سندھ کے سیلاب متاثرین پر کیا بیت رہی ہے؟

ویب ڈیسک

یہ منظر ہے سندھ کے شہداد کوٹ کی مویشی منڈی کا، جہاں گاجی بخش کھوسہ کو کوئی بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے جاتا تو کوئی دوسری جانب کونے میں لے جا کر کان میں سرگوشی کرتا لیکن گاجی خان انکار کر دیتا

گاجی خان نے سیاہ رنگ کا ایک بکری کا بچہ گود میں اٹھا رکھا تھا جبکہ ایک سفید رنگ کا بکرا بھی اس کے پاس تھا

عمر رسیدہ گاجی بخش کا تعلق بیس کلومیٹر دور واقع امام بخش جمالی گوٹھ سے ہے۔ ان کے گاؤں جانے والا راستہ سیلابی پانی کے بہاؤ کی وجہ سے کٹ گیا ہے

گاجی بخش کھوسو بتاتے ہیں ”مجھے پانچ ہزار سے چھ ہزار روپے میں یہ دونوں جانور فروخت کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے حالانکہ ان کی قیمت بیس ہزار کے قریب ہے لیکن بیوپاری مجبوری کا فائدہ لینا چاہتے ہیں“

انھوں نے بتایا ”میرے اہل خانہ پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ میں ان جانوروں کو فروخت کرنے کے بعد مزدا یا ٹریکٹر کرائے پر حاصل کروں گا اور پھر اپنے اہل خانہ کو محفوظ مقام پر منتقل کروں گا“

گاجی خان کے مطابق ٹرانسپورٹ کا کرایہ پندرہ ہزار ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ قیمت ان دو جانوروں کو بیچنے سے مل جائے گی۔ اب وہ پریشان ہیں۔ لیکن وہ اکیلے نہیں جو اس پریشانی میں مبتلا ہیں۔ سیلاب نے لاکھوں لوگوں کی زندگی کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے

کسانوں کے پاس زمین اور فصل کے بعد دوسرا اثاثہ مال مویشی ہی ہوتے ہیں، جن کو وہ کسی ہنگامی صورتحال میں فروخت کرکے کچھ رقم حاصل کرتے ہیں

سندھ میں حالیہ بارشوں کے دوران صوبائی ڈیزاسٹر مینجنمنٹ اتھارٹی کے مطابق پندرہ ہزار کے قریب مویشی ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ لاکھوں مویشی متاثرین کے ساتھ ہی موجود ہیں۔ مچھروں کی بہتات کی وجہ سے انسان اور مویشی بیمار ہو رہے ہیں

اس مویشی منڈی میں اپنے بکرے بیچنے کے لیے اکبر علی بھی موجود تھے، ان کا تعلق گڑھی خیرو سے ہے اور وہ 2010 کے سیلاب میں بھی متاثر ہوئے تھے

انہوں نے بتایا ”ہمارے زیر آب گاؤں کا جیکب آباد سے زمینی راستہ کٹ چکا ہے، جبکہ واحد راستہ شہدادکوٹ سے ہے، جو کسی بھی وقت منقطع ہو سکتا ہے۔ مجھے بیوپاری بہت کم قیمت بتا رہے ہیں“

دوسری جانب شہداد کوٹ کے سرکاری تعلیمی اداروں میں تو پہلے ہی متاثرین موجود تھے۔اس کے علاوہ بائی پاس، قمبر-شہدادکوٹ روڈ اور قمبر میرو خان روڈ پر میلوں تک سڑکوں پر ہزاروں لوگ بیٹھے ہیں، جن میں بلوچستان کے علاقوں جھل مگسی، صحبت پور، گنداخہ سے آنے والے بھی شامل ہیں اور خیموں کے منتظر ہیں

یہاں بھوک کا راج ہے۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہے، لیکن پینے کے لیے پانی میسر نہیں۔شام کو ہر عارضی کیمپ کے باہر چولہا جلتا ہے۔ ہر کوئی نے اپنی حیثیت کے مطابق کھانا بناتا ہے۔ حکومت کی موجودگی کے یہاں کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ حالانکہ وزیر اعلیٰ سندھ کے دعوے کے مطابق متاثرین کو پکا ہوا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے

عارضی کیمپ میں موجود انیتا کھوسو نے کچھ سوکھی لکڑیاں جمع کیں اور پتھروں سے بنے چولہے میں ڈالیں۔ اس کے بعد پلاسٹک کی تھیلیاں ڈال کر ماچس سے ان کو جلایا اور روٹیاں بنانے لگیں

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس کوئی کھانا نہیں لاتا۔ انہوں نے اپنے بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بے بسی سے کہا ’ان کو دھوپ سے کیسے بچائیں۔ خیمے بھی نہیں، گاؤں سے کب پانی نکلے گا اور دربدری کی زندگی ختم ہوگی۔‘

دوپہر کو ہی ایک چنگچی رکشہ میں ایک بوری میں بند آلو کے ساتھ بنے ہوئے چاول لائے گئے

ایک شخص نے چاول کی تھیلی دکھاتے ہوئے کہا ’انصاف کریں، کیا ایک خاندان کے لیے یہ کافی ہے!؟ اس کے لیے بھی لوگوں کو دھکا دینا پڑتا ہے، لڑنا پڑتا ہے، اس سے بہتر نہیں ہے کہ یہ دی ہی نہیں جائے۔“

