پاکستان کی ’سب سے زیادہ دودھ دینے والی بھینس‘

ویب ڈیسک

لاہور – پاکستان میں نیلی راوی نسل کی بھینسوں کا دودھ دینے کا قومی مقابلہ رواں سال فیصل آباد کے رہائشی رانا عبدالستار بودھی کی بھینس ’چن‘ نے جیتا ہے

اس بھینس نے چھتیس گھنٹوں میں 49.348 لیٹر دودھ دے کر پہلی پوزیشن حاصل کی، دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی بھینس بھی فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے رہائشی نذیر احمد گجر کی تھی، جس نے 47.120 لیٹر دودھ دیا۔ جبکہ تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی بھینس کے مالک عرفان علی گجر کا تعلق بھی فیصل آباد سے ہی ہے، ان کی بھینس نے 46.754 لیٹر دودھ دیا

پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی چن نامی بھینس مارچ 2022 میں ایک ہی مہینے کے دوران دودھ دینے کے تین قومی سطح کے مقابلے جیت کر پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد ریکارڈ قائم کر چکی ہے

ان مقابلوں میں ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان ، بفیلو ریسرچ انسٹیٹیوٹ پتوکی اور حافظ عبداللہ دودھ میلہ سمندری شامل ہیں

پہلے نمبر پر آنے والی بھینس کے مالک رانا عبدالستار بودھی کے بیٹے رانا علی عباس کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان گذشتہ چار نسلوں سے بھینسیں پالنے کے کام سے وابستہ ہے

انہوں نے بتایا ’میرے دادا سے یہ کام میرے والد صاحب کو ملا اور اب میں اپنے بڑے بھائی فضل عباس کے ساتھ مل کر اسے چلا رہا ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 2010 میں پہلی مرتبہ انہوں نے دودھ دینے کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا تھا اور پہلے دو، تین سال سیکھنے میں ہی گزر گئے تھے

’2014 میں پہلی مرتبہ ہم نےزرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ہونے والا مقابلہ جیتا تھا۔ اسی طرح 2019 تک ہم مختلف مقابلوں میں اول ، دوئم ، سوئم آتے رہے۔ اس کے بعد 2020 میں اس بھینس نے مقابلہ جیتا، پھر 2021 میں ہماری بھینس سلطانی نے مقابلہ جیتا۔ اب 2022 میں اس بھینس نے ایک مہینے میں ہی تین مقابلے جیت لیے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ بفیلو ریسرچ انسٹیٹیوٹ پتوکی میں ہونے والے مقابلے کو پاکستان میں سب سے اہم اور مستند مانا جاتا ہے، جس کا انتظام لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ آف پنجاب کی طرف سے کیا جاتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ مقابلے میں حصہ لینے کے لیے بھینسوں کی تیاری میں تقریباً ایک سے ڈیڑھ ماہ لگ جاتا ہے، جبکہ مقابلے کی جو تاریخ مقرر ہوتی ہے، اس سے تقریبا دس دن پہلے وہ پتوکی چلے جاتے ہیں تاکہ بھینس نئے ماحول کی عادی ہو جائے

علی عباس کے مطابق ’مقابلے کے لیے پانچ مرتبہ بھینس کا دودھ نکالا جاتا ہے، یعنی بارہ گھنٹے کے وقفے سے پانچ مرتبہ دودھ لیا جاتا ہے۔ پہلی دو باریوں میں تو بھینس کا حیوانہ خالی کرنا ہوتا ہے، اس دودھ کی مقدار مقابلے میں شامل نہیں ہوتی ہے۔ اس سے اگلے چھتیس گھنٹوں میں جو تین مرتبہ دودھ لیا جاتا ہے، اس کی مقدار مقابلے میں شامل کی جا تی ہے اور جس کا دودھ زیادہ ہو جائے، وہ مقابلہ جیت جاتی ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ عام طور پر ایک بھینس روزانہ چودہ سے پندرہ لیٹر دودھ دیتی ہے، جبکہ اس کی دیکھ بھال اور خوراک پر یومیہ سات سو سے ایک ہزار روپے تک اخراجات آتے ہیں

