’آئی جی اور ڈی آئی جی کو نہیں چھوڑنا، آپ پر کیس کرنا ہے۔ مجسٹریٹ صاحبہ زیبا آپ بھی تیار ہو جائیں، آپ کے خلاف بھی ایکشن لیں گے۔‘
سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی اس تقریر کے بعد الیکٹرانک میڈیا کے نگراں ادارے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے ملک کے تمام نجی ٹی وی چینلز پر ان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے
پیمرا کی جانب سے جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن کے مطابق پابندی کا اعلان پیمرا کے چیئرمین نے پیمرا آرڈیننس کی شق 27 اے کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کیا ہے
پیمرا کے حکم نامے کے مطابق پاکستان کے تمام نجی ٹی وی چینلز پر عمران خان کی صرف پہلے سے ریکارڈ کی گئی تقاریر ہی نشر کی جاسکیں گی اور اس مقصد کے لیے ’ڈیلے‘ کا طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا تاکہ پیمرا قوانین کے مطابق ان تقریروں کی مانیٹرنگ اور ایڈیٹوریل کنٹرول ممکن بنایا جا سکے
پیمرا کی جانب سے جاری ہونے والے حکم نامے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی کی وجہ ان (عمران خان) کی جانب سے ریاستی اداروں پر بے بنیاد الزامات بتائی گئی ہے
اس سلسلے میں پیمرا کے حکم نامے میں عمران خان کی ہفتے کی رات ان کے چیف آف اسٹاف ڈاکٹر شہباز گل کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں تقریر کا ذکر بھی کیا گیا جس میں سابق وزیراعظم نے آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد اور مجسٹریٹ زیبا چوہدری پر مقدمہ دائر کرنے کی دھمکیاں دیں تھیں
پیمرا کے حکم نامے میں دستور پاکستان کے آرٹیکل 19 اور پیمرا آرڈیننس کے متعلقہ سیکشنز کے علاوہ کئی اعلی عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جن میں ریاستی اداروں پر الزامات لگانے اور ان کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے کی پابندی ہے
اس سے قبل پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ خاتون مجسٹریٹ، آئی جی اور ڈی آئی جی پولیس کو دھمکی دینے والوں کو قانون کا سامنا کرنا ہوگا
رانا ثنا اللہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’عمران خان نے دھمکی دی، ساری دنیا نے لائیو دیکھا، اب قانون کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘
بیان میں کہا گیا تھا کہ ’عمران خان کو کار سرکار میں مداخلت، دھمکیوں پر قانون کو جواب دینا ہوگا۔‘
عمران خان کا خطاب
ہفتے کی شام پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ شہباز گل کے خلاف کارروائی کے بعد آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد اور مجسٹریٹ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے
اسلام آباد میں ہفتے کی شب ریلی کے بعد جلسے سے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ہم آئی جی، ڈی آئی جی اور مجسٹریٹ کے خلاف کیس کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آئی جی اور ڈی آئی جی کو نہیں چھوڑنا، آپ پر کیس کرنا ہے۔ مجسٹریٹ صاحبہ زیبا آپ بھی تیار ہو جائیں، آپ کے خلاف بھی ایکشن لیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’شہباز گل کو جیسے اٹھایا گیا اور دو دن تشدد کیا گیا۔ اس طرح رکھا جیسے ملک کا کوئی غدار پکڑا ہو۔‘
عمران خان نے جلسے کے شرکا سے خطاب میں کہا کہ ’اگر شہباز گل پر کیس ہو سکتا ہے تو ہم رانا ثنا اللہ، فضل الرحمن، نواز شریف ان سب پر کیس کرنے لگے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آج اپنے وکلا سے ملاقات کی ہے۔ ہم آئی جی، ڈی آئی جی اور مجسٹریٹ پر کیس کریں گے اور ہم سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم نے جمعے کو شہباز گل سے حمایت اور ان پر مبینہ تشدد کے خلاف ریلی کی کال دی تھی
