یہ نیپال کا ایک نشیبی علاقہ ہے، ترائی کی پہاڑیوں کی سردیوں کی دھند چھائی ہوئی ہے۔۔ اسی دھند سے اٹھارہ سالہ ہیما کسونڈا گلابی رنگ کے ہُڈ والی سویٹ شرٹ میں لپٹی اسکول کے بورڈنگ ہاؤس سے باہر نکلتی ہیں
ہیما یہاں پر کسونڈا قبیلے کی آخری کڑی ہیں۔ کسونڈا قبیلہ ایک ایک چھوٹا سا مقامی گروہ ہے جو اب وسطی مغربی نیپال میں آباد ہے
ان کی زبان، جسے کسونڈا کہا جاتا ہے، ایک بہت منفرد نوعیت کی ہے۔ جس کے متعلق ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ اس کا دنیا کی کسی دوسری زبان سے کوئی تعلق نہیں ہے
ماہرین ابھی تک اس بات سے لاعلم ہیں کہ اس زبان کی ابتدا کیسے ہوئی۔ اور اس میں مختلف قسم کے غیر معمولی عناصر ہیں، جن میں کسی جملے کی نفی کرنے کا کوئی معیاری طریقہ نہ ہونا بھی شامل ہے
جی ہاں، آپ یہ سن کر حیران رہ جائیں گے کہ اس زبان میں ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ کے الفاظ ہی نہیں ہیں!
ایسے ہی اس زبان میں سمت کے تعین کے لیے بھی کوئی الفاظ نہیں پائے جاتے ہیں۔ اور اس زبان کی کوئی باقاعدہ لغت بھی نہیں ہے
آخری بار سنہ 2011 میں نیپال میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گھرے ہوئے ملک میں محض 273 کسونڈا باقی رہ گئے ہیں
لیکن ان میں صرف ایک خاتون، اڑتالیس برس کی کملا کھتری، ہی ایسی ہیں جو یہ زبان روانی سے بول سکتی ہیں
کسونڈا نیپالی معاشرے میں انتہائی پسماندہ اور غریب برادری ہے۔ اس برادری کی اب زیادہ تر تعداد مغربی نیپال کے ڈانگ ضلع میں آباد ہے، جو پیلے سرسوں کے کھیتوں اور دُھند میں لپٹی جنگلاتی پہاڑیوں کا ایک علاقہ ہے
یہیں پر نیپال کا لینگویج کمیشن سنہ 2019ع سے کسونڈا زبان کو محفوظ رکھنے کی کوشش میں اس زبان کو سکھانے کی کلاسز کا اہتمام کر رہا ہے
گذشتہ دہائی میں حکومت نے نیپال کے مقامی گروہوں کی مدد کے لیے اسکیمیں شروع کی ہیں، حکومت نے ہیما اور دیگر کسونڈا برادری کے بچوں کو دُور دراز علاقوں سے ڈانگ کے مہندرا ہائی اسکول میں ہاسٹل کے لیے ادائیگی کرنا بھی شروع کر دی ہے
اس جگہ سے دس گھنٹے کے فاصلے پر بھی ان کی مدد کی جاتی ہے، جہاں انہیں ان کی مادری زبان بھی سکھائی جا رہی ہے
ہیما بنیادی طور پر ڈانگ سے متصل دیہی پیوتھن ضلع کے ایک گاؤں کی رہائشی ہیں، اور وہ دو برس سے کسونڈا سیکھ رہی ہیں اور اب وہ کسی حد تک یہ زبان بولنے کے قابل ہو گئی ہیں
ہیما کہتی ہیں ”ڈانگ میں اسکول آنے سے پہلے میں کسونڈا زبان سے بالکل ناواقف تھی۔ لیکن اب مجھے کسونڈا بولنے پر فخر ہے حالانکہ میں نے اس زبان کو شروع سے نہیں سیکھا تھا“
انہوں نے کہا ”جب میں تھار اور مگارس جیسے دوسرے نسلی گروہوں کے افراد کو ان کی زبان بولتے ہوئے سنتی تھی تو میں یہ سوچتی تھی کہ اپنی مادری زبان میں بات کرنا کیسا ہوگا؟ میرے خیال میں اس زبان کی حفاظت کرنا میرے اور دوسروں کے لیے بہت ضروری ہے“
