ٹرمپ کے گھر کی تلاشی، ایف آئی اے کا ’ٹاپ سیکرٹ‘ دستاویزات برآمد کرنے کا دعویٰ

ویب ڈیسک

امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ریاست فلوریڈا کے پام بیچ میں واقع رہائش گاہ مار۔اے۔لاگو سے ’انتہائی خفیہ‘ اور بہت حساس نوعیت کی دستاویزات برآمد کی ہیں، جو اس کے مطابق جاسوسی ایکٹ انکوائری کا حصہ ہے

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی محکمہ انصاف نے کہا ہے ”سابق صدر کے گھر کی تلاشی کی وجہ جاسوسی کے قانون کی خلاف ورزی تھی“

یہ انکشاف ایف بی آئی کے چھاپے کے چار دن بعد کیا گیا ہے، جس کے لیے امریکی مجسٹریٹ جج نے سرچ وارنٹ جاری کیا تھا

وفاقی جج نے وہ اجازت نامہ کھولنے کا حکم دیا تھا، جس کے تحت رواں ہفتے پیر کو سابق صدر کی نجی رہائش گاہ کی تلاشی کی اچانک اجازت دی گئی تھی، جس کی پہلے کوئی مثال موجود نہیں

سابق صدر کے گھر پر چھاپے اور تلاشی کے لیے جاری کیے گئے وارنٹ میں جاسوسی کے قانون کا حوالہ دیا گیا تھا، جس کے مطابق ایسی معلومات کو عام کرنا جرم ہے، جو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا باعث ہوں

عدالت کی طرف سے کھولی گئی دستاویزت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آئی نے رواں ہفتے ٹرمپ کی رہائش گاہ کی تلاشی لے کر وہاں سے خفیہ معلومات کے گیارہ کارٹن قبضے میں لیے

ضبط کیے گئے ریکارڈ میں شامل چند دستاویزات نہ صرف ’انتہائی خفیہ‘ ہیں بلکہ ان میں سے کچھ ’انٹیلیجنس سے متعلق انتہائی حساس معلومات‘ بھی ہیں۔ یہ ایک خصوصی کیٹیگری ہے، جس کا مقصد ملک کے اہم ترین رازوں کی حفاظت کرنا ہے، جنہیں اگر عام کر دیا جائے تو امریکی مفادات کو ’غیر معمولی طور پر شدید‘ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عدالتی ریکارڈ نے دستاویزات میں موجود معلومات کے بارے میں مخصوص تفصیلات فراہم نہیں کیں

وارنٹ کے مطابق وفاقی ایجنٹ تین مختلف وفاقی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی چھان بین کر رہے تھے، جن میں جاسوسی ایکٹ کے تحت دفاعی معلومات کو جمع کرنے، منتقل کرنے یا کھونے کے عمل کو کنٹرول کرنے والا ایک قانون بھی شامل ہے۔ دیگر قوانین ریکارڈ کو چھپانے، خراب کرنے یا ہٹانے اور وفاقی تحقیقات میں ریکارڈ بدلنے یا جعلسازی کے بارے میں ہیں

عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وفاقی ایجنٹس نے ممکنہ طور پر دوسرا صدارتی ریکارڈ بھی حاصل کیا، جس میں ٹرمپ کے حلیف روجر اسٹون کو دی گئی معافی اور وہ دستاویزات شامل ہیں، جن پر چمڑے کی جِلد چڑھائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ فرانس کے صدر کے بارے میں معلومات، تصاویر، دستی تحریر اور ملی جلی خفیہ دستاویزات بھی شامل ہیں، جنہیں تلاشی کے دوران تحویل میں لے گیا

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے ”تمام ریکارڈ ’ڈی کلاسیفائیڈ‘ یعنی پہلے ہی عام کیا جا چکا تھا اور اس کو ’محفوظ جگہ‘ پر رکھا گیا تھا“

ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق صدر نے کہا ”ان کو گھر پر چھاپہ مارنے اور سیاست کرنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ جس وقت چاہتے لے جاتے۔ ان کو کچھ بھی قبضے میں لینے کی ضرورت نہیں تھی“

اگرچہ صدور کے پاس عام طور پر معلومات کو ڈی کلاسیفائی کرنے کا اختیار ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ عہدہ چھوڑتے ہیں، یہ اختیار ختم ہو جاتا ہے اور یہ واضح نہیں کہ آیا زیر بحث دستاویزات کو کبھی ڈی کلاسیفائیڈ کیا گیا یا نہیں

جوہری ہتھیاروں کے پروگرامز، خفیہ آپریشنز، ایجنٹس، اور اتحادیوں کے ساتھ شیئر کیے گئے کچھ ڈیٹا سے متعلق رازوں کے حوالے سے بھی خفیہ معلومات عام کرنے کا صدارتی اختیار محدود ہو سکتا ہے

وفاقی قانون کے مطابق نیشنل آرکائیوز سمیت ایجنسیوں کی جانب سے صدارتی ریکارڈ حوالے کرنے کی متعدد درخواستوں کے باوجود ٹرمپ نے دستاویزات کو اپنے پاس رکھا

صدر جو بائیڈن کے نامزد کردہ اٹارنی جنرل مارک گارلینڈ نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ انہوں نے خود ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر کی تلاشی لینے کی اجازت دی تھی

پیر دیا گیا مار-اے-لاگو کا سرچ وارنٹ اس سال کے شروع میں ٹرمپ کے گھر سے برآمد ہونے والے خفیہ وائٹ ہاؤس کے ریکارڈ کے بارے میں محکمہ انصاف کی جاری تحقیقات کا حصہ ہے

دی آرکائیوز نے محکمے سے یہ کہہ کر تحقیقات کرنے کو کہا تھا کہ اسٹیٹ سے ملنے والے ریکارڈ کے پندرہ ڈبوں میں کلاسیفائیڈ ریکارڈ بھی شامل ہے

جمعرات کو امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ان تحقیقات سے قریبی طور پر واقف گمنام ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ چھاپے کے دوران ایف بی آئی کے ایجنٹوں کی طرف سے مانگے گئے کاغذات میں جوہری ہتھیاروں سے متعلق خفیہ دستاویزات بھی شامل تھیں

اخبار نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا ملوث جوہری ہتھیاروں کا تعلق امریکہ سے ہے یا کسی اور ملک سے، نیز یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا اس طرح کی دستاویزات سابق صدر کے پام بیچ میں واقع ریزورٹ سے برآمد ہوئی یا نہیں

جب ایجنٹس نے مار۔اے۔لاگو میں تلاشی لی اس وقت ٹرمپ کے وکیل کرسچیئن بوب وہاں موجود تھے، جنہوں نے پراپرٹی کی دو رسیدوں پر دستخط کیے۔ ان میں ایک دو صفحات اور دوسری ایک صفحے کی دستاویز تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close