سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 12)

شہزاد احمد حمید

”تبت کے ساتھ میری قربت، لیہہ کے قدیم تجارتی راستے اور مذہبی روابط ہیں۔ لیہہ ’تبت اصغر‘ (چھوٹا تبت) کہلاتا ہے۔ تبت، چین، ہندوستان اور بلتستان کے تاجر ادھر کا رخ کرتے تھے۔ قدیم دور میں یہاں ایک سے زیادہ شوہر (چند شوائی) کا عام رواج تھا لیکن اب یہ رسم قانون کی پابندی میں ہے۔“ (ایسا ہی رواج کبھی بلتستان، ہنزہ میں بھی تھا)“

وہ چپ ہوا، مسکرایا اور خاموش ہو گیا اور میرا چشمِ تصور مجھے قدیم دور میں لے گیا ہے۔۔ مجھے اس قصبے کی گلیوں میں چینی تاجر پشم، بروکیڈ اور چائے کے پیکٹ، ترکمانستان سے آئے تاجر کپڑا، تبت سے آئے تاجر اون، ہندوستان سے آئے تاجر مصالحہ جات، کپڑے، زیورات جبکہ بلتستان سے آئے تاجر خشک میوہ جات کے ساتھ بازاروں میں گھومتے نظر آ رہے ہیں۔ ترکستانی ٹٹو، ہندوستانی خچر اور تبتی یاک سامان سے لدے میرے قریب سے گزر رہے ہیں۔ پشم کا لباس پہنے یارکندی تاجر، ڈھیلے ڈھالے لباس میں ملبوس تبتی، نیچے کی جانب جھکی مونچھوں والے منگول، اجلے کپڑوں میں ملبوس ہندوستانی اپنی ملی جلی زبانوں اور اشاروں میں کسی نہ کسی طرح آپس میں کاروباری گفتگو میں مصروف ہیں۔ نین کے لئے میں نے ایک چینی تاجر سے پشم کا ایک سفید چوغہ خریدا ہے۔ اسے پہن کر وہ ضرور کوئی مصری ملکہ لگے گی۔۔ ہمارے قریب سے گزرتے لداخی حیران کن نگاہوں سے مجھے اور دوسرے سیاحوں کو دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح بلند و بالا پہاڑوں سے اترے لوگ لیہہ تک پہنچے ہیں، خود بھی کما رہے ہیں اور اُن کے روز گار کا بھی بندوبست ہو رہا ہے۔ اشیاء کے بدلے اشیاء کا تبادلہ۔ باٹر تجارت۔۔۔۔

میں نے سندھو سے پوچھا؛ ”میرے یار! کیا پرانے راستوں پر اب بھی سفر ہوتا ہے؟“

وہ کہنے لگا؛ ”کیسی بات پوچھی ہے تم نے دوست۔ اچھا زمانہ ختم ہوا۔ تقسیمِ ہند (1947؁ء) میں لداخ ہندوستان کے قبضہ میں چلا گیا (ریڈ کلف کی غلط تقسیم اور نہرو کے ماؤنٹ بیٹن کی بیگم سے انتہائی قربت کی بدولت) بلتستان پاکستان کے حصے آیا۔ یوں میرے ساتھ مشرق سے مغرب کی سمت جانے والے صدیوں پرانے راستے بند ہو گئے اور رہی سہی کسر کشیدہ ہند چینی اور پاک ہند تعلقات نے پوری کر دی ہے۔ محبتیں نفرتوں میں بدل گئیں ہیں اور قربتیں فاصلوں میں۔ جدید دنیا کے لئے لداخ ایک مرتبہ پھر خاموشی میں کھو گیا تھا۔ ہندوستان نے یہاں فوجی چھاؤنی قائم کی تو ایک مرتبہ پھر یہ پُرہجوم قصبہ ہو گیا ہے۔ شور مچاتے فوجی ٹرک ’زوجیلا پاس‘ کو عبور کرتے نظر آتے ہیں۔ قدیم دور میں یہ دشوار گزار راستہ تھا مگر جدید سائنس نے اس راستے پر سفر نسبتاً آسان کر دیا ہے

