یہ سب ہمارا ہی کیا دھرا ہے!

رضا ہمدانی

موسمی تبدیلی بوتل کے جن کی مانند ہے کہ ایک بار باہر آ گیا تو واپس بوتل میں نہیں ڈالا جا سکتا

اگر آج ہی سے پوری دنیا میں کاربن کے اخراج کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے تب بھی جو کاربن پہلے ہمارے ماحول میں ہے اس کے اثرات کافی سالوں تک رہیں گے

دنیا میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ چند ہی دہائیوں قبل جس دنیا میں ہم رہ رہے تھے اس وقت ہم اس سے کافی مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں

موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں اور ایک بار جب یہ اثرات نمایاں ہونے شروع ہو جائیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دیر ہو چکی

یہ موسمی تبدیلی ہی تو ہے جو ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان کا کہنا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں مون سون میں اب تک 1100 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے جس کے باعث سندھ کے 30 اضلاع ڈوب چکے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ صرف اگست میں 166 ملی میٹر بارش ہوئی جو اوسط بارش سے 241 فیصد زیادہ ہے جبکہ اس مون سون میں سندھ میں اوسط بارش سے 784 فیصد زیادہ ہوئی

بلوچستان کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ زمینی راستے منقطع ہیں اور امداد ہیلی کاپٹروں سے پہنچائی جا رہی ہے لیکن موسم کی خرابی کے باعث ہیلی کاپٹر بھی واپس آ جاتے ہیں

پاکستان کی تاریخ میں 2010 کے سیلاب ہمیشہ یاد رہیں گے۔ لیکن اس بار کہا جا رہا ہے کہ بارشیں 2010 کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوئیں

بارہ سال قبل سیلاب سے تقریباً دو کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے لیکن ان بارشوں میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی کے مطابق تین کروڑ لوگوں کے سروں پر چھت نہیں، ہزاروں لوگوں کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں

قدرتی آفات نا صرف انفراسٹرکچر کو تباہ کرتی ہیں بلکہ معیشت کو بھی بڑا نقصان پہنچاتی ہیں۔ قدرتی آفات کے باعث لوگوں کی معاش متاثر ہوتی ہے، عام سروسز جو لوگوں کو دستیاب ہوتی ہیں وہ متاثر ہوتی ہیں۔ اور قدرتی آفات میں سیلاب کے باعث اموات سب سے زیادہ ہوتی ہیں اور بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق بیسویں صدی میں سیلابوں سے 68 لاکھ افراد اپنی جان سے گئے

تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایشیا سب سے زیادہ سیلاب سے متاثر ہونے والا خطہ ہے اور گذشتہ 25 سالوں میں سیلاب سے ہونے والی اموات میں سے آدھی یعنی 50 فیصد اموات ایشیا میں ہوئیں

آنے والے دنوں میں سیلابوں سے جانی و مالی نقصان میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ اربنائزیشن میں اضافہ ہو گا اور حکومتی سطح پر سیلابوں سے نمٹنے کے لیے نہ تو کوئی ٹھوس منصوبہ بندی ہوگی اور نہ ہی تیاری

لیکن ہم صرف موسمیاتی تبدیلی ہی پر سارا ملبہ ڈال کر اپنے ہاتھ نہیں جھاڑ سکتے۔ یہ درست ہے کہ بارشیں بہت زیادہ ہوئی ہیں لیکن اب اگر لوگ اپنے ہوٹل دریا کے راستے میں تعمیر کر لیں گے تو دریا کیا جانے کہ اس ہوٹل کو این او سی کس نے دیا اور دیا بھی ہے یا نہیں۔ یہی تو ہوا ہے کالام میں ہنی مون ہوٹل کے ساتھ

2007 میں کالام جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ہوٹل میں ٹھہرے، جس کی بالکونی سے دریائے سوات کا دلکش نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا

صبح صبح اٹھ کر بالکونی میں بیٹھ کر چائے پینے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ صرف دریا کا شور اور کوئی آواز آپ کے کانوں میں نہیں پڑتی۔ لیکن اس وقت بھی ہوٹل کے مالک سے میرا یہی سوال تھا کہ دریا کے راستے میں آ بیٹھے ہو جس پر اس نے جواب دیا کہ کچھ نہیں ہوتا جناب ہوٹل پکا بنا ہوا ہے

لیکن تین سال بعد ہی دریا نے بتا دیا کہ سرکار تو تجاوزات کی این او سی دے سکتی ہے لیکن جہاں تجاوزات کر رہے ہو وہ میرا علاقہ ہے

چند ماہ قبل دوبارہ کالام گیا تو یہی دیکھا کہ ہوٹل دوبارہ دریا ہی کے راستے پر بنا دیے گئے ہیں۔ اور پھر وہی ہوا جو ہر اس چیز کا ہوتا ہے جو پانی کے راستے میں آتی ہے

اندرونی اور بیرونی سیاحت کسی بھی ملک کے لیے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہوتا ہے اور یہ ہی حال پاکستان کا بھی ہے۔ لیکن سیاحت کے فروغ کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اس جگہ ہوٹل بنا لیے جائیں جہاں نہیں بنانے چاہییں

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجی بھی ہے اور سائنس بھی۔ مسئلہ سائنس کے نہ ہونے کا نہیں بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قوت ارادی کی کمی ہے

پاکستان کے پاس آپشن ہے کہ آیا وہ اپنے وجود میں آنے کے سو سال بعد موسمی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے ماحول دوست اقدامات اٹھا کر معاشی کامیابی کی مثال بننا چاہتا ہے یا نہیں

ہمارا سیارہ بیس سال پہلے والا نہیں رہا اور موسمی تبدیلی کے باعث اس میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ آج کل کے شدید موسمی واقعات کو دیکھیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا اثر مستقبل میں کیا ہوگا۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close