بھارت میں معیاری کرکٹ امپائرز کی تلاش اور ان کی مزید تربیت کے لیے ایک حالیہ امتحان میں ایک سو چالیس امیدواروں میں سے صرف تین ہی کامیاب ہو پائے
کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ ایسے سوالات ہیں، جو کسی کا بھی دماغ گھما کر رکھ دیں
امپائرنگ کے امیدواروں سے جو سوال پوچھے گئے ان میں بطورِ مثال چند پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ بتائیے کہ آپ کو ان میں سے کتنے کے جواب معلوم ہیں؟
”اگر کسی پویلین، درخت یا فیلڈر کا سایہ پچ پر پڑنے لگے اور بلے باز اس بارے میں شکایت کرے تو آپ کیا کریں گے؟“
”آپ مطمئن ہیں کہ ایک کھلاڑی کے بولنگ کرنے والے ہاتھ کی درمیانی انگلی پر چوٹ ہے اور ٹیپ ہٹانے سے خون بہنے کا حقیقی خطرہ ہے۔ کیا آپ پھر بھی بولنگ کے دوران اس سے یہ حفاظتی ٹیپ ہٹانے کو کہیں گے؟“
”اگر ایک اسٹرائیکر نے درست ڈیلیوری پر ہٹ ماری جو شارٹ لیگ پر کھڑے فیلڈر کے ہیلمٹ میں پھنس گئی۔ گیند کی رفتار کی وجہ سے ہیلمٹ فیلڈر کے سر سے اتر گیا اور گیند ابھی تک ہیلمٹ میں پھنسی ہوئی ہے۔ ہیلمٹ گرنے لگتا ہے لیکن فیلڈر زمین پر لگنے سے پہلے اسے پکڑ لیتا ہے تو اس کی اپیل پر آپ کا کیا فیصلہ ہوگا؟“
(ان سوالوں کے جواب آخر میں ملاحظہ کیجیے)
ان کے علاوہ بھی سینتیس ایسے سوالات تھے، جن کا بھارتی کرکٹ بورڈ کے امپائروں کے لیے ہونے والے لیول دوئم کے امتحان میں امیدواروں کو سامنا کرنا پڑا، جو گذشتہ ماہ احمد آباد میں منعقد ہوا تھا
بھارتی انگریزی اخبار ’دا انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق امتحان میں کامیابی کے بعد امپائرز ان ویمن اور جونیئر میچز میں امپائرنگ کے اہل ہوں گے، جو گروپ ڈی کی کیٹگری میں ہوں
یہ عمل بی سی سی آئی کا وہ ایلیٹ امپائر بننے کی جانب سے پہلا قدم ہے، جو بین الاقوامی میچز میں امپائرنگ کے فرائض انجام دے سکتے ہیں
کرونا وبا کے بعد پہلی بار بھارتی بورڈ نے امپائرنگ کے بڑھتے ہوئے جسمانی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے امیدواروں کے لیے جسمانی ٹیسٹ بھی شامل کیے ہیں
وڈیو ٹیسٹ میں میچ کی فوٹیج اور مخصوص حالات میں امپائرنگ سے متعلق سوالات شامل تھے
زیادہ تر امیدواروں نے پریکٹیکل ٹیسٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن تحریری امتحان ان کے لیے بہت بڑی رکاوٹ تھی
بی سی سی آئی کے ایک عہدیدار نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ٹیسٹ کے معیار کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بڑھایا گیا تاکہ صرف بہترین اور قابل امیدوار ہی سسٹم کے ذریعے ترقی کریں
انہوں نے کہا ”امپائرنگ مشکل کام ہے۔ صرف وہی لوگ اس میں آگے جا سکتے ہیں جن کے اندر جذبہ موجود ہو۔ ریاستی تنظمیوں کی طرف سے بھیجے گئے امیدوار قواعد سے اچھی طرح آگاہ نہیں تھے۔ اگر وہ کرکٹ بورڈ کے زیر اہتمام میجز کی امپائرنگ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس علم کی ضرورت ہوگی“
بورڈ آفیشل کے مطابق امتحان کا فوکس صرف قوانین اور ضوابط پر نہیں تھا بلکہ لائیو گیم کی صورت حال میں قوانین کی تشریح اور ان کے نفاذ کے بارے میں تھا
یہ امتحان ڈومیسٹک سرکٹ میں ان کے خراب معیار کی بار بار شکایات کے بعد بھارتی امپائروں کا معیار بلند کرنے کے لیے بورڈ کے اقدامات کا حصہ ہے
واضح رہے کہ گذشتہ سال آئی پی ایل میں بھارتی امپائروں کی ’ناقص‘ کارکردگی پر بہت سی انگلیاں اٹھی تھیں اور سابق کھلاڑیوں کی جانب سے انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا
تب سابق کپتان اور اوپنر کرس سری کانت نے ٹوئٹر پر لکھا تھا ’آئی پی ایل کی امپائرنگ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کافی قابل رحم ہے۔ ہر چھوٹے غلط فیصلے بڑے نتائج کا باعث بنتے ہیں! بی سی سی آئی! جاگو اور ایسے لوگوں کو رکھو جو حقیقیت میں امپائرنگ کر سکتے ہیں“
اس تمام تنقید کے بعد بھارتی بورڈ نے گذشتہ ماہ امپائرز کے لیے اے پلس سے ڈی تک ایک درجہ بندی کا نظام بنایا تھا، جو کھلاڑیوں کے لیے کنٹریکٹ سسٹم کی طرح ہے
اگرچہ بھارت دنیا میں کرکٹ کی سب سے بڑی طاقت ہے لیکن اس نے ملک کی آبادی، کھیل کی مقبولیت یا بورڈ کی طاقت کے تناسب سے کبھی معیاری امپائرز پیدا نہیں کیے
نتن مینن، سری نواسا وینکٹاراگھون اور سندرم روی ہی تین امپائرز ہیں، جو آئی سی سی کے پینل میں شامل ہیں
بورڈ اب بین الاقوامی معیار کے مطابق مزید امپائر تیار کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہے، جیسا کہ دماغ گھما دینے والے اس لیول 2 کے امتحان سے ظاہر ہوتا ہے
آغاز میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات یہ ہیں
جواب 1: پویلین یا درخت کے سائے کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ فیلڈروں سے کہا جائے کہ وہ ساکت رہیں بصورت دیگر امپائر کو ڈیڈ بال کہنا چاہیے
جواب 2: بولر اگر گیند کرنا چاہتا ہے تو اسے پٹی اتارنی ہوگی
جواب 3: درست فیصلہ ’ناٹ آؤٹ‘ ہے۔