”زمانہ قدیم میں اس راستے پر سفر کرنے والے تاجر مختلف مقامات پر استعمال کے لئے غلہ زمین میں دبا جاتے تاکہ واپسی پر بوقت ضرورت کام آ سکے۔ یہ غلہ ان کی زندگی تھا، نہ ملتا تو موت انہیں اپنے ساتھ لے جاتی تھی۔ دراصل اُس دور میں ادھر کا سفر کرنے والے موت ہی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھتے تھے۔ ان بلند راستوں پر یہ ایک طے شدہ رسم تھی مگر وقت نے بہت کچھ بدل ڈالا ہے۔ راستے ماضی جیسے نہ رہے تو یہ رسم بھی ختم ہو گئی ہے۔ یاک کی طرح اب غیر ملکی بھی یہاں اجنبی ہو تے جا رہے ہیں۔ سخت فوجی تلاشی، پرمٹ حاصل کرنے میں دشواری اب کم ہی غیر ملکی ادھر آتے ہیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں مقامی لوگوں کو میسر ہیں۔ لوگوں کا رہن سہن بھی بدل گیا ہے۔کبھی ہر مقامی شخص کی داڑھی ہوتی تھی اب نوجوان داڑھی مونچھ منڈوانے لگے ہیں اور مغربی لباس پہننا پسند کرتے ہیں جبکہ بوڑھے اب بھی لمبا اونی کوٹ پہنتے ہیں اور نیچے کو لٹکی شاندار مونچھیں رکھتے ہیں۔ لداخی معاشرہ بھی باقی دنیا کی طرح نہ صرف کثرتِ آبادی کا شکار ہو رہا ہے بلکہ روحانیت اور معصومیت بھی کھونے لگا ہے، لیکن میں پرُ امید ہوں کہ قدیم معاشرت کا یہاں سے جانا آسان نہیں ہوگا۔ ہاں کچھ نہیں بدلا تو وہ میں ہوں۔۔ جو آج بھی جھاگ اڑاتا ان وادیوں میں بہے چلا جا رہا ہوں۔“

(گو دورِ جدید میں وہ قدیم ترین راستہ جو سلک روٹ کہلاتا تھا اب ’چین پاکستان اکنامکس راہداری‘ (سیپیک) کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا اور اہم تجارتی روٹ بننے جا رہا ہے۔)

”لداخ سے نکل کر وہ پہاڑ، جنہوں نے مجھے گھیر رکھا ہے مزید بلند ہونے لگے ہیں۔ ہمالیہ اور قراقرم۔ ہمالیہ یعنی، ’برف کا مسکن‘ اور قراقرم یعنی ’کالی بجری‘ مون سون بادل ہمالیہ کے مغربی پہلوؤں سے ٹکراتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بلندی تک پہاڑ سبزے میں چھپے ہیں، ہوا میں نمی اور موسم سرد ہے لیکن شمال کی جانب دریا کی گزر گاہ پر سالانہ اوسط بارش 3 انچ سے بھی کم ہے، لہٰذا یہاں پہاڑ یا تو چٹیل ہیں یا وسیع ریگ زار ہیں۔ ہوا خشک اور گرم آلود ہے۔ یہاں ہونے والی برف باری بھی نرم روئی کے گالوں کی بجائے دانے دار ہوتی ہے۔ چٹانوں کی سطح ٹوٹی پھوٹی اور اس میں جگہ جگہ دراڑیں ہیں جبکہ زمین کی سطح نرم اور بھر بھری ہے یا پھر ڈلوں کی صورت کٹی نظر آتی ہے۔ مٹی کے اندر پتھر ایسے پھنسے ہیں جیسے کیک میں کشمش کے دانے۔۔۔

”گرمی، سردی، دن اور رات کے درمیان درجہ حرارت میں نمایاں فرق ہے۔ زمین کے پھیلنے اور سکڑنے سے زمین کی پکڑ کمزور ہو چکی ہے اسی وجہ سے لینڈ سلائیڈ عام ہے۔ بلند و بالا چوٹیوں پر واقع گلیشیر (جو قطبی خطے کے بعد سب سے بڑے ہیں) دریاؤں میں اپنے بڑے بڑے ٹکڑے گراتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پانی کا بہاؤ تھم ساگیا ہے لیکن میرا پانی جب ان عارضی بندوں کو توڑتا ہے تو پانی کا ریلا سمندر کی طوفانی لہروں کی طرح راستے میں آنے والی ہر شے کو ملیامیٹ کر دیتا ہے۔۔

