قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے (پی ڈی ایم اے) کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان میں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے سے ہونے والی تباہی کا سلسلہ جاری ہے، جس میں مزید دس افراد جاں بحق ہو گئے ہیں
ڈپٹی کمشنر موسیٰ خیل نے تصدیق کی ہے کہ اتوار کی شب ہونے والی بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلابی ریلے سے موسیٰ خیل میں نو افراد جان سے گئے
علاقے میں بارش کا سلسلہ پیر کو بھی جاری رہا۔ پی ڈی ایم اے حکام نے بتایا کہ قلعہ عبداللہ سے مزید ایک شخص کی لاش برآمد کرلی گئی ہے
سیلاب سبی، بھاگ، کوہلو اور بارکھان میں بھی گھروں اور فصلوں کو بہا کر لے گیا ہے
صوبہ بھر میں جون سے شروع ہونے والی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ اگست میں نیا سلسلہ مزید علاقوں کو لپیٹ میں لے کر مزید تباہی کا باعث بنا ہے
بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں ضلعی انتظامیہ نے بتایا ہے کہ 14 اگست کو ہونے والی طوفانی بارشوں کے باعث پیدا ہونے والے سیلابی ریلوں نے کئی گھروں اور فصلوں کو تباہ کر دیا ہے
ڈپٹی کمشنر موسیٰ خیل یاسر اقبال کے مطابق سیلابی ریلوں میں بہہ جانے سے اب تک نو افراد ہلاک ہو چکے ہیں
ڈپٹی کمشنر یاسر اقبال نے بتایا کہ سیلابی ریلوں کے باعث تحصیل توئی سر، تیسری، کنگری میں نقصانا ت ہوئے ہیں
تقریباً ایک سو کے قریب گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ ہزاروں مال مویشی بھی بہہ گئے۔ ہزاروں ایکڑ فصلیں بھی تباہ ہوئی ہیں۔ دو ڈیموں میں بھی دراڑیں پڑی ہیں
انہوں نے بتایا کہ ریلیف کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ پانچ خاندانوں کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کیا گیا۔ بیس خاندانوں کو سیلاب سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
یاسر اقبال کا کہنا تھا کہ موسیٰ خیل کنگری شاہراہ کو بحال کرکے 100 خاندانوں کو ریلیف کا سامان دیا گیا ہے، جبکہ موسیٰ خیل درگ شاہراہ کی بحالی کے لیے کام جاری ہے
موسیٰ خیل کے سماجی ورکر اور یغ دا انقلاب (انقلاب کی آواز) نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والے عبدالجبار نے بتایا کہ بارشوں اور سیلاب سے سب تحصیل توئی سر، سب تحصیل تیئرایسوٹ، تحصیل کنگری کا یونین کونسل راڑہ شم زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ مختلف تحصیلوں میں سینکڑوں مال مویشی جن میں اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکریاں شامل تھیں پانی کے ساتھ بہہ گئی ہیں۔ چاروں اطراف موجود سڑکیں بند ہیں۔ کھمبے گرنے سے بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی ہے
ادھر بارکھان کے علاقہ ضلع کوہلو میں بھی حالیہ بارشوں اور سیلابی ریلوں سے تباہی ہوئی ہے۔ سماجی کارکن دوران خان نے بتایا کہ بارش اور سیلابی ریلوں سے پندرہ گھر مکمل تباہ ہوگئے ہیں۔ شاہراہوں اور فصلوں سمیت مال مویشیوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔‘
ادھر سبی میں تلی ندی میں سیلابی ریلے مل گشگوری اور ملحقہ علاقوں میں متعدد مکانات کو نقصان پہنچانے کے علاوہ مال مویشی بہا کر لے گئے
سیلاب نے ضلع کچھی کے علاقے بھاگ میں بھی تباہی مچادی اور پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوا۔ غریب آباد کے علاقے سے موصول ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پانی سے لوگوں کےگھر ڈوب چکے ہیں
مقامی شہری سفر خان نے بتایا کہ ’پانی زیادہ کھڑا ہونے سے کچے گھروں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ نکاسی آب کےلیے کوئی انتظامات نہیں ہیں۔ مکینوں کے روزمرہ معاملات پانی کے باعث معطل ہوکر رہ گئے ہیں۔‘
دوسری جانب قدرتی آفات سے نمٹنے صوبائی ادارے کے حکام کے مطابق جون سے لے کر اب تک بارشوں اور سیلا ب سے مجموعی طور پر 196 افراد ہلاک ہوچکے ہیں
کراچی میں بارش کے دوران کرنٹ لگنے سے تین افراد جاں بحق
پولیس، ہسپتال اور ریسکیو ذرائع کے مطابق سندھ کے دارالحکومت کراچی میں مسلسل بارش کی وجہ سے کرنٹ لگنے کے واقعات میں تین شہری جاں بحق ہوگئے ہیں
پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید کا کہنا تھا کہ قائد آباد سے ایک شہری کی لاش جناح ہسپتال منتقل کی گئی ہے۔ باون سالہ شاہد ظفر کی ہلاکت یونس چورنگی کے قریب کرنٹ لگنے سے ہوئی
قائد آباد کے ایس ایچ او ملک اشرف نے کہا کہ جاں بحق ہونے والا شہری اولمپیا ملز میں ملازم تھا اور وہاں ہی کرنٹ لگنے سے اس کی ہلاکت ہوئی اور بعد ازاں ان کی اہلیہ اور بھائی بغیر کسی قانونی کارروائی کے لاش کو آخری رسومات کے لیے لے گئے
ایک اور واقعے میں منگھو پیر کے علاقے میں دو شہری کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگئے
ایس ایچ او منگھو پیر یٰسین گجر کا کہنا تھا کہ سینتالیس سالہ امام بخش اور بیس سالہ نوجوان منگھو پیر میں کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے
انہوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والے دونوں مزدور تھے اور نورانی ہوٹل کے قریب گھر میں مرمت کا کام کرتے وقت کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگئے، جن کی لاشیں طبی معائنے کے لیے عباسی شہید ہسپتال منتقل کی گئیں
واضح رہے کہ کراچی میں جولائی کے پہلے ہفتے سے مون سون کی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور بارش کے کئی اسپیل آچکے ہیں جس دوران متعدد ہلاکتیں ہوچکی ہیں، جن میں زیادہ تر کرنٹ لگنے کے باعث ہوتی ہیں جبکہ شہر کا بنیادی ڈھانچہ بھی شدید متاثر ہوا ہے۔