یہ قصہ ہے 20 اگست 2006 کا۔۔ اتوار کے آسمان پر گہرے بادل اوول کے میدان پر چھائے ہوئے تھے۔ درجہ حرارت مسلسل گر رہا تھا اور تماشائی اگست کے مہینے میں بھی ٹھنڈک محسوس کر رہے تھے، لیکن اس کے برعکس پاکستان کے ’کیپٹن کول کا پارہ چڑھا ہوا تھا
پاکستان اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان سیریز کے چوتھے اور آخری ٹیسٹ میچ کے چوتھے دن کا کھیل جاری تھا، جس میں انگلینڈ کی دوسری اننگز میں 4 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے اور پاکستان کو اب بھی 33 رنز کی برتری حاصل تھی
جب چائے کا وقفہ ہوا تو پاکستان ٹیم کے کپتان انضمام الحق نے بغیر کسی تردد کے سرخ گیند امپائر ڈیرل ہیئر کو تھمائی اور خود ٹیم کو ڈریسنگ روم کی طرف لے کر چل دیے
ڈیرل ہیئر نے گیند ہاتھ میں لی اور نظریں جما کر کچھ ڈھونڈتے ہوئے ساتھی امپائر بلی ڈاکٹروو کے ساتھ خود بھی چائے کی چسکیاں لینے پویلین کی طرف چل دیے
اوول گراؤنڈ کا ہر کونہ اس وقت تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا اور ٹیسٹ میچ دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا تھا، کیونکہ میزبان ٹیم انگلینڈ دوسری اننگز میں پانچ وکٹیں کھو چکی تھی اور پاکستان کی پہلی اننگز کے اسکور سے اب بھی 33 رنز پیچھے تھی
اس وقت پاکستان کی جیت کے آثار کافی زیادہ تھے
چائے کے وقفے کے دوران میچ ریفری مائیک پراکٹر نے پاکستان کے مینیجر ظہیر عباس کو ایک ایسے غیر متوقع فیصلے سے آگاہ کیا، جس سے ڈریسنگ روم میں کھلبلی مچ گئی
ڈیرل ہیئر نے گیند سے چھیڑ چھاڑ کے الزام میں گیند تبدیل کر دی اور پاکستان کو سزا کے طور پر پانچ رنز انگلینڈ کو نواز دیے گئے
پاکستانی کپتان انضمام الحق نے جب یہ سنا تو چائے کا کپ غصے سے ان کے ہاتھ میں لرزنے لگا، کیونکہ ان پر ایک ایسا الزام لگایا گیا تھا، جس سے ان کی اور پوری ٹیم کی دیانت داری پر حملہ ہوا تھا
انضمام الحق نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے خیال میں ان کا دامن صاف تھا۔ انہوں نے احتجاج کے طور پر میدان میں جانے سے انکار کر دیا کیونکہ فیصلہ ان سے بات کیے بغیر کیا گیا اور ان کا موقف نہیں سنا گیا
انضمام کے اس فیصلے پر سارے کھلاڑی متفق تھے اور سب کا یہی فیصلہ تھا کہ اس الزام کے ہوتے ہوئے وہ نہیں کھیل سکتے
ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان انضمام الحق جو اپنے نرم مزاج کے لیے جانے جاتے ہیں اور اکثر انہیں ان کے دھیمے مزاج، شکست اور فتح دونوں صورتوں میں اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی وجہ سے ’کیپٹن کول‘ بھی کہا جاتا تھا، وہ ایک ایسا فیصلے لینے جا رہے تھے جو ٹیسٹ کرکٹ کی ایک صدی پرانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہونے جا رہا تھا
چائے کے وقفے کی بعد انگلینڈ کے پال کولنگ ووڈ اور ائین بیل امپائر ڈیرل ہیئر اور بلی ڈوکٹروو بھی میدان میں پاکستان ٹیم کا انتظار کر رہے تھے لیکن پاکستان کرکٹ ٹیم ڈریسنگ روم سے باہر نہیں آ رہی تھی اور کپتان انضمام الحق نے ڈیرل ہیئر کے بال ٹیمرنگ کے الزام میں پینلٹی رنز دینے کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کر لیا تھا
