ان کے گھر سے حراست میں لیا لیکن ان کی شیرخوار بیٹی کو ماں کے ساتھ جانے دینے کی بجائے وہیں گھر پر چھوڑ دیا
سوشل میڈیا پر وائرل ایک وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عدالت میں ایک شخص کو بھیڑ کے بیچ ایک بچی کو لے کر جا رہا ہے
صحافی عامر سعید عباسی نے بھی اس وڈیو کو شیئر کیا اور لکھا ’ہماری پولیس اوپر سے آئے حکم کو مانتے ہوئے بڑا ظلم کر گزرتی ہے‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’اسلام آباد پولیس نے شہباز گل کے ڈرائیور کی اہلیہ کو رات سے گرفتار کیا ہوا ہے۔ اس کی دس ماہ کی بیٹی رات سے رو رہی ہے‘
انہوں نے لکھا ’نڈھال بچی کو عدالتی پیشی پر پولیس نے ماں کے پاس جانے سے روکے رکھا‘
اس وڈیو پر پی ٹی آئی نے مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ ’شہباز گل کے ڈرائیور کی دس ماہ کی بچی بھی عدالت میں پیش۔ کوئی بتائے اس خاتون کا کیا کیا قصور ہے؟ یہ کیوں عدالت کے چکر کاٹ رہی ہے؟‘
صحافی خرم اقبال کے مطابق ’شہباز گل کے ڈرائیور کی کمسن بچی کو پولیس نے والدہ سے ملنے نہیں دیا، جس پر بچی عدالت میں زار و قطار رونے لگی۔ جج کے حکم پر بچی کو والدہ سے ملوایا گیا‘
واضح رہے پی ٹی آئی رہنما شہباز گل 9 اگست سے پولیس کی حراست میں ہیں اور ان پر الزام ہے کہ انہوں پاکستانی فوج کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی
جبکہ پولیس نے شہباز گل کے ڈرائیور اور ان کی اہلیہ بھی گرفتار کر لیا ہے
اسلام آباد پولیس کی جانب سے بچی کے حوالے سے کوئی بیان نہیں جاری کیا گیا
تاہم پولیس نے شہباز گل کے ڈرائیور کے گھر پر چھاپے کے حوالے سے ایک ٹویٹ میں لکھا ’شہباز گل کے ڈرائیور کے گھر چھاپے اور گرفتاری کا عمل قانونی ہے‘
پولیس نے لکھا ”ڈرائیور کے اہلِ خانہ نے کارِ سرکار میں عملی مزاحمت کی“
پولیس نے خبردار کرتے ہوئے مزید کہا ”جہاں کہیں بھی قانونی کاروائی کی ضرورت پڑی پولیس اپنا کام کرے گی۔ کیس کا دائرہ کار اسلام آباد کے علاوہ دیگر صوبوں تک بھی پھیلایا جاسکتا ہے۔ جو لوگ ثبوت چھپانے یا شواہد مٹانے میں ملوث پائے گئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی“