افغان پائلٹ محمد ادریس مومند کہتے ہیں ”کچھ لوگ شاید مجھ سے خوش نہیں ہوں گے۔ ان کی رائے الگ ہوسکتی ہے۔ لیکن میں انہیں بتاتا ہوں کہ وطن ماں کی طرح ہوتا ہے اور کسی کو اسے دھوکہ نہیں دینا چاہیے“
ادریس ان خاص افغان فوجی پائلٹس میں سے تھے، جنہیں امریکہ میں طویل تربیت دی گئی لیکن جب طالبان کابل پر قبضہ کرنے کے لیے آگے بڑھے تو ادریس نے اپنے اتحادیوں کا ساتھ چھوڑ دیا اور واپس اپنے آبائی علاقے چلے گئے، جہاں انہوں نے خود اپنا ہیلی کاپٹر طالبان کے حوالے کر دیا
ادریس کا کہنا ہے ”میرا مقصد اس اثاثے کو محفوظ رکھنا تھا جو افغانستان کی ملکیت ہے“
ادریس نے سال 2009ع میں افغان فوج میں شمولیت اختیار کی اور انہوں نے چار سال تک امریکی ملٹری اکیڈمی (ویسٹ پوائنٹ) میں ٹریننگ حاصل کی
ابتدائی طور پر انہیں مغربی افغانستان میں ہرات میں تعینات کیا گیا جہاں وہ روسی ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر اڑاتے تھے۔ چار سال بعد انھیں بڑی ترقی دی گئی
وہ بتاتے ہیں ”2018 کے اواخر میں جدید فضائی ٹیکنالوجی کے تجربے والے نوجوان پائلٹس کے ایک گروہ کو بلیک ہاک ہیلی کاپٹر اڑانے کے لیے چُن لیا گیا۔ تب سے میں بلیک ہاکس ہی اڑاتا تھا“
ان بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں کو سپلائی اور ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا
سنہ 2021ع میں وہ مزار شریف میں تھے، جب صدر بائیڈن نے اعلان کیا کہ وہ امریکہ میں نائن الیون حملوں کے بیس سال مکمل ہونے کے موقع پر تمام دستوں کو وطن واپس بلا رہے ہیں۔ جولائی میں انخلا کی تاریخ بدل کر 31 اگست کر دی گئی
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغان فوج کی تربیت اور سامان پر اربوں ڈالر خرچ کیے تھے۔ انھیں امید تھی کہ ان کے انخلا کے بعد وہ طالبان کو روک سکیں گے
لیکن یہ امید محض ایک خواب ثابت ہوئی۔ افغان فوج نے طالبان سے مقابلہ کرتے ہوئے انتہائی تیزی سے ملک کا کنٹرول گنوا دیا
جولائی میں طالبان دیہی علاقوں کا کنٹرول حاصل کر چکے تھے۔ پھر 6 اگست کو پہلا صوبائی دارالحکومت طالبان کے کنٹرول میں چلا گیا
اکثر صوبوں پر قبضے کے بعد طالبان نے 15 اگست کو بغیر کسی رکاوٹ کے کابل کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا
مسلح جنگجوؤں نے سات ستمبر کو کابل کے شمال میں وادی پنجشیر کے لڑنے والے آخری گروہوں کو بھی کچل دیا
فرار ہونے کا حکم
جولائی میں ملک میں افراتفری کے دوران مزار شریف میں ادریس کی چھ ماہ کی ڈیوٹی اختتام پذیر ہوئی۔ وہ 14 اگست کو کابل کے فضائی اڈے پر پہنچے
صورتحال کشیدہ تھی اور ایسی افواہیں تھیں کہ اعلیٰ سیاسی و فوجی قیادت ملک سے فرار ہو رہی ہے
ادرث کو یاد ہے کہ ’ہمارے ایئر فورس کمانڈر نے تمام پائلٹس کو حکم دیا کہ وہ ہیلی کاپٹر لے کر ملک سے چلے جائیں۔ انھوں نے ہمیں ازبکستان جانے کا حکم دیا۔‘