بعد ازاں سابق کپتان انضمام الحق نے اس واقعے سے متعلق اپنے یوٹیوب چینل پر بتایا تھا ”ڈیرل ہیئر کو لگا کہ بال کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور انہوں نے گیند کو تبدیل کرتے ہوئے انگلینڈ کو پانچ رنز دے دیے۔ رولز کے مطابق پینلٹی رنز دینے کا مطلب تھا کہ پاکستان ٹیم نے بال ٹیمرنگ کے جرم کا ارتکاب کیا ہے“
انضمام الحق کے مطابق ”دورے سے ایک ماہ قبل ہی چیئرمین پی سی بی نے آئی سی سی کو خط لکھا تھا اور ڈیرل ہیئر کے بجائے کسی اور امپائر کی تعیناتی کی درخواست کی تھی، اس سے قبل بھی ڈیرل ہیئر نے پاکستان کے خلاف کئی متنازع فیصلے دیے تھے“
کرکٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ امپائر کے فیصلوں کے خلاف کسی کپتان نے احتجاج کیا ہو، تاہم ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ ٹیم نے کھیلنے سے ہی انکار کر دیا ہو اور میچ کا فیصلہ مخالف ٹیم کے حق میں دے دیا گیا ہو
انضام الحق کی طرح ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائیو لائیڈ نے نیوزی لینڈ کے خلاف متنازع امپائرنگ پر احتجاجاً میدان میں نہ اترنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن وہ فیصلہ کلائیو لائیڈ کو مذاکرات کے بعد واپس لینا پڑا
ویسٹ انڈیز کے فاسٹ بولر اور نامور کمنٹیٹر مائیکل ہولڈنگ نے اپنی سوانح عمری ’نو ہولڈنگ بیک‘ میں بھی اس کا تذکرہ کیا ہے اور انضمام الحق کے فیصلے کو کپتان کی جانب سے ٹیم کے ساتھ ناانصافی پر کھڑے ہونے کی مثال کے طور پر پیش کیا
مائیکل ہولڈنگ اپنی کتاب میں سنہ 1980ع کے دورہ نیوزی لینڈ میں متنازع امپائرنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”دورے کے دوران دوسرے ٹیسٹ میں متنازع امپائرنگ اس حد تک جا پہنچی کے ٹیسٹ میچ کے تیسرے روز کپتان کلائیو لائیڈ نے چائے کے وقفے کے بعد میدان میں امپائرنگ کے خلاف احتجاجاً میدان میں خود اترنے کے بجائے ڈیرک مورے کی قیادت میں ٹیم کو اتارنے کا فیصلہ کیا تاہم پوری ٹیم نے ہی احتجاج میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا اور چائے کے وقفے کے بعد ٹیم ڈریسنگ روم سے باہر ہی نہیں نکلی“
اپنی کتاب میں مائیکل ہولڈنگ لکھتے ہیں ”سنہ 2006ع میں جس طرح انگلینڈ میں متنازع امپائرنگ کے خلاف احتجاج کیا اور ایک طرح کھیل کے قوانین سے باہر جاتے ہوئے اپنی ٹیم کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر کھڑے ہوئے“
2006 میں لارڈز کے میدان میں کیا ہوا؟
اگست سنہ 2006 کو اوول کرکٹ گراؤنڈ کے میڈیا باکس میں موجود سینیئر کرکٹ تجزیہ کار مرزا اقبال بیگ اس میچ سے متعلق بتاتے ہیں ”ڈیرل ہیئر نے جب پاکستانی بالروں پر بال ٹیمپرنگ کا الزام عائد کیا تو کھیل رک گیا تھا۔ میرے ساتھ موجود نامور انگلش کمنٹیٹر کرسٹوفر جنکس اپنی دور بین سے ڈریسنگ روم کی طرف دیکھ رہے تھے اور حیرت سے سوال پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے“
