گاڑی کے اندر پانی داخل ہونے پر کیا کریں؟ ملیر کی ندیوں کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے؟

ویب ڈیسک

ایسے بہت سے ڈرائیور موجود ہیں، جو منزل پر تیز رفتاری سے پہنچانے کے علاوہ روایتی راستوں سے ہٹ کر شارٹ کٹ کی معلومات رکھنے کی وجہ سے خاص سمجھے جاتے ہیں

چند روز قبل بدقسمت ذیشان انصاری کا خاندان بھی شارٹ کٹ سے جلد پہنچنے کی خواہش میں ملیر ندی کی بے رحم لہروں کا شکار بن گیا تھا۔ معلومات یہی ہیں کہ رینٹ اے کار کا ڈرائیور شارٹ کٹ سے جلد پہنچنے کا خواہش مند تھا

یہ منظر بھی ہر سال ہی دیکھا جاتا ہے کہ بلوچ پل سے کورنگی صنعتی علاقے کی طرف جانے والی سڑک ای بی ایم کاز وے پر موٹر سائیکل اور گاڑیاں تو ایک طرف بڑے بڑے ٹرک بھی ڈوبنے سے نہیں بچ سکے۔ ہر سانحے کی طرح اس حادثے میں بھی سمجھنے اور سیکھنے کے چند پہلو ہیں جو کچھ اس طرح ہیں

سیلاب کن علاقوں میں آتا ہے؟

موسلا دھار بارشوں کے بعد ندی نالوں اور دریاؤں میں طغیانی پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ ماضی میں بھی ملک کے مختلف علاقوں کو سیلابی صورتحال کا سامنا رہا ہے۔ جن مخصوص علاقوں میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ برساتی پانی کے نکاس کی صدیوں پرانی گزرگاہیں ہیں، جن پر تقسیمِ ہند کے بعد آبادیاں قائم ہونے کا سلسلہ شروع ہوا اور آج تک یہی علاقے عمومی طور پر سیلاب کا نشانہ بنتے ہیں

ملیر ندی میں طغیانی کب آتی ہے؟

علاقائی جغرافیہ سے ناواقف لوگ ملیر ندی کی طغیانی کو کراچی شہر میں ہونے والی بارش کے تناظر میں دیکھتے ہیں، لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے

یہی صورتحال گڈاپ کے علاقے سے گزرنے والی تھدو ندی اور لٹ ندی کی ہے

سارا سال خشک رہنے والی ملیر ندی کھیرتھر پہاڑی سلسلے اور بلوچستان سے آنے والے برساتی پانی کو سمندر تک پہنچانے کا صدیوں پرانا قدرتی راستہ ہے

ہو سکتا ہے کراچی شہر میں بارش کم ہوئی ہو لیکن پہاڑی سلسلے اور بلوچستان سے آنے والا پانی ملیر لنک روڈ اور کورنگی کاز وے پر آپ کا راستے روک سکتا ہے۔ کوشش یہی ہونی چاہیے کہ برسات کے موسم میں ان سڑکوں کا انتخاب نہ کریں

اسی طرح لَٹ ندی کا پانی اکثر نیو سبزی منڈی کے قریب ایم نائن روڈ کو بند کر دیتا ہے۔ کیچمنٹ ایریا زیادہ دور نہ ہونے کی وجہ سے اس ندی کے بہاؤ کا دورانیہ کم ہوتا ہے، اس لیے اگر ایم نائن پر کبھی صورتحال ہو تو انتظار یا پھر متبادل راستہ بہتر آپشن ہیں

اسی طرح دریائے سندھ کا راستہ بھی شمالی تبت کے پہاڑی سلسلے سے شروع ہوتا ہے اور 3 ہزار کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کرتا ہوا کراچی کے قریب سمندر برد ہوتا ہے۔ دریائے سندھ کے قدرتی راستے میں بہت سی آبادیاں ہیں، کچھ کچے کا علاقہ کہلانے والی اور بہت سی باقاعدہ بستیاں، یہ سب علاقے بھی شدید بارشوں کے بعد زیرِ آب آجاتے ہیں۔ وہاں بھی احتیاط ضروری ہے

موسمِ برسات میں سفر ضروری ہو تو کیا کریں؟

قدیم زمانے سے موسمِ برسات میں بہت سی احتیاطی تدابیر بتائی جاتی تھیں۔ پرانے زمانے میں بزرگ موسمِ برسات میں حشرات سے بچنے کی تلقین کرتے تھے اور اب وقت گزرنے کے ساتھ چیلنج بھی بدل گیا ہے

غیر ضروری سفر سے گریز کا مشورہ تو اب ہر فرد ہی دے گا اور یہ مشورہ بالکل درست ہے لیکن بعض اوقات سفر لازمی اور مجبوری ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں احتیاط کسی سانحے سے بچا سکتی ہے۔ احتیاط کے بہت سے پہلو ہیں، جو راستے کے انتخاب سے لے کر سواری کی تیاری تک ضروری ہیں