کسونڈا برادری اور ان کی معدوم ہوتی زبان
بنیادی طور پر نیم خانہ بدوش کسونڈا بیسویں صدی کے وسط تک مغربی نیپال کے جنگلوں میں آباد تھے، جہاں وہ پرندوں اور چھپکلیوں کا شکار کرتے تھے اور قریبی قصبوں میں چاول اور آٹے کے لیے شکرقندی اور گوشت کی تجارت کرتے تھے۔ یہ برادری دیہاتوں میں آباد ہے اور اب بھی یہ اپنے آپ کو ’بان راجا‘ یعنی ’جنگل کا بادشاہ‘ کہتے ہیں
لیکن جیسے جیسے نیپال کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا، کھیتی باڑی نے تیزی سے جنگلات کے حصے بخرے کر دیے، اور یوں کسونڈا کمیونٹی کے آبائی علاقوں پر بھی آبادی کے دباؤ میں اضافہ ہوا
پھر سنہ 1950ع کی دہائی میں حکومت نے ان کی خانہ بدوش زندگی میں مزید رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے جنگلات کے بڑے حصے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا
کسونڈا کو آباد ہونے پر مجبور کیا گیا، وہ مزدوری اور زراعت میں ملازمتیں کرنے لگے۔ گروپ میں کم تعداد اور ان کی آبادی کی مختلف نوعیت کا مطلب ہے کہ انہوں نے زیادہ تر پڑوسی نسلی گروہوں سے شادی کی۔ اس طرح تقریباً سبھی نے اپنی زبان بولنا چھوڑ دی
کسونڈا کے لوگوں کے لیے اپنی زبان کھو دینے کا مطلب اپنے ماضی اور اپنی شناخت سے ایک ربط کھو دینا ہے
لسانی نقطہ نظر سے، یہ دوسرے طریقوں سے بھی نقصان کا باعث ہے
کھٹمنڈو کی تریبھون یونیورسٹی میں لسانیات کے پروفیسر مادھو پوکھارل گذشتہ پندرہ برس سے کسونڈا زبان کو دستاویزی شکل دینے کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں
وہ کہتے ہیں ”متعدد مطالعہ جات نے اس کو دیگر الگ تھلگ زبانوں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ شمالی پاکستان سے بروشسکی اور ہندوستان کی نہالی زبان۔ لیکن سبھی کوئی واضح نتیجہ نکالنے میں ناکام رہے ہیں“
اب لسانی محققین کا خیال ہے کہ کسونڈا تبتی۔برمن اور ہند-آریائی قبائل کی آمد سے پہلے ذیلی ہمالیائی علاقوں میں بولی جانے والی ایک قدیم آبائی زبانوں میں سے ایک ہے، جو ابھی معدوم نہیں ہوئی ہے
پروفیسر مادھو پوکھارل کہتے ہیں ”ہم نیپال میں دیگر تمام زبانوں کے گروہوں کو نیپال سے باہر سے آنے والے لوگوں سے پتا چلا سکتے ہیں۔ یہ صرف کسونڈا ہے، جس کی ابتدا ہمیں معلوم نہیں“
اس کے پُراسرار آغاز کے ساتھ ساتھ ماہرین لسانیات نے کسونڈا زبان کے بہت سے نایاب عناصر کا پتا چلایا ہے
بھوجراج گوتم، ماہر لسانیات ہیں، جنہیں کسونڈا زبان سے متعلق گہری معلومات ہیں، ایک سب سے عجیب بات بتاتے ہیں کہ اس زبان میں کسی جملے کی نفی کرنے کا کوئی معیاری طریقہ نہیں ہے