اس حوالے سے انہوں نے جلسے کے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’دو وجوہات کی بنا پر یہاں بلایا، ایک جو یہ شہباز گل کے ساتھ کر رہے ہیں اور عوام کی آواز کو بند کرنے کے لیے سب سے مقبول چینل اے آر وائی کو بند کر دیا۔‘
انہوں نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کی بندش پر کہا کہ ’اے آر وائی کو بند کر کے دوسرے چینلز میں خوف پھیلانے کی کوشش کی گئی۔‘
عمران خان نے مزید کہا کہ ’نیوٹرلز سے سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ مجھے بتائیں کیا واقعی آپ نیوٹرل ہیں؟‘
’ہمیں تو کہا گیا تھا کہ ہم نیوٹرل ہیں، باہر سے سازش تھی ہم پیچھے ہٹ گئے۔ ایجنسیز کو تو پتہ لگا ہوگا اور آپ نے فیصلہ کیا کہ ہم پیچھے بیٹھ جاتے ہیں۔ تو اب کیا ہو رہا ہے؟‘
خطاب کے آخر میں انہوں نے اپنے آئندہ جلسوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کل یعنی اتوار کو وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے دوران اپنا روڈ میپ دیں گے
ان کا کہنا تھا ’میں اب سے مسلسل پاکستان کی سڑکوں پر ہوں گا۔ کل سے میرا سارے پاکستان پروگرام ہے، عوام کو اپنے ساتھ ملاؤں گا اور قوم کو سمجھاؤں گا۔‘
پاکستان میں جہاں کچھ لوگ اس پابندی کو آزادیِ اظہار کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں وہیں دیگر کا یہ بھی ماننا ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں ایسی پابندی کا کوئی فائدہ نہیں
پابندی سے کیا فرق پڑے گا؟
اس حوالے سے سینئیر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور، جس میں الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا سبھی موجود ہیں، ایسے میں کسی بھی طرح کی پابندیاں مؤثر نہیں رہتیں
وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی تقریر پر اعتراض ہو سکتا تھا، پیمرا چینلز کو یہ کہہ سکتا تھا کہ آپ عمران خان کی تقریر میں ڈیلے سسٹم کو تھوڑا سا بڑھا دیں، اور فلاں فلاں چیز کا خیال رکھیں، لیکن تقریر پر پابندی تو آپ لگا دیں گے تو سوشل میڈیا پر تو پابندی نہیں لگا سکتے، سوشل میڈیا پر تو لوگ فالو کریں گے اور ان فالورز کی تعداد بڑھتی جائے گی
مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات ہمارے ملک میں آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں، حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ’یہیں جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو آزادیِ اظہار کی چیمپئین ہوتی ہیں اور تنقید کو بھی مثبت سمجھتی ہیں لیکن جب حکومت میں آ جائیں تو حکمرانوں کی روش اپنا لیتی ہیں اور پھر انھیں تنقید نہیں صرف تعریف اچھی لگتی ہے۔‘
’چونکہ مائنڈ سیٹ ابھی تک تبدیل نہیں ہوا اسی لیے عمران خان ہوں، شریف ہوں یا کوئی اور جماعت ہو، ان کی ایک ہی اپروچ نظر آتی ہے اور کسی حکمران نے آج تک آزادیِ اظہار کو یقینی نہیں بنایا۔‘
سوشل میڈیا پر ردِعمل دیتے ہوئے ایک صارف لکھتے ہیں یہ 1990 نہیں جب پی ٹی وی کے علاؤہ کوئی چینل نہیں تھا۔ آج ایک لاکھ سے زیادہ یوٹیوب چینلز اور پانچ بڑی سوشل ایپس ہیں اور ملک کی اسی فیصد آبادی سوشل میڈیا صارفین پر مشتمل ہے
امن وزیر کا ماننا ہے کہ عمران خان کے تقریروں پر پابندی دراصل آزادی اظہار رائے پر پابندی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہاں دہائیوں سے سب کے ساتھ ایسا ہوتا آرہا ہے جو غلط ہے۔