راستے کا انتخاب

جس علاقے سے آپ واقف نہیں وہاں خراب موسمی حالات میں جانے کا منصوبہ بنانا عقل مندی نہیں ہے۔ سڑک کے گڑھے اور کھلے مین ہول سے آپ اس وقت ہی واقف ہوسکتے ہیں کہ جب آپ عام حالات میں وہاں سے متعدد مرتبہ گزر چکے ہوں

اگر خاص کراچی کا تذکرہ کریں تو خراب موسمی حالات میں تو ای بی ایم کاز وے سے گزرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ کاز وے ایسے راستے کو کہتے ہیں جو بغیر کسی مستقل پل کے پانی پر سے گزرنے کے لیے عارضی طور پر بنایا جائے۔ مذکورہ سڑک کا متبادل جام صادق پل کی صورت میں موجود ہے، جو اسی ملیر ندی پر مستقل سفر کے لیے عرصہ دراز سے قائم ہے۔ اسی طرح شاہ فیصل کو کورنگی سے ملانے والی کراچی کی سب سے طویل بالائی گزر گاہ بھی ملیر ندی پر ہی قائم ہے

اندرون شہر بھی ہم سڑکوں کی صورتحال اور نشیبی علاقوں سے عمومی طور پر واقف ہوتے ہیں لیکن حالیہ بارشوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ’کلاؤڈ برسٹ‘ بے تحاشہ اور اچانک بارش کا سبب بنا اور نتیجے میں جو جہاں تھا وہ وہیں پھنس گیا

بارش کے موسم میں کوشش یہی کرنی چاہیے کہ بہتر راستے کا انتخاب کریں، چاہے نسبتاً طویل ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح ٹریفک پولیس اور موٹروے پولیس مخصوص حالات کے لیے ایڈوائزری جاری کرتی رہتی ہے جس پر غور سے زیادہ عمل ضروری ہے تاکہ محفوظ رہا جاسکے۔ علاوہ ازیں اگر راستے کے آس پاس آپ کے شناسا رہتے یا کام کرتے ہوں تو ان سے ضرور مشورہ کریں

گاڑی کی دیکھ بھال

بارش کے موسم میں آپ کی سواری خصوصی دیکھ بھال مانگتی ہے۔ گاڑی ہو یا موٹر سائیکل اگر چند مخصوص چیزوں کا خیال رکھیں تو پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔ بس یہ یاد رکھیں کہ ریلے میں جانے یا گزرنے سے ہر صورت احتیاط ضروری ہے کیونکہ آپ کی مہارت یا گاڑی کی ساخت پانی کے بہاؤ کا کیسے اور کتنا مقابلہ کرے گی یہ پیشگوئی ممکن نہیں ہے

موٹر سائیکل سوار کیا احتیاط کرے؟

موٹر سائیکل میں پلگ کے بیرونی حصے پر پانی لگنے سے کرنٹ کی ترسیل رک جاتی ہے جس سے انجن بند ہوجاتا ہے۔ برسات کے موسم میں ربڑ کے مضبوط پائپ سے پلگ کے حصے کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ پانی انجن میں سائلنسر کے راستے بھی داخل ہو سکتا ہے لیکن وہ اس وقت ممکن ہے جب انجن بند ہوجائے اور پانی کا لیول کافی دیر تک سائلنسر سے اوپر رہے

کوشش کریں کہ سڑک کے اس حصے سے گزرا جائے جہاں پانی کا لیول کم ہو۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ پانی کے نیچے بڑا گڑھا ہوسکتا ہے جس سے موٹر سائیکل کا توازن خراب ہونے اور آپ کے گرنے کا قوی امکان ہے۔ بوندا باندی کے بعد سڑک پر شدید پھسلن ہوتی ہے لہٰذا بریک کے استعمال یا تیز رفتاری میں احتیاط کریں۔ موٹر سائیکل کے میٹر میں بہت زیادہ پانی جانے کی صورت میں بھی انجن بند ہوسکتا ہے اس لیے اسے تھیلی سے ڈھانپ لینا بہتر ہے

گاڑی کیسے استعمال کریں؟

گاڑی کے انجن میں پانی دو راستوں سے داخل ہو سکتا ہے۔ عمومی طور پر اچھی دیکھ بھال والی گاڑی کے انجن یا کسی بھی حصے کو پانی اس قدر نقصان نہیں پہنچاتا کہ گاڑی بند ہوجائے۔ انجن بند ہونے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ سائلنسر میں بہت زیادہ پانی بھر جائے لیکن اس کا حل موجود ہے کہ بارش سے پہلے ہی ربڑ کا پائپ سائلنسر کے ساتھ لگا کر اوپر کی جانب کر دیں اور اگر مینول گاڑی ہے تو پانی سے گزرتے ہوئے ایکسیلیٹر پر دباؤ رکھیں۔ یہ ربڑ کا پائپ ویسا ہی ہے جو گاڑی میں ریڈی ایٹر کے ساتھ استعمال ہوتا ہے

