نواب اکبر بگٹی نے اپنی موت سے وہ کر دکھایا، جو ان سے زندگی میں ممکن نہ ہو سکا۔ بلوچ قوم پرست اور مثالیت پسند انہیں حریت پسند اور باغی کے طور پر نہیں بلکہ ایسے گورنر کے طور پر پیش کرتے تھے، جس نے 70ء کی دہائی میں بلوچ بغاوت کو دبانے کے لیے حکومت پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا تھا
نواب بگٹی نے مگر ایسا سنہری خواب دیکھا کہ جس سے اپنے امیج کو بدل ڈالا اور یہ خواب تھا سنہری موت کا۔۔ یوں لگتا ہے کہ نواب بگٹی نے انتہائی محنت سے اپنی سنہری موت کی خود منصوبہ بندی کی
اپنے مخالفوں اور ریاست کو ایسا الجھایا کہ جس طرح کی سنہری موت وہ چاہتے تھے، وہ ریاست کو انہیں دینا پڑی۔ یوں وہ اکبر بگٹی، جو کبھی بلوچ کاز کا غدار سمجھا جاتا تھا، اپنی سنہری موت کے بعد سے بلوچ کاز کا سب سے بڑا حریت پسند کہلانے لگا ہے
نواب اکبر بگٹی پڑھے لکھے اور برجستہ فقرے کسنے والے شخص تھے۔ چہرے پر ہلکی طنزیہ مسکراہٹ سجائے نواب اکبر بگٹی پنجاب کی استحصال پسندانہ پالیسیوں پر تنقید کرتے مگر ساتھ ہی ساتھ ان میں اتنا حوصلہ اور برداشت بھی تھا کہ وہ اپنے اعتراضات پر مدلل جوابات سنتے اور بعض اوقات اس کو سراہتے بھی تھے
ایک ملاقات میں ہلکی پھلکی گفتگو ہو رہی تھی اور جس میں پنجابی اشرافیہ کی غیرت کو للکارا اور کہا کہ فلاں سردار کی ماں اس محلے سے ہے اور فلاں پیر کی بیوی گانے والی ہے
میں نے اس طنز کو پی کر کہا کہ اس طرح کی غیرت اور حمیت ادھر ہی ہے۔ پنجاب میں تو کسی کو ماؤں اور بیویوں کی تفصیل میں جانے کا وقت ہی نہیں اور یہ بھی کہہ دیا کہ اس طرح کی غیرت قبائلی جہالت کی نشانی ہے تو نواب صاحب نے جواباً قہقہہ لگایا اور کہا پنجابی بزدل بھی ہیں
مجھے اس لمحے کا انتظار تھا، میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا ’اگر جان کی امان پاؤں تو مجھے آپ سے شدید اختلاف ہے۔‘
نواب صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا بولو، میں نے عرض کی کہ قومیں کبھی بہادر ہوتی ہیں کبھی بزدل۔ تاریخ میں کردار بدلتے رہتے ہیں کبھی فرانس بہادر تھا کبھی انگلینڈ۔
اسی طرح پنجاب نے پورس اور رنجیت سنگھ پیدا کیے جو بہادری کی مثال تھے اسی طرح پنجابی کبھی افغانی سینٹرل ایشیا کے فاتحین کا ساتھ دیتے اور ان کو تختِ دلی سے لڑائی کے لیے پانی پت کے میدان تک چھوڑ آتے
پنجابیوں نے کئی صدیوں تک کوئی لڑائی نہیں ہونے دی۔ خوشامد، گفتگو اور حکمت عملی سے فاتحین کو ڈیل کرتے رہے۔ رنجیت سنگھ نے تو کابل تک میں حکومت کے جھنڈے گاڑ دیے۔ پنجابی بھی بلوچوں کی طرح ہی کے بہادر یا بزدل ہیں۔
کیا یہ سچ نہیں کہ بلوچ سرداروں نے گھوڑوں کی طرح جت کر کرنل سنڈیمن کی رتھ کو کھینچا تھا اور ان سرداروں میں بگٹی سردار بھی شامل تھا
نواب صاحب نے میری بات سنی اور میں نے دیکھا کہ ان کا مجھ سے رویہ عزت و احترام والا ہو گیا۔ حالانکہ مجھے اندیشہ تھا کہ وہ مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ میرے دل میں بھی ان کا احترام بڑھ گیا کہ وہ اختلاف کرنے والے کی عزت کرتے ہیں اور اگر دلیل میں وزن ہو تو اپنے موقف کے خلاف بھی بات سنتے اور سراہتے ہیں
نواب بگٹی نے ریاست قلات کے زمانے میں اپنے قبیلے کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ وہ وفاقی وزیر رہے، گورنر بلوچستان رہے اور منتخب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر بھی فائز رہے
نواب بگٹی انا پرست اور خودار تھے۔ انہیں کینسر بھی تھا، ریاست چاہتی تو ان سے اغماض برت سکتی تھی۔ ان کے ماضی کو سامنے رکھ کر ان سے نرمی کا سلوک کر سکتی تھی مگر جنرل مشرف نے انہیں نشانہ بنانے کو ذاتی تسکین کا ذریعہ بنا لیا
یوں بھٹو کی پھانسی کے بعد ریاست سے ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ بلوچستان کو نواب بگٹی کی موت کی شکل میں ایک نیا بھٹو مل گیا اور اس وقت سے بغاوت کی جو آگ لگی ہے، ابھی تک بھجنے کا دم نہیں لے رہی۔ کئی فوجی جوان شہید، کئی پنجابی، پشتون اور بلوچ اسی نفرت کا شکار ہوئے بلوچ باغیوں کو جو نقصان ہوئے ان کا تو ابھی کسی کو علم تک نہیں۔ غرضیکہ اکبر بگٹی کا قتل ایک غلط فیصلہ ثابت ہوا ہے
نواب اکبر بگٹی، لڑائی اور انتقام کو بھی محبت ہی کی طرح جذبہ سمجھتے تھے۔ ایک بار جب لڑائی شروع ہو گئی تو وہ اس کا مزہ لیتے تھے۔ انتقام کے جذبے کو وہ رومانس قرار دیتے تھے اور بلوچ لوک کہانی کے ہیرو بالاچ کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے تھے۔ نواب اکبر بگٹی ایک بہت ایماندار اور اچھے ایڈمسٹریٹر تھے، بطور وزیر اعلیٰ ان کی انتظامیہ پر سخت گرفت تھی
وہ انتظام، گورنس پر گہری دسترس رکھتے تھے۔ ان کو گئے کئی برس ہو گئے مگر اب بھی بلوچستان میں ان کی یادیں زندہ ہیں ان کی موت سے جو گہرا گھاؤ لگا ہے، اتنے سال گزرنے کے باوجود ابھی تک بھرا نہیں۔
بشکریہ: اردو نیوز