ادریس کو اس حکم پر غصہ آیا۔ انہوں نے یہ حکم نہ ماننے کا فیصلہ کیا
وہ کہتے ہیں ’میرے کمانڈر مجھے ملک سے غداری کا کہہ رہے تھے۔ میں ایسا حکم کیسے مان سکتا ہوں؟ ملک سے غداری بدترین جرم ہے۔ اسی لیے میں نے یہ حکم نہیں مانا‘
ادریس نے جب اپنے خاندان سے مشورہ مانگا تو ان کے والد نے سخت موقف اختیار کیا۔ ’انہوں نے متنبہ کیا کہ وہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے اگر میں نے ملک چھوڑا۔‘ ان کے والد نے ان سے کہا کہ ’ہیلی کاپٹر افغانستان کا ہے۔ یہ ملک سے باہر نہیں جانا چاہیے۔‘
ادریس کے صوبے پر پہلے ہی طالبان کنٹرول حاصل کر چکے تھے۔ ان کے والد نے مقامی گورنر سے بات کی جنہوں نے تسلی دی کہ ہیلی کاپٹر یہاں لایا گیا تو پائلٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا
یوں ادریس نے وہاں سے نکلنے کا منصوبہ بنایا۔ سب سے پہلی رکاوٹ فلائٹ پاتھ یعنی راستے میں تھی۔ ’بلیک ہاک کے عملے میں چار لوگ ہوتے ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ میں اپنے منصوبے کے حوالے سے ان پر اعتبار نہیں کر سکتا تھا‘
’مجھے یقین تھا کہ وہ نہیں مانیں گے۔ وہ میری زندگی کو خطرے میں ڈال سکتے تھے اور ہیلی کاپٹر بھی تباہ کر سکتے تھے۔‘
تو انہوں نے یہ کام عملے کے علم میں لائے بغیر کرنے کا فیصلہ کیا ’میں نے ایئر فورس کمانڈر سے کہا کہ ہیلی کاپٹر میں تکنیکی مسائل ہیں اور میں ٹیک آف نہیں کر سکتا۔ جب انہوں نے یہ سنا تو یہ تین لوگ ایک دوسرے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوگئے جو ازبکستان جا رہا تھا۔‘
کنڑ جانے کا سفر
جب تمام ہیلی کاپٹروں نے اڑان بھر لی تو انھوں نے تیس منٹ میں صوبہ کنڑ جانے کے لیے انجن اسٹارٹ کیا
’ایئر ٹریفک کنٹرول امریکیوں کے زیر انتظام تھی۔ میں نے انہیں ریڈیو پر بتایا کہ میں ازبکستان کے لیے اڑان بھر رہا ہوں۔ ایئر پورٹ سے نکلنے پر میں نے ریڈار موڈ بند کر دیا اور سیدھا کنڑ چلا گیا۔‘
’میں اس گاؤں پہنچا جو میرے گھر سے قریب تھا۔ طالبان کی یقین دہانی کے بعد میں ہیلی کاپٹر اس مقام پر لے گیا جہاں ماضی میں کئی ہیلی کاپٹروں میں ایندھن بھرا جاچکا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کے خاندان، دوستوں اور پڑوسیوں نے ان کے فیصلے کی مکمل حمایت کی
اب انہیں اپنے اقدامات پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے بیوی بچوں سمیت افغانستان چھوڑنے کی پیشکش تھی مگر انھوں نے وہیں رکنے کا فیصلہ کیا
وہ کہتے ہیں کہ ’امریکی معاونین نے تین بار پیغام بھیجا
’انہوں نے کہا کہ اگر آپ ہیلی کاپٹر نہیں بھی لاسکتے تو خود اپنے خاندان کے ہمراہ بذریعہ سڑک آجائیں جہاں سے آپ کا انخلا ممکن ہوسکے گا۔ لیکن میں نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔‘
افغان ایئر فورس کی طاقت
