شاہ رخ کے بیٹے آریان خان کا کیس، بھارت واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم

ویب ڈیسک

ممبئی : شاہ رخ خان کے تیئیس سالہ بیٹے آریان خان کے خلاف منشیات کے کیس نے بھارت واضح طور پر فکری لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے

ایک طرف وہ لوگ ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ مجرم چاہے جو بھی ہو، اس پر قانون کی گرفت کڑی ہونی چاہیے۔ دوسری جانب وہ لوگ ہیں جن کا موقف ہے کہ شاہ رخ خان کے بیٹے کو مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے

اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور معروف کالم نگار اپوروانند نے دی وائر میں ایک کالم میں لکھا ہے کہ شاہ رخ خان کے بیٹے کے خلاف کیس دراصل بھارت کی ہندو قوم پرستوں کے احساسِ کمتری کا شاخسانہ ہے، جنہیں اس بات کا حسد ہے کہ بھارت میں طاقتور اور خوبرو مسلمان مردوں کے پیچھے اتنی بڑی تعداد میں عورتیں کیوں بھاگتی ہیں

وہ لکھتے ہیں کہ بالی وڈ میں ’خانوں‘ کی بے پناہ مقبولیت سے قوم پرستوں کے احساسِ کمتری کو ہوا ملی ہے اور ’لو جہاد‘ نامی مہم اسی احساسِ کمتری کی پیداوار ہے، جس میں ہندوتوا کے پیروکار قوم پرستوں کو خدشہ ہے کہ ان کی عورتیں مسلمانوں کے ہتھے چڑھ جائیں گی

اپوروانند نے مزید لکھا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں آج اردو بھی نشانے پر ہے۔ انہوں نے حال ہی میں فیب انڈیا کمپنی کی جانب سے ’جشنِ رواج‘ نامی مہم کے نام پر ہندونواز جماعتوں کی مخالفت پر لکھا کہ آر ایس ایس کے لیے یہ بات ناقابلِ برداشت ہے کہ مذہبی تہواروں پر بھی مسلمانوں اور اردو زبان کا سایہ پڑ رہا ہے

ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان فلمی ستاروں کی طرح اردو زبان بھی حسد کا شکار ہے اور اسے ملک کی تقسیم کا باعث قرار دے کر اس سے نفرت کی جا رہی ہے

اپوروانند نے اپنے کالم کے آخر میں لکھا ہے کہ اردو اور شاہ رخ خان زندہ یادگاریں ہیں۔ انہیں اپنے وجود کی قیمت ادا کرنا ہو گی

بھارتی میڈیا نے اس کیس کو زبردست توجہ دی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر نان سٹاپ بحث کا سلسلہ جاری ہے، جب کہ اکثر آن لائن اخبار اس پر لائیو اپ ڈیٹس دے رہے ہیں۔ اس کیس کو میڈیا میں بہت زیادہ توجہ دینے کے حوالے سے بھی کئی کالم نگاروں نے تبصرے کیے ہیں

معروف صحافی برکھا دت نے واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہونے والے اپنے ایک آرٹیکل میں عدالت کی جانب سے آریان خان کو ضمانت نہ دیے جانے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ضمانت معمول کی کارروائی ہوتی ہے، خاص طور پر ایسی صورتِ حال میں جب زہر اگلنے والے جتھے مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں

برکھا دت نے مزید لکھا ہے کہ شاہ رخ خان اور ان کا بیٹا موجودہ صورتِ حال میں توجہ بٹانے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ چین کے خطرے پر کوئی بات نہیں کر رہا، نہ ہی کوئی کرونا کے اثرات پر بات کر رہا ہے کیوں کہ میڈیا کے پاس پرائم ٹائم پر بغیر عدالتی کارروائی کے فیصلے صادر کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کی فرصت ہی نہیں

برکھا دت اپنے کالم میں لکھتی ہیں کہ بھارت میں مسلمان، دلت اور قبائلیوں کی تعداد جیلوں میں ان کی آبادی کے لحاظ سے کہیں زیادہ ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close