درحقیقت، زبان میں کچھ ایسے الفاظ ہوتے ہیں جو کسی بھی منفی چیز کو ظاہر کرتے ہیں
اس کے بجائے، سیاق و سباق کو صحیح معنی دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ”مجھے چائے نہیں چاہیے“ مثال کے طور پر، آپ پینے کے لیے فعل کا استعمال کر سکتے ہیں، لیکن ایک خاص انداز میں تاکہ بات سمجھ آ جائے وگرنہ چائے پینے سے متلعق کہنے والے کی خواہش کے صیحح اظہار کے لیے بہت کم متبادل الفاظ موجود ہیں
کسونڈا میں سمت کے صحیح تعین کے لیے کوئی الفاظ نہیں ہیں، جیسے کہ بائیں یا دائیں۔ اب ایسے میں بولنے والا اس کے بجائے ”اِس طرف“ اور ”اُس طرف“ جیسے جملے استعمال کرتے ہیں
دریں اثنا، ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ کسونڈا کے پاس زیادہ تر زبانوں میں پائے جانے والے گرامر کے اصول یا ڈھانچہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے فقروں کو کہنے والے کی بات کے تناظر میں دیکھنا ہوگا
مثال کے طور پر کسی کام کے لیے ماضی یا حال کا صیغہ استعمال نہیں کیا جاتا۔ جب کہا جائے کہ ”میں ایک پرندہ دیکھوں گا“ کے مقابلے میں ”میں نے ایک پرندہ دیکھا“ کہنے پر ایک کسونڈا زبان بولنے والا ماضی کے عمل کی نشاندہی کر سکتا ہے، وہ اس کی نشاندہی جملے سے نہیں بلکہ وہ اسے بولنے والے کے تجربے کی روشنی میں بتا سکتا ہے
اسی طرح مستقبل کے کسی عمل کے بارے میں عام نوعیت سے بات ہوگی اور اسے کسی خاص صیغے سے نہیں جوڑا جائے گا
یہ نایاب خوبیاں ہی کسونڈا زبان کو ماہرینِ لسانیات کے لیے اتنا پُرکشش بنا دیتی ہے۔ کسی حد تک ماہرین اسی وجہ سے اس زبان کی بقا کے لیے کام کر رہے ہیں
کملا کھتری، کسونڈا کی آخری روانی سے بولنے والی خاتون ہیں، جو گوراہی کے علاقے میں واقع واحد کافی شاپ پر گرم پانی کا گلاس پکڑے کھڑی ہیں
وہ کہتی ہیں ”میں نے کسونڈا زبان اپنے بچوں کو نہیں سکھائی۔ میں نے سوچا کہ انہیں نیپالی زبان سیکھنی چاہیے کیونکہ یہ مفید ہے۔ لوگ ہماری زبان کا مذاق اُڑاتے ہیں اور کہتے کہ یہ معمول کی بات نہیں ہے“
کملا نے کہا ”کسونڈا بولنے والوں کو بہت بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اب مجھے افسوس ہے کہ میں اپنے بچوں سے اپنی زبان میں بات نہیں کر سکتی“
کملا کھتری اب لینگویج کمیشن کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ وہ گوراہی میں دس کمیونٹی کے لوگوں کو کسونڈا زبان سکھا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”اگر ہم باقاعدگی سے بات کریں، بولیں اور اپنے گانے گائیں تو تب ہی ممکن ہے کہ ہم اپنی زبان کی حفاظت کر سکتے ہیں“
مادھو پوکھارل کے خیال میں کسونڈا کے دیگر لوگوں کے لیے مل کر زبان سیکھنا اس زبان کی بقا کی ضمانت ہے