مرزا اقبال بیگ کا کہنا ہے ”اس وقت پاکستان کے ڈریسنگ روم میں پی سی بی کے سابق چیئرمین اور اس وقت پی سی بی کے بورڈ آف گورنر نسیم اشرف وہاں موجود تھے اور ان کے علاوہ مرحوم جنید جمشید بھی ڈریسینگ روم میں انضمام الحق سے بات چیت کر رہے تھے جبکہ ظہیر عباس اور اس وقت کے چیئرمین پی سی بی شہریار خان بھی ڈریسنگ روم میں موجود تھے“
اقبال بیگ بتاتے ہیں ”انضمام الحق پر کافی دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ میچ کو جاری رکھیں اور کھلاڑیوں کو میدان میں اتاریں لیکن میرا خیال ہے کہ کچھ لوگ اس وقت ڈریسنگ روم میں موجود تھے، جو معاملے کو مزید ہوا دے رہے تھے اور احتجاج کرنے کا مشورہ دے رہے تھے“
مرزا قبال بیگ کے مطابق ”ڈیرل ہیئر ایک متنازع امپائر تھے اور ان پر نسل پرستی کے الزام بھی عائد ہوتے تھے اور یہ ایک موقع تھا کہ ایک پیغام دیا جائے اور پاکستان نے احتجاج کیا“
انہوں نے بتایا ”اس واقعے کے بعد پی سی بی کے چیئرمین شہریار خان کی چھٹی ہوگئی اور ان کی جگہ نسیم اشرف کو کرکٹ بورڈ کا نیا چیئرمین بنا دیا گیا“
مرزا اقبال بیگ کہتے ہیں ”اس واقعے کے بعد جو متعصبانہ رویہ رکھا جاتا تھا اس میں کمی آئی لیکن یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا جو انضمام الحق نے اس وقت لیا اور میری ذاتی رائے ہے کہ انضمام الحق کو یہ فیصلہ لینے پر تھوڑا دباؤ ڈالا گیا“
مرزا اقبال بیگ کا خیال ہے ”پاکستان کو لکھ کر احتجاج کرنا چاہیے تھا یوں میچ کھیلنے سے انکار کرنا نامناسب تھا کیونکہ اس سے پاکستان کی بدنامی ہوئی“
سینئیر اسپورٹس صحافی رضوان علی جوجی اس میچ سے متعلق کہتے ہیں ”انضمام الحق کے پاس اس وقت دو ہی آپشن تھے، امپائر کا فیصلہ تسلیم کرلیتے یا اپنی ٹیم کے لیے کھڑے ہو جاتے اور انہوں نے اپنی ٹیم کے خلاف نا انصافی کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا“
انہوں نے کہا ”اگر وہ امپائر کا فیصلہ تسلیم کر لیتے تو پاکستان پر ہمیشہ بال ٹمپرنگ کا الزام رہتا، لیکن اس فیصلے کے بعد جب تحقیقات ہوئیں تو ڈیرل ہیئر کے فیصلہ کو غلط قرار دیا گیا“
رضوان علی بتاتے ہیں ”انضمام الحق ہمیشہ ایک ٹھنڈے مزاج کے کپتان تھے اور کبھی بھی جارحانہ یا جذباتی تاثرات اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے تھے، اوول کے میدان میں ان کا جو جارحانہ مزاج تھا وہ اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا اور اس کی وجہ یہی تھی کہ ڈیرل ہیئر کا فیصلہ پاکستان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی تھی اور بدنامی کا سبب بن رہی تھی“
رضوان علی جوجی کے مطابق ”ڈیرل ہیئر ایک متنازع امپائر تھے اور شاید ہی تاریخ میں اس سے بڑھ کر متنازع امپائر کا ذکر ہوگا کیونکہ جدید دور میں متنازع امپائرنگ کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ 2006 میں جدید کیمرے آ چکے تھے کسی ایک کیمرے میں بھی بال ٹمپرنگ ثابت نہیں ہوئی۔۔ ڈیرل ہیئر کا فیصلہ بالکل غلط تھا اور اس پر انضمام کا ردعمل قطعی درست تھا“
کیا پاکستانی ٹیم اوول ٹیسٹ میں بال ٹیمپرنگ میں ملوث تھی؟