دوسرا اور سب سے اہم راستہ ایئر فلٹر کمپارٹمنٹ ہے۔ زیادہ تر گاڑیوں کے انجن اسی راستے سے داخل ہونے والے پانی سے تباہ ہوتے ہیں۔ انجن ایئر فلٹر کار میں انجن کے اوپر کی جانب ہوتا ہے اور اگر پانی کا ریلا گاڑی کے اوپر سے گزرے تو پانی براستہ ایئر فلٹر داخل ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ بہت سی گاڑیوں جیسے وین وغیرہ میں فلٹر اگلے بمپر کے نیچے کی طرف ہوتا ہے اور ایسی کسی گاڑی کو پانی میں لے جانا فوری تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ ڈبل کیبن پک اپ اور مختلف بڑی گاڑیوں میں اسی لیے پائپ نما فلٹر اوپر کی جانب ہوتا ہے تاکہ پانی سے گزرنے کی صورت میں پانی انجن میں داخل نہ ہوسکے

گاڑی کے انجن میں پانی کے داخلے کا کوئی اور راستہ نہیں ہوتا ہے لیکن شارٹ سرکٹ کا معمولی امکان ہوتا ہے۔ اگر آپ کو یہ محسوس ہو کہ پانی کی سطح اس قدر زیادہ ہے کہ اب انجن کے ایئر فلٹر کمپارٹمنٹ تک پہنچ جائے گا تو انجن بند کرنا مناسب ہے کیونکہ انجن جب بھی چلے گا تو ہوا کے بجائے پانی کھینچنے کا سبب بنے گا

گاڑی میں پانی داخل ہوجائے تو کیا کریں؟

شہروں میں عمومی طور پر پانی ایک حد سے اوپر نہیں جاتا لیکن اگر گاڑی کے اندر پانی داخل ہو رہا ہو تو آپ کی حاضر دماغی ضروری ہے۔ اگر تو پانی کا دباؤ مزید بڑھتا دکھائی دے رہا ہو اور گاڑی میں پانی کی سطح تیزی سے بلند ہو رہی ہے تو جان بچانا ضروری ہے۔ گاڑی کسی سائیڈ میں فوری چھوڑ دیں اور نکلنے کو ترجیح دیں۔ یاد رکھیں کہ دروازہ اور کھڑکی پانی کو نہیں روک سکتے۔ پانی کے دباؤ سے اگر ایک مرتبہ گاڑی نے زمین پر پکڑ چھوڑ دی تو پھر کشتی کی مانند تیرتی گاڑی کسی صورت کنٹرول نہیں ہوسکے گی

اگر گاڑی میں داخل ہونے والے پانی کی سطح پنڈلیوں سے نیچے ہے تو گاڑی کو نکالنے کی کوشش ممکن ہے لیکن یہ فیصلہ آگے کی صورتحال کا اندازہ کیے بغیر ممکن نہیں۔ ندی نالوں سے گزرنا موت کو دعوت دینا ہے اور امید یہی ہے کہ آپ ایسا بالکل نہیں کریں گے

پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت جانے کی بالکل کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایسا ممکن نہیں ہوگا اور آپ کا نقصان بڑھنے کا اندیشہ ہوگا۔ یاد رکھیں کہ بلوچستان کے علاقے قلعہ عبداللہ میں 15 افراد سمیت پوری ٹریکٹر ٹرالی سیلابی ریلے میں بہہ گئی تھی تو آپ کی گاڑی کا ٹریکٹر ٹرالی سے کیا مقابلہ؟ یہ بھی یاد رکھیں کہ کورنگی کاز وے پر بڑے بڑے ٹرک یہاں تک کے فائر برگیڈ کی بڑی گاڑی بھی ندی کے بہاؤ کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہی

پیدل سفر میں بہت سے خطرات ہیں جیسے پانی کے نیچے گڑھے میں گر جانا، کرنٹ لگنے کا خطرہ اور ریلے میں بہہ جانا۔ اس لیے اونچائی سے گزرنے کی کوشش ہی محفوظ رکھ سکتی ہے

 آخری اور اہم بات

ہم میں سے ایسا کون ہے جس نے یہ نہیں سنا کہ ”جان ہے تو جہان ہے“ لیکن اس کے باوجود ہم میں سے اکثر لوگ جانی نقصان سے زیادہ مالی نقصان کی پرواہ میں زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ یاد رکھیں کوئی بھی حادثہ ہو تو املاک سے زیادہ جان بچانے کو ترجیح دیں کیونکہ اگر آپ زندہ رہیں گے تب ہی املاک آپ کے کام آسکیں گی اور یہ کہ آپ آنے والے وقت میں محنت کرکے نقصان پورا کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کی زندگی ضروری ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں لیکن قدرت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close