مقابلے میں حصہ لینے والی بھینس کی تیاری اور خوراک کے اخراجات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے اخراجات اتنے ہو جاتے ہیں، جتنا یہ دودھ دیتی ہے، تقریباً برابر ہی رہتے ہیں۔ اس کی خوراک میں مختلف قسم کے ونڈے ہوتے ہیں، جو اکٹھے کر کے اسے دیئے جاتے ہیں۔ اس کو اچھے سے اچھا اور صاف ستھرا چارہ دیا جاتا ہے اور اس کو صاف ستھری جگہ پر رکھا جاتا ہے، عام جانوروں سے اس کا خیال زیادہ رکھا جاتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ ان سے یہ بھینس خریدنے کے لیے رابطہ کر چکے ہیں اور کئی لوگ تو ایسے ہیں، جو انہیں منہ مانگی قیمت دینے کی بھی پیشکش کر چکے ہیں لیکن وہ مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے تیار کی گئی اپنی کسی بھی بھینس کو فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں

’ہمیں بہت زیادہ اس کا ریٹ لگ چکا ہے، راولپنڈی کے ایک کرنل نے میرے بڑے بھائی کو فون کیا کہ انہیں یہ بھینس چاہیے، جب 2020ع میں اس نے مقابلہ جیتا تھا۔ بڑے بھائی نے ان سے کہا تھا کہ کوئی بھلا اپنی بیٹیاں بھی فروخت کرتا ہے؟‘

انڈیا اور پاکستان کی نیلی راوی نسل کی بھینسوں کے مابین فرق سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں بھینس کی نسل ایک ہی ہے۔ ’ان کے پاس بھی وہی دریا ہیں ، وہی جگہ ہے لیکن جو علاقہ ہماری طرف ہے اس کا مقابلہ وہ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ چیز کا خواہشمند وہی ہوتا ہے جس کے پاس وہ نہ ہو اور وہ ہم سے بھینسیں بھی لے جا چکے ہیں، بھینسے بھی لے جا چکے ہیں پاکستان سے۔ ہماری چیز ان سے بہتر ہے تبھی تو وہ لے کر گئے ہیں۔‘

علی عباس کے مطابق آج تک پاکستان کی جس بھینس نے ریکارڈ قائم کیا ہے، وہ بھارت سے توڑا نہیں جا سکا
’اگر ان کی بھینس تیس کرتی ہے تو ہماری تینتیس کرتی ہے۔اگر ان کی بتیس کرتی ہے تو ہماری ویسے ہی چونتیس کرتی ہے۔ ہمارے ہاں جو عام مقابلے ہوتے ہیں ان میں چونتیس پینتیس لیٹر دودھ پر ہار جیت ہوتی ہے۔ جو دیہات یا ضلع کی سطح پر مقابلے ہوتے ہیں، ان میں بتیس تینتیس کلو دودھ پر ہار جیت عام ہو رہی ہے۔ اُن کی ہار جیت ہوتی ہے اکتیس کلو پر۔ اُن کی ایک بھینس ہے سرسوتی، جس کا بڑا نام ہے، اس نے بتیس یا شاید پونے تینتیس کلو دودھ کیا ہے، باقی کسی نے نہیں کیا‘

رانا علی عباس نے کہا ”اگر کرکٹ اور دیگر کھیلوں کی طرح پاکستان اور بھارت مل کر دودھ دینے کے مقابلوں کا انعقاد کریں تو اس سے دونوں طرف کے مویشی پالنے والے لوگوں کو فائدہ ہوگا اور نیلی راوی نسل کو دنیا بھر میں متعارف کروایا جا سکے گا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close