سارا قصہ اس وقت شروع ہوا جب شاہد نذیر بولنگ کر رہے تھے اور گیند خلاف معمول سوئنگ ہو رہی تھی۔ گیند پرانی اور نرم ہوگئی تھی اور ان کی ایک گیند پر جب کیون پیٹرسن آؤٹ ہوئے تو امپائر سمیت کمنٹیٹرز بھی حیران ہوگئے
ڈیرل ہیئر کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے اگلے اوور میں گیند کا سرسری معائنہ کیا۔ اگلے کئی اوورز میں بھی گیند بہت زیادہ گھوم رہی تھی
جونہی چائے کا وقفہ ہوا تو انہوں نے گیند کا تفصیلی معائنہ کیا اور اپنا فیصلہ دے دیا، جو قانون کے مطابق لیکن شواہد کی عدم موجودگی میں تھا
پاکستانی ٹیم کے مینیجر ظہیر عباس تو خاموش تھے، لیکن سابق کوچ اور فاسٹ بولر وقار یونس نے انضمام کو مشورہ دیا کہ وہ ڈیرل ہیئر کا فیصلہ نہ مانیں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں
انضمام نے میچ ریفری کو مطلع کردیا کہ جب تک ڈیرل ہیئر اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتے ہم گراؤنڈ میں نہیں جائیں گے۔ دونوں امپائر پانچ منٹ تک انتظار کرتے رہے اور پھر انضمام سے آکر پوچھا کہ گراؤنڈ میں کیوں نہیں آرہے؟
ڈیرل ہیئر اور بلی ڈاکٹروو نے دس منٹ انتظار کیا اور پھر فیلڈنگ ٹیم کے نہ آنے پر میچ کا فیصلہ انگلینڈ ٹیم کے حق میں کر دیا
اس دوران دونوں بورڈز کے درمیان فوری رابطہ ہوا اور میچ شروع کرنے پر اتفاق ہوا لیکن انضمام راضی نہیں تھے
پی سی بی کے بعد میں بننے والے چیئرمین نسیم اشرف اس وقت کے صدر پاکستان کے قریبی دوست ہونے کی بنا پر میچ شروع کرنے کے لیے انضمام کو رام کرنے کوشش کرتے رہے
پی سی بی نے بھی انضمام کو میچ کھیلنے کا مشورہ دیا تاہم کپتان نہ مانے اور اسے ملک و قوم کی عزت سے تعبیر کر دیا
یوں چوتھا ٹیسٹ میچ ناخوشگوار انداز میں ختم ہوگیا اور پاکستان سیریز ہار گیا
ٹیسٹ میچ کے نتیجے کے اعلان کے بعد پی سی بی نے آئی سی سی سے باضابطہ شکایت کی، جس پر آئی سی سی نے رنجن مادہوگالے کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی، جس نے ایک ماہ بعد امپائرز اور پاکستانی کپتان کو طلب کرلیا اور دونوں کا موقف سن کر مکمل تحقیقات کیں
اور آخر کار آئی سی سی نے بال ٹیمپرنگ کا الزام مسترد کر دیا، لیکن میچ کا نتیجہ بدلنے سے انکار کردیا کیونکہ پاکستانی ٹیم نے گراؤنڈ میں آنے سے انکار کردیا تھا، جس سے کھیل کی روح کو نقصان پہنچا اور انگلش کرکٹ بورڈ کو بھاری مالی نقصان پہنچا
انضمام الحق کا موقف
انضمام الحق نے آئی سی سی کے فیصلے پر جزوی طور پر اعتماد کا اظہار کیا لیکن میچ کے نتیجے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ اگر بال ٹیمپرنگ ہوئی نہیں ہے تو پھر میچ ختم کرنے کا کیا جواز ہے۔ ایک غلط فیصلے پر احتجاج اگر درست ہے تو اس کا نتیجہ پھر کیوں اس کے خلاف ہے
انضمام سختی سے تردید کرتے ہیں کہ بال ٹیمپرنگ ہوئی تھی کیونکہ گیند ہر اوور کے بعد چیک کی جارہی تھی اور پھر ڈیرل ہیئر پہلے ہی ان سے بغض رکھتے تھے، اس لیے ہر وقت گیند دیکھتے رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میدان میں ہر طرف کیمرے تھے تو کیا گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوئی وڈیو نہیں بنی ہوگی؟