امریکہ میں افغانستان کی بحالی کے لیے قائم سپیشل انسپیکٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق جون 2021 کے اواخر تک افغان ایئر فورس کے پاس 167 طیارے تھے جن میں جنگی ہیلی کاپٹر اور جہاز بھی شامل تھے
ان میں سے کچھ طیارے ادریس کے ساتھی اڑایا کرتے تھے۔ 16 اگست کو ازبکستان کے ترمذ ایئر پورٹ کی سیٹلائٹ تصاویر کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں دو درجن سے زیادہ ہیلی کاپٹر لے جائے گئے۔ ان میں ایم آئی 17، ایم آئی 25، بلیک ہاک، اے 29 لائٹ اٹیک اور سی 208 جہاز بھی شامل ہیں
امریکی دستوں نے جہاں تک ممکن ہوا کابل میں چھوڑے گئے طیاروں کو ناکارہ بنانے کی کوشش کی
یہ غیر واضح ہے کہ اب افغانستان میں کتنے طیارے فعال ہیں
ادریس نے کہا ’اب ہمارے پاس سات بلیک ہاک ہیلی کاپٹر ہیں جو غیر فعال ہیں۔ ان کی مرمت کے لیے افغان انجینیئرز کے پاس محدود وسائل ہیں۔ آہستہ آہستہ ہم دیگر بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں کو فعال بنائیں گے۔‘
وہ اپنے ساتھیوں کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے ملک چھوڑنے کا حکم مان کر افغانستان کو بڑا نقصان پہنچایا۔
’وہ لوگ جو ہیلی کاپٹر اڑا کر ازبکستان چلے گئے انھوں نے اپنے ملک کے ساتھ بُرا کیا۔ ہیلی کاپٹر تو ہمارے ملک کے ہیں۔ یہ مہنگے ہیلی کاپٹر تھے۔ ہمیں نہیں لگتا ہمیں دوبارہ وہ ہیلی کاپٹر مل سکیں گے۔‘
اب ادریس کا کیا ارادہ ہے؟
امریکہ میں ٹریننگ کے دوران انھیں بتایا گیا تھا کہ ایک پائلٹ کو ہیلی کاپٹر اڑانے کی تربیت دینے میں ساٹھ لاکھ ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ ادریس اس سیکھنے کے موقع کو اہمیت دیتے ہیں۔ انھیں آج بھی وہ دن یاد ہے جب انھوں نے امریکہ میں اس پروگرام میں شمولیت اختیار کی تھی
’میں بہت خوش اور پُرجوش تھا۔ مجھے کبھی لگتا نہیں تھا کہ ایسا دن میری زندگی میں آئے گا۔‘
وہ اپنی چار سال کی ٹریننگ کے دوران افغانستان میں اپنے خاندان سے ملنے نہ آسکے اور امریکہ میں ہی قیام کرتے رہے
ادریس کو طالبان کا مقابلہ کرنے کی ٹریننگ دی گئی تھی۔ اب وہ طالبان حکومت کے لیے ہی ہیلی کاپٹر اڑاتے ہیں۔ وہ اس میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے
ان کا کہنا ہے ’حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ہم جیسے لوگ قوم کی امانت ہیں اور قوم کی خدمت کرتے ہیں۔ فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ ملک نے میرے جیسے لوگوں پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے‘
دوسری جانب طالبان کو افغانستان پر حکومت کرتے ایک سال گزر چکا ہے، مگر کسی بھی ملک نے انہیں باقاعدہ تسلیم نہیں کیا ہے
اس کے باوجود دھرتی کو ماں سمجھنے والے ادریس کا حوصلہ بلند ہے۔ وہ کہتے ہیں ”زندگی کے آخری دن تک میں اپنے شعبے میں قوم کی خدمت جاری رکھوں گا“