برانڈز اپنی تشہیر کے لیے ہمارا ڈیٹا کیسے حاصل کرتی ہیں، ان کے میسجز سے پیچھا کیسے چھڑائیں؟

ویب ڈیسک

پاکستان میں اکثر موبائل فون صارفین یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ نجی برانڈز کی جانب سے تواتر سے بھیجے جانے والے تشہیری پیغامات نے انہیں تنگ کر کے رکھا ہے

مثال کے طور پر، ایک صارف نے شکایت کرتے ہوئے کہا ”مجھے ایک ہی جوتے کو خریدنے کا میسج کئی بار آ چکا ہے۔ میں موبائل بند کر لوں یا ان میسج کرنے والوں کو بلاک کر دوں، کوئی فرق نہیں پڑتا“

ایک خاتون صارف کے مطابق ”میں آج تک ثنا سفیناز نہیں گئی لیکن اس کے باوجود کئی بار وہاں سے کپڑے خریدنے کا میسج آتا رہتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ میرا نمبر ان کمپنیوں کے پاس کیسے پہنچا؟“

یا اگر آپ نے کبھی ’دواگو‘ چین کے کسی اسٹور سے کبھی میڈیسن لی ہیں تو اکثر یہ میسیج بھی موصول ہوتا ہے کہ ہڈیوں میں درد ہے یا وزن بڑھ رہا ہے تو ہم سے رابطہ کریں

یا اکثر بینکوں کی طرف سے آپ کو کال آتی ہے اور سامنے میٹھی آواز میں آپ کا نام لے کر آپ کو مخاطب کیا جاتا ہے اور پھر اپنی پروڈکٹس کی جانب راغب کیا جاتا ہے

پاکستان میں مختلف برانڈز سے فون صارفین کو اس طرح کے تشہیری پیغامات ملتے رہتے ہیں، لیکن ایک عام صارف اس بات سے لاعلم ہے کہ آخر ان پیغامات سے جان کیسے چھڑائی جائے

حال ہی میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو کئی ایسی شکایات موصول ہوئیں جو پاکستان میں بننے والے مختلف کپڑوں کے برانڈز کی طرف سے تشہیری میسجز کے بارے میں تھیں

ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں متواتر مختلف برانڈز کی طرف سے اشتہارات آتے رہتے ہیں جو بلاک کرنے کے باوجود بھی نہیں رکتے

ان شکایات کے جواب میں پی ٹی اے نے سوشل میڈیا پر معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو سوشل میڈیا پر ہی لوگوں نے مزید شکایات کے انبار لگا دیے

◼️ ان تشہیری میسجز کو کیسے بلاک کیا جائے؟

اس بارے میں پی ٹی اے کے ترجمان خرم مہران کہتے ہیں ”تشہیری پیغامات کو بلاک کرنے کے لیے صارفین اپنے موبائل نمبر کو ’ڈو ناٹ کال رجسٹر‘ میں درج کرا دیں“

خرم مہران نے کہا کہ صارفین اگر کسی مخصوص برانڈ کی جانب سے پیغامات موصول نہیں کرنا چاہتے تو ’unsub‘ لکھ کر اسی برانڈ کے شارٹ کوڈ یعنی اسی میسج کے جواب میں بھیج دیں۔ یہ شارٹ برانڈ کوڈ ہر موصول ہونے والے میسج کے نیچے موجود ہوتا ہے

پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ صارفین اپنے موبائل فون آپریٹر جیسے کہ جاز، یوفون اور زونگ سے بھی ایسے پیغامات کو روکنے کے لیے مدد لے سکتے ہیں

پی ٹی اے کے ترجمان خرم مہران نے کہا ’ہم لوگوں تک اطلاع پہنچا سکتے ہیں لیکن انہیں گرفتار کرنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں ہے‘

ٹیلی مارکیٹنگ کمپنیاں عوام کا ڈیٹا کیسے حاصل کرتی ہیں؟

پاکستان میں کام کرنے والی جتنی بھی بزنس کمپنیاں ہیں، مختلف طریقوں سے عام عوام کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرتی ہیں