ڈیرل ہیئر کے تنازعات
آسٹریلین نژاد ڈیرل ہیئر کا امپائرنگ کیریئر تنازعات سے بھرا ہوا ہے۔ مرلی دھرن کے بولنگ ایکشن پر اعتراض سے وہ پہلی دفعہ متنازع ہوگئے تھے اور سری لنکا نے ان کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا تھا
ان کی شخصیت پر اگلا داغ اوول ٹیسٹ میں لگا جب ایک متنازع فیصلے سے کرکٹ کی 129 سالہ تاریخ میں واحد ٹیسٹ کا نتیجہ کھیل کے بجائے ایک ٹیم کے واک آؤٹ کرنے پر دیا گیا
پاکستانی ٹیم ان سے پہلے ہی عاجز تھی اور انگلینڈ کی اس سیریز سے قبل پی سی بی نے انہیں نامزد نہ کرنے کی درخواست بھی کی تھی
اوول ٹیسٹ کا نتیجہ ڈیرل ہیئر کا کیریئر لے ڈوبا؟
اس کے بعد آئی سی سی نے ڈیرل ہیئر پر مزید امپائرنگ پر پابندی لگا دی۔ پابندی لگنے کے بعد انہوں نے آئی سی سی پر مقدمہ بھی کیا اور اپنی پابندی کا شاخسانہ ’ایشین بلاک‘ کو قرار دیا
ان کا موقف تھا کہ ایشین بلاک کی مخالفت نسلی بنیاد ہر ہے، تاہم آئی سی سی نے ان کا الزام مسترد کردیا تھا
بال ٹیمپرنگ کے واقعات
بال ٹیمپرنگ ایک ایسا عمل ہے جو برسوں سے کرکٹ میں ہورہا ہے۔ ماضی میں معروف کرکٹرز بال ٹیمپرنگ میں ملوث پائے گئے اور انہیں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں وقار یونس، مائیکل ایتھرٹن، سچن ٹنڈولکر، راہول ڈریوڈ، شاہد آفریدی، جیمس اینڈرسن وغیرہ شامل ہیں، لیکن سب سے سنگین واقعہ آسٹریلیا کے ساؤتھ افریقہ کے دورے میں پیش آیا جب آسٹریلین کپتان سٹیو سمتھ، ڈیوڈ وارنر اور کیمرون بینکروفٹ کو گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا مرتکب پایا گیا۔ تینوں کھلاڑیوں پر آئی سی سی نے جرمانہ کیا جبکہ آسٹریلین کرکٹ بورڈ نے کرکٹ کی روح کو نقصان پہنچانے کے الزام میں ان پر ایک سال کی پابندی لگا دی
اگرچہ سمتھ اور وارنر پابندی ختم ہونے کے بعد ٹیم میں واپس آگئے، تاہم بینکروفٹ کا کیرئیر ختم ہوگیا
سولہ سال گزرنے کے بعد بھی اوول ٹیسٹ کا بال ٹیمپرنگ کا واقعہ آج بھی پاکستان کرکٹ کو شرمندہ کرتا رہتا ہے کیونکہ ٹیمپرنگ ہونے کا ثبوت اگر موجود ہوتا تو سامنے آتا لیکن محض ایک شخص کے ذاتی خیال نے پورے ٹیسٹ میچ کو برباد کر دیا
انضمام الحق اور ان کے ساتھی آج بھی 20 اگست کے نتیجے کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہیں اور سختی سے اس کی نفی کرتے ہیں کہ گیند کے ساتھ کچھ غلط ہوا تھا لیکن اگر میچ کی ویڈیو دیکھی جائے تو کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے کہ کہیں تو کچھ ہوا تھا
ویسے گیند کا زیادہ سوئنگ ہونا ایک بولر کی محنت بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ہمیشہ بال ٹیمپرنگ کا نتیجہ نہیں ہوتی
آئی سی سی کی جانب سے بال ٹیمپرنگ پر سخت نظر رکھنے کے باوجود آج بھی ہر ٹیم کسی نہ کسی طرح اپنا کام نکال لیتی ہے اوربال ٹیمپرنگ جیسا خطرناک عمل اب فاسٹ بولرز کے لیے لازم وملزوم ہوچکا ہے، تاہم ہر جرم اس وقت تک قابل سزا نہیں قرار پاتا، جب تک اس کے شواہد نہ ہوں اور بال ٹیمپرنگ کے شواہد ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