وہ کسونڈا بولنے والوں کی اس اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں، جس میں وہ اپنی یاددوں کو تازہ کرنے میں مدد کرنے کے لیے پروان چڑھے ہیں۔ مادھو پوکھارل کا کہنا ہے کہ ‘اگر ہم تمام کسونڈا کو ایک ہی جگہ، وہ اصل جگہ جہاں وہ رہنے کا دعویٰ کرتے ہیں لا سکتے ہیں تو ایک کسونڈا اپنی کہانیاں دوسری کسونڈا کو سنائے گا، اور اس سے ان کی یادیں تازہ ہو جائیں گی“
زبانوں کو زندہ رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ناؤ ہیر میڈیا ( NowHere Media) برلن میں قائم ایک میڈیا اسٹوڈیو ہے، جو کسونڈا والوں کو ان کی زبان، ثقافت اور روایات کو دستاویزی شکل دینے میں ان کی مدد کر رہا ہے
خاص طور پر، ناؤ ہیر نے ایک ورچوئل ریئلٹی دستاویزی فلم تیار کی ہے، جو تھری ڈی اینیمیشن کا استعمال کرتی ہے تاکہ کسونڈاؤں کی خانہ بدوش زندگی کو جمع ہونے والے شکاریوں کی طرح دکھایا جائے
ناؤ ہیر کے شریک بانی گایتری پرمیشورن کا کہنا ہے ”ناظرین، ہیڈ سیٹ پہنے ہوئے، اس ماحول میں چلے جاتے ہیں، اور پھر ایسے میں انہیں کہانی کے ساتھ بات کو جاری رکھنے کے لیے کسونڈا میں الفاظ سیکھنے اور بولنے چاہیں“
گایتری پرمیشورن بتاتے ہیں ”مجموعی مقصد ایک ڈجیٹل آرکائیو بنانا ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے دستیاب ہو“
تاہم کسونڈا زبان کا تحفظ کہانی کا صرف ایک حصہ ہے
نیپال کسونڈا ڈیولپمنٹ سوسائٹی کے چیئرمین دھن بہادر کسونڈا کے مطابق، زیادہ تر کسونڈا خطِ غربت سے نیچے رہتے ہیں، جن کے پاس زمین کا کوئی حق نہیں ہے، اور وہ مزدور یا پورٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق معاشی اور سماجی طور پر، صحت اور تعلیم کے لحاظ سے کسونڈا بہت پسماندہ ہیں
لینگویج کمیشن کے سکریٹری لوک بہادر لوپچن کا کہنا ہے ”یہ وہ جگہ ہے جہاں کسونڈا زبان کے بارے میں بیداری پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے: یہ کسونڈا کے پسماندگی کی طرف توجہ مبذول کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے“
لوک بہادر کا کہنا ہے ”نیپال میں زبان کے احیا کے دیگر منصوبے ان برادریوں کے ساتھ ہیں، جو کسونڈا سے کہیں بہتر ہیں“
ان کے مطابق ”ان گروہوں کے لیے، زبان کا تحفظ محض ایک جذباتی خیال ہے۔ اس سے انہیں کوئی اور ٹھوس فائدہ نہیں پہنچتا“
تاہم، کسونڈا بہت پسماندہ ہیں اور اس لیے ایک زبان بولنے والے برادری کے طور پر پروفائل بنانا زیادہ ضروری ہے
دوسرے ماہرین اس سے متفق ہیں۔ لوک بہادر لوپچن کہتے ہیں ”اگر کسونڈا کے پاس اپنی زبان نہیں ہے، تو انہیں نیپال کے تمام پسماندہ گروہوں سے ممتاز کرنے کے لیے باقی پھر کچھ بھی نہیں بچتا۔ زبان انہیں ایک شناخت دے رہی ہے، اور حکومت کی توجہ مبذول کر رہی ہے“