پاکستان کے بینکنگ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے ایک ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ”یا تو کمپنیاں خود کسٹمر سے ان کی تفصیلات جیسے کہ نام، فون نمبر اور پتہ وغیرہ لے لیتے ہیں، یا پھر کسٹمرز کو ٹریک کرکے حاصل کی جاتی ہیں مطلب یہ کہ وہ کونسی ویب سائیٹ کا استعمال کرتے ہیں، اگر فیسبُک پر اس کمپنی یا اس جیسے برانڈ کو پسند کرتے ہیں، تو اس کے ذریعے بھی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ ایک طریقہ کسٹمر ڈیٹا کو مختلف ویب سائیٹس سے خریدنے کا ہے، اور زیادہ تر کامیاب کمپنیوں کا بزنس انہی تین باتوں کے گرد گھومتا ہے“

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ”اکثر اوقات بینک، بڑے برانڈز کے مالکان اور دیگر کمپنیاں کسٹمر ڈیٹا خریدنے سے پہلے لوگوں سے بھی براہِ راست رائے لیتی ہیں۔۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ اپنے سوشل میڈیا صفحات کے ذریعے لوگوں کی پسند یا نا پسندیدگی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی صارفین کے ڈیٹا کو انہی کے سوشل میڈیا صفحات کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر کسٹمر خود اپنا ڈیٹا استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں جب وہ ان سوشل میڈیا صفحات پر اپنی پروفائل بناتے ہیں۔ یا گوگل پر آنے والے اشتہارات کو اپنا ڈیٹا جانچنے کی اجازت دیتے ہیں“

انہوں نے بتایا ”زیادہ تر کمپنیوں کو ملنے والی اطلاعات ایک کھیپ کی صورت میں آتی ہیں۔ ان معلومات کو کمپیوٹر کے ذریعے چھانٹا جاتا ہے اور مختلف خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں کسٹمر کی پسند نا پسند، بچت اسکیم کی کامیابی یا ناکامی، اور نئے پروڈکٹ کے بارے میں معلومات لی جاتی ہیں“

ایسا کرنے کے پیچھے کمپنیوں کا مقصد کسٹمر کے لیے آسانی پیدا کرنا، اپنی مارکیٹنگ کو بہتر بنانا اور ملنے والے ڈیٹا سے پیسے کمانا ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مزید ڈیٹا جمع کرنا ہوتا ہے

لیکن کمپنی کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور اپنے پروڈکٹ کی تشہیر کرنے کے چکر میں بہت سے صارفین کا ذاتی ڈیٹا مختلف کمپنیوں تک ان کی مرضی کے بغیر شئیر کیا جاتا ہے

پی ٹی اے کا کام کیا ہے؟

ڈیٹا سے متعلق قوانین پر کام کرنے والی کارکن فریحہ عزیز کہتی ہیں ”زیادہ تر عوام کا ذاتی ڈیٹا اکثر کمپنیاں ان کی اجازت کے بغیر استعمال کرتی ہیں۔ پی ٹی اے کا کام صرف پابندی لگانا یا بلاک کرنا نہیں بلکہ ڈیٹا پالیسی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا بھی ہے۔ پی ٹی اے اور فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو مفادِ عامہ میں پیغامات جاری کرنے ہونگے“

انہوں نے کہا ”کسی بھی قسم کے تشہیری پیغام کو بلاک کرنے کے علاوہ پی ٹی اے کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اس قسم کے فراڈ سے کیسے بچا جائے“

فریحہ کہتی ہیں ”ایک دو سال پہلے تک ڈیٹا کی حفاظت کے لیے ایک بِل پر بات کی جا رہی تھی لیکن بعد میں اس پر کوئی گفت و شنید نہیں ہو سکی۔ قانون بنانا ایک حل ہے، لیکن لوگوں تک عام اطلاعات پہنچانا بھی بہت ضروری ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ ان کا ڈیٹا کیسے استعمال ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ تشہیری پیغامات کو روکنا بہت ضروری ہے لیکن اس کے لیے لوگوں کو بتانا ہوگا کہ ڈیٹا مختلف ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے اور ایک روز میں کسی میسج کو بلاک کرنے سے یہ سلسلہ نہیں رک سکتا“

دوسری جانب ڈیٹا پر کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ایپ کے ذریعے جتنا بھی ڈیٹا کمپنیاں استعمال کرتی ہیں، ان کو اپنے صارفین کو بتانا چاہیے کہ وہ کہاں اور کیوں استعمال ہو رہا ہے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close