”تنگ اور پتھریلی دیواروں کے درمیان بہتے ہوئے مجھے بہت کم موقعہ ملتا ہے کہ پھیل کر بہہ سکوں۔ میں عمودی چٹانوں میں پھنسا ہوا بہتا ہوں اور بعض مقامات پر تو لگتا ہے کہ تیز ہوا اور برف باری نے میرے تعاون سے ان چٹانوں کو کنگروں اور آرے کے دندانوں والی آری کی طرح مینڈھوں میں کاٹ دیا ہو۔ موسمِ سرما میں جب ہر طرف برف اور برفیلی ہوا کا راج ہوتا ہے تو پھر بھی اس کاٹ کھانے والی سردی میں اس وادی کے نظارے آنکھوں کو فرحت بخشتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تمہاری دنیا کے لوگوں کو یہ نظارے دیکھنے کو نہیں ملتے کہ جما دینے والی سردی میں یہاں کوئی آتا نہیں، صرف میں ہی ان نظاروں کا گواہ ہوں۔ تم سر پھرے ہو، کبھی سرد موسم میں میری وادیوں میں آنا اور اپنی آنکھوں سے ان فلک بوس پہاڑوں کو برف کی چادر اوڑھے دیکھنا۔۔ یقیناً تم مبہوت ہو جاؤ گے اور بے ساختہ جھوم کر کہہ اٹھو گے، سبحان اللہ۔ تم تو جانتے ہو شدید ٹھنڈ میں میری سطح بھی جم جاتی ہے، گو نیچے پانی سسکتا رہتا ہے۔ موسمِ گرما میں بلندی پر پڑی برف اور گلیشیر پگھلتے ہیں تو میری چنگھاڑ ان گھاٹیوں میں اور بڑھ جاتی ہے۔ قدرت دیکھو کہ اس خطے میں جہاں دھوپ چمکتی ہے، شدید گرمی ہوتی ہے اور جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی یا کم پہنچتی ہے، وہاں شدید ٹھند ہوتی ہے۔ ہوا صاف اور فضا نتھری ہے۔ یہ بھی قدرت کا کمال ہے کہ اس نے میرے قرب و جوار کی وادیوں میں کہیں کہیں سرسبز و شاداب نخلستان اتار دیئے ہیں، جو بڑے ممتاز نظر آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کسی سرسبز ملک کو زمین سمیت اٹھا کر یہاں بسا دیا گیا ہو۔ ان زرخیز قطعوں میں گاؤں بھی ہیں اور ڈھلوان در ڈھلوان کھیت بھی، جو کسان کی محنت اور اللہ کی قدرت بیان کرتے ہیں۔ پاپولر، شاہ بلوط، اخروٹ، خوبانی اور سیب کے درخت، جو اور گندم کے کھیت، جنگلی گلاب سب مل کر یہاں کے حسن کوجنت نظیر بنا دیتے ہیں۔ ان سبزہ زاروں میں کچھ ایسے بھی ہیں، جو حضرت انسان نے اپنی محنت سے اگائے ہیں۔“

میں سندھو کے ساتھ ساتھ چلا جا رہا ہوں۔ ٹھنڈی ہوا، آسمان بالکل صاف، سپاٹ نیلا۔۔ سورج دیوتا کی کرنیں سندھو کے پانی کو سنہرا رنگ دے رہی ہیں۔ میرے دائیں بائیں لداخ کی آبادی پھیلی ہے۔ راستے کے اطراف گھروندے ہیں، کچھ کچے کچھ پکے البتہ چھتیں سب کی ایک سی ہیں، چپٹی اور چوکور۔ مکانوں پر لہراتے رنگ رنگ کے جھنڈے، بلائیں گھروں سے دور رکھنے کا عقیدہ ہیں۔ اگر جھنڈے لہرانے سے دکھ تکالیف دور ہو سکتے تو میرے پاکستان کے سبھی گھروں پر جھنڈے لہرا رہے ہوتے۔

”قدیم دور میں تمہارا بلتستان بھی لداخ ضلع کا حصہ تھا۔ لیہہ اور کارگل اس کے اہم قصبے ہیں“ سندھو پھر کہانی آگے بڑھانے لگا، ”کارگل تو تمہیں یاد ہی ہوگا اور 1999ء کا کارگل محاذ بھی۔کارگل کا واقعہ بھی تمھاری سیاسی اور عسکری تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس ایڈونچر نے کسی کو پابند سلاسل کر دیا اور کسی کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا تھا“

