جاسوسی کے الزام میں اٹھائیس سال پاکستان کی جیل میں قید رہنے والے گجرات کے کلدیپ یادو رہائی کے بعد 25 اگست کو احمد آباد میں اپنے گھر واپس پہنچے
کلدیپ کو جاسوسی کے الزام میں سن 1994ع میں گرفتار کیا گیا تھا
گجرات یونیورسٹی سے قانون میں گریجویٹ کی ڈگری یافتہ کلدیپ یادو سن 1989ع میں اپنے گھر والوں کو یہ بتا کر، کہ وہ دہلی میں ملازمت کی غرض سے جا رہے ہیں، گجرات سے روانہ ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے کام کی نوعیت کے بارے میں گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ بعد میں گھر والوں کا ان سے رابطہ ختم ہو گیا۔ یکم فروری سن 2007ع کو اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن نے کلدیپ کے گھر والوں کو ایک خط کے ذریعہ اطلاع دی کہ وہ لاہور کے کوٹ لکھ پت جیل میں ہیں۔ پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے انہیں جاسوسی کے الزام میں پچیس برس قید کی سزا سنائی تھی
کلدیپ یادو نے بھارتی حکومت سے پاکستانی جیلوں میں بند دیگر بھارتیوں کو وطن واپس لانے کی درخواست کی ہے
انسٹھ سالہ کلدیپ یادو کی اٹھائیس برس بعد اپنی بہن اور تین بھائیوں سے ملاقات کا منظر انتہائی جذباتی تھا
یادو نے بھارت سرکار سے مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتے
دو روز قبل میڈیا سے پہلی مرتبہ بات کرتے ہوئے کلدیپ یادو کا کہنا تھا، ”یہ شرٹ جو میں نے پہن رکھی ہے یہ بھی پاکستان کی ہے۔ میرے پاس تو اپنے کپڑے تک نہیں ہیں“
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والے کلدیپ یادو کو پاکستانی حکام نے مارچ سن 1994 میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ انہیں گزشتہ 22 اگست کو پاکستانی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ بھارتی پنجاب میں واہگہ بارڈر کے راستے بھارت میں داخل ہوئے
کلدیپ نے بدھ کے روز میڈیا سے بات چیت کے دوران پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن سے اپیل کہ وہ پاکستان کے جیلوں میں بند بھارتی شہریوں کی تکلیف کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کی رہائی میں مدد کریں
کلدیپ کا کہنا تھا ”پاکستانی جیلوں میں بند بہت سے بھارتیوں نے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں اور انہیں اپنا نام تک یاد نہیں ہے۔ ایسے بہت سے افراد اپنی قید کی مدت پوری کرنے کے باوجود جیلوں میں رہنے پر مجبور ہیں“
انہوں نے کہا ”ہم جب کبھی حکومت پاکستان اور جیل حکام سے رہائی کی درخواست کرتے ہیں تو وہ صرف ایک بات کہتے ہیں کہ ’بھارت تمہیں قبول نہیں کر رہا ہے‘ جب بھارتی حکومت ہمیں قبول نہیں کرتی تو ہماری رہائی کافی مشکل ہو جاتی ہے‘‘
کلدیپ نے کہا ”جب وہ وہاں پکڑے جاتے ہیں تو ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔ وہ کچھ بھی، حتٰی کہ اپنا نام تک، یاد رکھنے کے قابل نہیں رہ جاتے ہیں۔‘‘
”یہ ٹھیک ہے کہ وہ اپنا نام بھول چکے ہیں لیکن آخر بھارتی اور بھارت سرکار کو چاہیے کہ انہیں واپس لانے میں مدد کرے‘‘
کلدیپ نے اس حوالے سے بابو رام نامی ایک قیدی کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس کے پاس اس کا آدھار کارڈ (قومی شناختی کارڈ) بھی ہے۔ ایک یا دو بھارتیوں کے پاس تو ان کے پاسپورٹ بھی ہیں
ان کا کہنا تھا ”یہ بھارت سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان افراد کو رہا کرائے کیونکہ وہ اپنے وطن کی محبت میں اور اپنے وطن کی خدمت (جاسوسی) کے لیے وہاں گئے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ دوبارہ اپنے بہن بھائیوں سے ملاقات کر سکے
کلدیپ یادو کا کہنا تھا ”میں چاہتا ہوں کہ دیگر تمام بھارتی قیدی بھی اسی طرح اپنے گھر والوں سے دوبارہ مل سکیں جس طرح میں مل پایا۔ بھارت سرکار کو چاہیے کہ پاکستانی جیلوں میں بند بھارتی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں بھارتی جیلوں میں بند پاکستانی قیدیوں کو رہا کر دے‘‘
کلدیپ نے مایوسی کے ساتھ کہا ”میں نے اپنی پوری زندگی ملک کے لیے لگا دی لیکن اس کے بدلے میں کچھ نہیں ملا، میں اپنی بہن اور بھائیوں پر کب تک انحصار کروں گا۔ میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ میری مدد کرے“