تریسٹھ سالہ ریٹائرڈ پرائمری اسکول ٹیچر اور آرٹسٹ قمر النساء جوکھیو کا تعلق نوشہرو فیروز کی تحصیل محراب پور سے ہے
قمر النساء جوکھیو نے اپنے گھر کے بالائی حصے میں پٹ سن کی رسی سے بنے ہوئے فن پاروں کی گیلری قائم کی ہے، جس کا نام انہوں نے ’ساہتی اکیڈمی آف آرٹس اینڈ کرافٹس‘ رکھا ہے
قمر النساء کہتی ہیں ’ان کی گیلری میں پٹ سن رسی سے بنے آرٹ کے آٹھ سو سے زیادہ مختلف اقسام کے فن پارے رکھے ہوئے ہیں“
ان تمام فن پاروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پٹ سن کی رسی سے بنائے گئے ہیں اور تخلیق کے ایک منفرد انداز کی عکاسی کرتے ہیں
قمر النسا جوکھیو بتاتی ہیں ”یہ گیلری 2019 2020 کے لاک ڈاؤن کے دوران وجود میں آئی جب وبا کے باعث لوگ گھروں تک محدود ہو گئے تھے“
انہوں نے کہا ”2018 میں جب مجھے اسکول ٹیچنگ کی نوکری سے ریٹائرمنٹ ملی تو میرے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہیں تھا۔“
انہوں نے بتایا ”میں نے سوچا کہ کوئی ایسا کام کیا جائے، جس سے مجھے اطمینان اور خوشی محسوس ہو۔ پھر میں نے پٹ سن کی رسی سے کچھ فن پارے بنائے جو آغاز میں تو اتنے بہتر نہ بن پائے۔ پھر وقت کے ساتھ اور مشق سے ان میں نمایاں فرق محسوس ہوا“
قمر النساء نے اپنی گیلری میں سندھی ثقافتی رنگ کو نمایاں طور پر خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ سندھی ثقافت کی عکاسی کرتے ان فن پاروں میں سندھی گُڈی (گڑیا) میں شاہ لطیف کی شاعری میں موجود ’شاہ کی سات سورمیاں‘، سندھ کے دیگر ثقافتی سرگرمیوں پر مبنی تخلیقات، سندھ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر آئی آئی قاضی اور ان کی اہلیہ ایلسا قاضی سمیت دیگر اسکالرز کی شکل کے فن پارے شامل ہیں“
ونر النساء اپنے کام کے بارے میں مزید بتاتی ہیں ”پٹ سن کی رسی سے بنائے گئے یہ فن پارے اب انوکھے لگتے ہیں۔ ہمارے بچپن میں تو یہ کام گھر کی عورتوں کو سکھایا جاتا تھا اور اُس دور میں یہ ضروری بھی تھا۔ جیسے آج بازار میں پلاسٹک کے کھلونے دستیاب ہیں ہمارے بچپن میں ان کھلونوں کا تصور بہت کم تھا“
وہ اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ”تب مٹی کے بنے بیل گاڑیاں اور دوسرے کھلونے ہوا کرتے تھے یا پھر پٹ سن کی رسی سے بڑی مہارت سے بنائے گئے اس طرح کے کھلونے۔۔“
مقامی ثقافتی کہانیوں کے کرداروں کے علاوہ ان کی گیلری میں مہاتما گاندھی، قائد اعظم محمد علی جناح، ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم اور لیڈی ڈیانا کی شکل کے فن پارے موجود ہیں
چینی سرخ انقلاب کے بانی ماؤزے تنگ سے لے کر جنوبی افریقہ کے سیاہ فام لیڈر نیلسن منڈیلا کو بھی انہوں نے پٹ سن کی رسی سے دکھانے کی کوشش کی ہے
مسلم دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو سے لے کر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا پتلا بھی ان کی گیلری میں موجود ہے
پاکستان کے ثقافتی اور سماجی شخصیات میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، عابدہ پروین، جی جی زرینہ بلوچ اور سندھی لوک فن کاروں کے ننھے پتلے بنائے ہیں
قمر النسا جوکھیو نے اپنے کام کی نزاکت کو بیان کرتے بتایا ”فن پارے کو کسی انسان کی شکل میں ڈھالنا ہی سب سے زیادہ چیلنجنگ عمل ہوتا ہے مثلاً اگر سائیں جی ایم سید کی شکل بنانی ہے تو میں ان کا فوٹو دیکھ کر رسی کو ایسی ترتیب میں پھیرتی ہوں جو بعد میں ان کی تصویر سے مماثلت رکھے“
فن پاروں میں استعمال ہونے والی چیزوں میں گوند، ردی کے کاغذ، گھر میں پڑے فالتو کپڑوں کے ٹکڑے، رقیق تار اور پٹ سن کی رسی شامل ہیں
قمر النسا کے بقول ایک فن پارے پر بمشکل ایک سو روپے خرچہ آتا ہے
انہوں نے اپنے فن پارے کبھی کسی کو فروخت نہیں کیے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے فن کی کوئی قیمت نہیں لگائی
قمر النسا اپنے فن کو نمائشوں میں بطور پٹ سن آرٹسٹ پیش کرتی ہیں
پرائمری اسکول کی ریٹائرڈ ٹیچر پٹ سن فن پارے بنانے کے ساتھ بچوں کے لیے دو کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں
سندھی زبان میں بچوں کے ادب میں انہوں نے ایک شاعری کی کتاب اور ایک کہانیوں کی کتاب لکھی ہے۔