مجھے اس کی باتوں نے لاجواب کر دیا ہے۔ میں نے حوصلہ پکڑا اور جواب دیا؛ ”تم یہ متنازع باتیں چھوڑو۔ بس اپنی کہانی سناؤ۔“

وہ بولا؛ ”برا مان گئے دوست۔ تاریخ اور حقیقت تلخ ہوتی ہیں۔ کڑوے سچ کا سامنا کرنا سیکھو۔ کب تک حقیقت کا سامنا کرنے سے ڈرتے رہو گے۔ سچ سنو گے تو پھر ہی خود کو بہتر کر پاؤگے۔سچ سے منہ مت پھیرو۔ چلو جیسا تم چاہو۔“

لداخ کے پر شکوہ پہاڑوں کی اوٹ سے بہتے میرے دوست سندھو کا نظارہ بہت دلفریب ہے۔ حسین وادیوں اور خیرہ کر دینے والی چوٹیوں سے یہ بڑی شان و شوکت سے گزرتا ہے۔ راستے میں بہنے والے بہت سے ندی نالوں کو خود میں سمیٹتا یہ لیہہ سے تیس (30) کلو میٹر دور وادی زنکسار پہنچتا ہے۔ یہ وادی دریائے سندھ کا پہلا بڑا سنگم ہے۔ یہاں مٹیالے رنگ کا ’دریائے زنکسار‘ اس میں ملتا ہے