یہ ضلع لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے شہر نصیر آباد کا منظر ہے، جہاں آس پاس کے گاؤں سے چنگچی رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے علاوہ پیدل لوگوں کی آمد جاری ہے، ان میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ بعض خواتین نے سروں پر کپڑے کی پوٹلی رکھی ہوئی تھی اور بعض کی گود میں بچے تھے۔ ان سب کے گاؤں اور گھر زیر آب آ چکے ہیں

شہروں سے پانی کی نکاسی کس رخ میں کی جائے یا شہر میں سیلابی پانی آنے سے کیسے روکا جائے اس وقت سندھ میں سیاسی و انتظامی کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے

سن شہر سے کچھ آگے ریلوے ٹریک کے دونوں اطراف پانی ہی پانی ہے، جبکہ ایک جگہ یہ ٹریک پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور نیچے کی طرف جھک بھی چکا ہے۔ اس ٹریک پر کوٹری سے لاڑکانہ تک ریل گاڑی اور مال گاڑی چلائی جاتی ہے۔ مرکزی ریلوے ٹریک پر آمد و رفت پہلے ہی معطل ہے کیونکہ نوابشاہ میں یہ زیرِ آب تھا

یہاں بھی ٹرکوں، ٹریکٹر ٹرالیوں اور پک اپ پر چارپائیوں، بکریوں کے ساتھ آگے کی طرف جاتے ہوئے کئی خاندان نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ سیہون میں بھی رکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آس پاس کے علاقوں کے رہائشی ہیں۔ یہاں بھی سرکاری عمارتوں میں پہلے ہی متاثرین موجود ہیں اس لیے دیگر کے لیے اب جگہ سڑک ہی بچی ہے

جوہی شہر میں لوگ شہر کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی رنگ بند بنا رہے ہیں جیسا کہ وہ 2010 میں بھی کر چکے تھے۔ جوہی دادو سے تقریباً بیس کلومیٹر دور واقع ہے، جس کی آبادی تیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ اس کے ایک طرف ایم این وی بند اور دوسری طرف ایف پی بند ہے، جس میں گاج ندی اور بلوچستان سے آنے والا پانی آتا ہے

محمد ہاشم کھوسو بتاتے ہیں ”سنہ 2010 کے سپر فلڈ میں آس پاس کا علاقہ ڈوب گیا تھا لیکن ہم شہر کو بچانے میں کامیاب رہے، اس کی وجہ یہی رنگ بند تھا جس کی تعمیر کے لیے مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی کام کیا تھا“

قربان علی کے مطابق اس مرتبہ حکام نے انہیں مشینری دی ہے، باقی مزدوری مقامی لوگ خود کر رہے ہیں اور ان میں تمام سیاسی جماعتیں و مذہبی جماعتوں کے لوگ شامل ہیں۔ ان کے مطابق وہ لوگ جو بلدیاتی انتخابات ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں، وہ بھی اس وقت ساتھ کھڑے ہیں

جوہی کے آس پاس تین بین الاقومی آئل اینڈ گیس کمپنیاں موجود ہیں۔ مقامی سماجی کارکن معشوق برہمانی نے الزام لگایا کہ یہ کمپنیاں گیس و تیل تو یہاں سے حاصل کرتی ہیں لیکن یہاں کے لوگوں سے لاتعلق ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ 2010 کے سیلاب میں بھی ریسکیو، ریلیف اور بحالی میں ان کمپنیوں کا کوئی کردار نہیں تھا اور اب بھی ان کی تمام توانائیاں آئل اور گیس فیلڈز کو بچانے کے لیے ہیں

دادو شہر کے باہر بھی متاثرین سڑک پر نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد خیرپور ناتھن شاہ کا شہر آتا ہے جو 2010 کے سیلاب سے متاثر ہوا تھا۔ اس مرتبہ سیلابی پانی سے اس شہر کو بچانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے

مقامی صحافی مختیار چانڈیو کے مطابق روایتی طور پر انگریزوں کے زمانے سے یہ طے ہے کہ جب بھی سیلابی صورتحال ہو گی تو دادو کینال سے نکلنے والی جوہی برانچ کو کٹ لگایا جائے گا اور یہ پانی مین نارا ویلی ڈرین کے ذریعے منچھر جھیل میں چلا جائے گا لیکن 2010 کے سیلاب میں اسے کٹ نہیں لگانے دیا گیا، جس وجہ سے خیرپور ناتھن شاہ ڈوبا تھا۔ل

ان کے مطابق اس وقت بھی کشیدگی جاری ہے۔ ’دونوں طرف حکمران پیپلز پارٹی کے ہی لوگ ہیں۔ خیرپور ناتھن شاہ والے کہتے ہیں کٹ لگائیں شہر کو بچائیں جبکہ دوسرے کہتے ہیں کٹ لگانے نہیں دیں گے جوہی متاثر ہوگا۔‘

خیرپور ناتھن شاہ سے آگے میہڑ شہر آتا ہے، شہر سے باہر انڈس ہائی وے کے دونوں اطراف پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ جبکہ سندھ کے کئی اضلاع میں صورتحال اس سے بھی بدتر ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close