یونیورسٹی آف لندن ٹِم بوٹ کے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو سمیت محققین کی مدد سے، کسونڈا اب ایک علیحدہ علاقے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جسے وہ ’ایکِکریت بستی’ یعنی ایک متحد بستی، جہاں تمام کسونڈا اکٹھے رہ سکیں
ٹم بوٹ اور ان کے نیپالی ریسرچ پارٹنر ادھے راج ایلے اس وقت اس مقصد کے لیے فنڈنگ جمع کرنے جا رہے ہیں تا کہ وہ اس نئی بستی کے حوالے سے وہ کوئی فزیبیلٹی اسٹڈی (پی سی ون) تیار کر سکیں
ٹم بوٹ کے مطابق یہ نئی آبادی نہ صرف کمیونٹی کے جائیداد کے حقوق کو محفوظ بنائے گا اور ایک صحت مرکز اور اسکول فراہم کرے گا- یہ گروپ کو اکٹھا کرے گا، اور انہیں اپنی زبان میں سیکھنے اور بات چیت کرنے کا موقع فراہم کرے گا
کسونڈا زبان کو زندہ کرنے کے دیگر ممکنہ فوائد
تحقیق سے پتا چلا کہ مقامی زبان کی بحالی میں جسمانی اور ذہنی بہتری بھی مضمر ہے۔ تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ شمالی امریکہ میں مقامی زبان کا استعمال آبادی میں سگریٹ کے استعمال کی کم شرح، جسمانی اور ذہنی تندرستی کے اشارے کی اعلیٰ سطح اور ذیابیطس کی نچلی سطح کے ساتھ تعلق ظاہر کرتا ہے
دریں اثنا کینیڈا میں برٹش کولمبیا میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مقامی کمیونٹیز میں نوجوانوں کی خودکشی چھ گنا زیادہ تھی، جہاں پچاس فیصد سے بھی کم ممبران اپنی مادری زبان میں بات چیت کے لیے روانی سے بات کر سکتے تھے
آسٹریلیا کی آبنائے ٹوریس کمیونٹیز میں مقامی زبان بولنے والے بہت کم شراب پینے اور غیرقانونی منشیات استعمال کرتی ہیں
جولیا سلابنک، جو لندن یونیورسٹی میں زبان کی پالیسی اور احیا کی پروفیسر ہیں، کہتی ہیں ”زبان کی تبدیلی اکثر نوآبادیات یا جبر سے ہونے والے تاریخی صدمے سے منسلک ہوتی ہے۔۔ لہٰذا ہم اس صورتحال سے انہیں باہر نکالنے کی کوشش سکتے ہیں: کسی کی زبان اور ثقافتی شناخت کا دوبارہ دعویٰ کرنا ذاتی اور برادری دونوں سطحوں پر انہیں بااختیار بنا سکتا ہے“
کسونڈا کمیونٹی کی ہیما بھی ایسا ہی سوچتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”مجھے لگتا ہے کہ میں اس زبان کو آگے لے جا سکتی ہوں۔ اگر ہم باقاعدگی سے کسونڈا بول سکتے ہیں اور اس کی مشق کر سکتے ہیں تو ہم زبان کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ یہ اپنی زبان میں دلچسپی اور اپنی شناخت پر فخر کرنے کے بارے میں ہے“
ہیما کہتی ہیں ”میں مستقبل میں اسے اپنا کریئر بنانا چاہتی ہغ، یعنی زبان کی ٹیچر بن جاؤں اور کسونڈا پڑھاؤں“
یہ نیپال کا ایک نشیبی علاقہ ہے، ترائی کی پہاڑیوں کی سردیوں کی دھند چھائی ہوئی ہے۔۔ اسی دھند سے اٹھارہ سالہ ہیما کسونڈا اسکول کے بورڈنگ ہاؤس سے باہر نکلتی ہیں۔۔۔ کیا کسونڈا زبان بھی معدومیت کے دھند سے نکل پائے گی؟