سندھو نے مجھ سے پوچھا؛ ”کیا تمھارے علم میں ہے کہ ’رافٹنگ‘ کے کھیل کا یہ بلند ترین میدان سیاحوں کے لئے بڑا پُر کشش مقام ہے؟ ’سورو‘ اور ’زنکسار‘ کی دلفریب وادیاں بھی اسی خطے میں ہیں۔ تبتی ثقافت کی نمایاں جھلک کی وجہ سے لداخ چھوٹاتبت بھی کہلاتا ہے۔لوگوں کی اکثریت کا تعلق بدھ مت سے ہے جبکہ اسلام یہاں کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔اس قدیم بستی کا ابتدائی تذکرہ ساتویں صدی عیسوی میں بدھ سیاح ’یانگ زیان‘ xuanzang نے بھی کیا ہے۔ چٹانوں پر کی گئی کندہ کاری اور ان پر لکھے بودھا کے فرمان شاید اس سے بھی پہلے کے دور کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دور قدیم کے اس اہم تجارتی مرکز سے سامان تجارت ہندوستان، یارقند (چین) اور کشمیر کے مختلف خطوں کو جاتا تھا۔ تجارتی اہمیت کے علاوہ اس جگہ کی strategic importance کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ یار جی؛ سیاچن کو بھی راستہ یہیں سے جاتا ہے۔ یہ قراقرم کے مشرقی سلسلہ میں واقع ہے۔ پاک بھارت سرحدی پوائنٹ ۲۴۸۹nj کے شمال مشرق میں۔ تم جانتے ہو سیاچن کو ’تھرڈ پول“ بھی کہتے ہیں۔ تم دونوں ملک بھی عجیب ہو۔ 1984ء تک یہاں کسی کی توجہ نہ تھی۔ قدرتی حسن سے مالا مال برف کا یہ میدان کئی میلوں تک پھیلا پاکستان کی جغرافیائی سرحد کا حصہ تھا۔ کبھی یہاں نباتاتی اور حیاتیاتی زندگی مسکراتی تھی۔ یہاں برفانی چیتا رہتا تھا، بھورا ریچھ تھا، پہاڑی بکرا تھا۔ یہاں گلاب کے خاندان کے سرخ پھول کی بہتات تھی۔ بلتی زبان کے لفظ سیا کا مطلب ’لال پھول‘ جبکہ چین کا مطلب ’بہتات، زیادتی اور کثرت‘ ہے۔ یوں سیاچن سے مراد ہے ’لال پھولوں کی سر زمین‘ جانور بھی اب یہاں سے روٹھ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔ سرخ پھول بھی اگنا اور کھلنا بھول گئے ہیں۔ بارود نے ماحول آلودہ کر دیا ہے۔ گلیشیر تیزی سے پگھلنے لگا ہے۔ اگر یہ اسی تیزی سے پگھلتا رہا تو جلد دنیا کا دوسرا بڑا برف کا میدان ’ننھا‘ سا رہ جائے گا۔ شاید تمہارے علم میں ہو ’دریائے نوبرا‘ اسی گلیشیر سے بہتا دریائے شیوک میں گرتا ہے۔ نوبرا وادی بھی بے مثل ہے۔ شیوک میرا معاون دریا ہے جو اسکردو سے تیس(30) کلو میٹر اپ اسٹریم مجھ میں گرتا ہے۔ ہندوستانیو! تمھاری خواہشوں کی جنگ سے دریا آلودہ ہو چکے ہیں۔ میں بھی اس سے مستثنیٰٰ نہیں کہ آلودگی مجھے متاثر نہیں کرے گی۔ میں برباد ہوا تو بچو گے تم بھی نہیں۔ پینے کا پانی نہ تمھیں ملے گا اور نہ ہی تمھارے کھیتوں کو۔ترس جاؤ گے تم سرسبز کھیتوں کو۔۔ اس روز تمھیں احساس ہوگا تم نے کتنا گھاٹے کا سودا کیا تھا۔ دنیا کے اس سب سے اونچے محاذ کو اب بند کر دو ورنہ تمہارے ہاں صرف پچھتاوہ رہ جائے گا۔ وقت کو سینگ سے پکڑتے ہیں، دُم سے نہیں۔ تمہاری اپنی جائزہ رپورٹس اُس کی تباہی کا اشارہ دے رہی ہیں۔ پاکستانی یہاں ’گرین سیاچین، کلین سیاچین‘ بنانے کی تحریک میں ہیں۔ پاکستان تمہیں اپنی فوج 1984ء کی پوزیشن پر واپس لانے کا کہہ رہا ہے۔ ماحولیات کے ماہرین 2003ء میں ڈربن کانفرنس میں دونوں ممالک کو اس جگہ ’امن کا پارک‘ (peace park) قائم کرنے کی تجویز دے چکے ہیں تاکہ یہاں کے قدرتی ماحول کو دوبارہ سے بحال کیا جاسکے۔ حیواناتی اور نباتاتی زندگی پھر سے لوٹ سکے۔ اس تجویز کو مان لو جس طرح تم دونوں ممالک نے اس گلیشیر کے مغربی اور مشرقی حصے کو نیشنل پارک ڈکلیئر کیا ہے۔ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس پورے علاقے کو نیشنل پارک بنانے کااعلان کرکے اپنے اپنے ملک کے عوام کو سکھ کا سانس لینے دو۔ ان کو جیون دو، مجھے میرا جیون دو۔ عقل کرو، سمجھ کرو۔ تمہارے عوام بھوک، افلاس، پس ماندگی اور غربت میں گھرے ہیں اور تم اس برف کے لئے جہاں گھاس کا اک تنکا تک بھی نہیں اگتا، ایک دوسرے کو مار رہے ہو۔ برف کے اس محاذ کو زندہ رکھنے کے لئے تم اربوں روپے جھونک رہے ہو۔ کیوں، کس قیمت پر؟ کیا کر رہے ہو؟ اللہ کا، ایشور کا خوف کرو تم۔۔ یہ گلیشیر بھی تم سے انتقام لے رہا ہے۔ کبھی برفانی طوفان بن کر اور کبھی برف کے غاروں میں تمہارے جوانوں کو دھکیل کر زندہ نگل جاتا ہے۔ اسلحے سے کم اور موسم کی شدت سے یہاں زیادہ جانی نقصان ہو رہا ہے۔ بھارتی حکمرانو کچھ انسانیت کا خیال کرو۔ یہ جنگ تمہاری مسلط کردہ ہے۔ اسے ختم کرنے کی ذمہ داری بھی تمہاری ہے۔ جیو اور جینے دوکی پالیسی اختیار کرو۔ اپنے ہمسائے سے اچھا سلوک کرو۔ یہی وقت، زمانے اور حالات کا تقاضا ہے۔ اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ زیادہ بولوں گا تو تم پھر برا مان جاؤ گے۔ آگے چلتے ہیں۔ تمہیں لداخ اور لداخیوں کے بارے کچھ اور بتاتا ہوں۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.



Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close