نشہ قوم کا مستقبل نگل رہا ہے۔۔۔

محمد عمران چوہدری

’’آپ کو معلوم ہے کہ مجھے پہلی بار نشہ کس نے لا کر دیا تھا؟‘‘

’’جی معلوم ہے۔‘‘ میں نے اسے حیران کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا

’’کس نے؟‘‘ اس نے سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھا

’’کسی کلاس فیلو نے لا کر دیا ہوگا۔ کیونکہ عام طور پر ہمارے خوشحال گھرانوں کے طلبا اسکول، کالج سے ہی شوقیہ نشہ شروع کرتے ہیں اور پھر وہ دھیرے دھیرے تاریک راہوں کے مستقل مسافر بن جاتے ہیں۔‘‘ میں نے وطن عزیز کے حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیا

’’آپ غلط سمجھے۔ مجھے پہلی بار نشہ میرے بھائی نے لاکر دیا تھا۔‘‘ اس کی بات نے مجھے واقعی حیران کر دیا

’’آپ کے بھائی نے؟ مگر کیوں؟‘‘ میرے لیے یہ واقعی حیرانی کی بات تھی کہ ایک بھائی اپنی بہن کو نشہ کیوں لا کر دے گا

’’دراصل ہمارے گھر میں بے سکونی ہے۔ ہمارے گھر میں ہر وقت شور رہتا ہے۔ میرے والد ذرا سی بات کا بتنگڑ بنالیتے ہیں۔ معمولی بات پر ہاتھ اٹھانا ان کا معمول ہے۔ اسی وجہ سے میرے بھائی نے پہلے خود سکون کے لیے نشہ استعمال کیا اور پھر یہ کہتے ہوئے ایک پڑیا مجھے دی کہ اسے استعمال کرنے سے سکون ملتا ہے۔‘‘ اس نے اپنے درد کی مختصر داستان بیان کی

’’آپ کے والد اَن پڑھ ہیں؟‘‘ میں نے سوال کیا

’’نہیں میرے والد تعلیم یافتہ اور ایک اچھی کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں دنیا بھر کی تمام چیزیں ہیں، ہمیں ہر سہولت مہیا ہے، سوائے سکون کے۔۔۔‘‘

اور پھر میں سکون حاصل کرنے کے روحانی نسخے بتاتے ہوئے آف لائن ہوگیا۔ مختصر طور پر عرض کرتا چلوں کہ میری اس لڑکی سے بات سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ہوئی تھی اور میری معمولی سی توجہ پر اس نے حالِ دل کھول کر رکھ دیا۔ یہ صرف ایک لڑکی کی کہانی نہیں، ہماری نوجوان نسل کی اکثریت نشے کا شکار ہو چکی ہے۔ نشہ ہمارے اسکول، کالجز، یونیورسٹیز میں اس قدر پھیل چکا ہے کہ سابق وزیر شہریار خان آفریدی نے فلور آف دی ہاؤس پر یہ دعویٰ کیا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 75 فیصد طالبات اور 55 فیصد طلبہ منشیات استعمال کرتے ہیں

اسلام آباد کے ایک وی آئی پی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک طالب علم نے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ نشے کی بدولت اس کی تعلیم کے دو قیمتی سال ضائع ہو گئے، حالانکہ اس نے بطور تفریح نشے کا استعمال شروع کیا تھا

وفاقی دارالحکومت کی یونیورسٹی میں نمایاں پوزیشن لینے والی ایک لڑکی کے بقول وہ نئے بننے والے دوستوں کی وجہ سے نشے کا شکار ہو گئی۔ والدین کی بروقت مداخلت کی بدولت اس کی جان تو بچ گئی مگر تعلیم تباہ ہو گئی۔ گزشتہ دنوں فیصل آباد میں پیش آنے والے دلخراش واقعے، جس میں میڈیکل کالج کی طالبہ کو جوتے چاٹنے پر مجبور کیا گیا، کے بارے میں بھی بعض افراد کا کہنا ہے کہ لڑکی نشے کی عادی ہے

حالیہ دنوں میں اے ٹی ایم سے کیش نکالنے والوں کو لوٹنے والے تین افراد کے گروہ سے جب تفتیش کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں، نوکری نہ ملنے کی وجہ سے ڈکیت بن گئے، پھر نشے کی لت پڑ گئی، اب نشہ پورا کرنے کے لیے ڈکیتی کرتے ہیں

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ ڈات سو افراد نشے کا شکار ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ تلخ امر یہ ہے کہ یہ تعداد دہشت گردی سے مرنے والے افراد کی تعداد سے بھی زیادہ ہے

عالمی ادارہ برائے صحت کی ایک رپورٹ، جس میں دنیا کے مختلف ممالک میں نشہ آور اشیا استعمال کرنے والے افراد کے متعلق بتایا گیا ہے، کے مطابق 2025ع تک پاکستان میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد دس کروڑ سے زائد ہو سکتی ہے

ضرورت اس امر کی ہے کہ منشیات کے خاتمے کےلیے ہم سب میدان عمل میں نکلیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ والدین کی ذمے داری ہے۔ والدین اپنے بچوں کو بنیادی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ان کی روحانی ضروریات بھی پوری کریں۔ گھر کے ماحول کو پرسکون رکھیں۔ اپنے اندر برداشت پیدا کریں۔ میاں بیوی آپس کی لڑائیوں سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کریں، اگر ایسا نہ ہو سکے تو اپنے اختلافات کو بیڈ روم تک محدود رکھیں، کیونکہ والدین کی لڑائیوں کے بچوں پر خوفناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گھر کی بے سکونی بچوں کو باہر سکون تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے اور باہر سکون منشیات کے درخت کے نیچے ہی ملتا ہے۔ بچوں کے دوستوں پر غیر محسوس انداز میں نظر رکھیں۔ یاد رکھیے آپ کی معمولی کوتاہی، تھوڑی سی عدم برداشت آپ کے بچوں کو مستقل طور پر تاریک راہوں کا مسافر بنا سکتی ہے

حکومت کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ منشیات کی روک تھام کے لیے، محکمے، قوانین موجود ہیں۔ حکومت صرف اتنی مہربانی کرے کہ قوانین پر عمل کروائے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں نشے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے خواہش مند 99.7 فیصد افراد اس علاج کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ حکومت خیراتی اداروں کے تعاون سے مفت بحالی سینٹرز کی تعداد بڑھائے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد زندگی کی طرف لوٹ سکیں

یاد رکھیے، اگر ہم خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے اور ہم میں سے ہر ایک نے اپنی ذمے داری ادا نہ کی تو پھر بہت دیر ہوجائے گی اور ہم چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کرسکیں گے۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close