خوامخواہ کے سوالات (افسانہ)

صاحب علی

دوپہر سے بادل گِھر آئے تھے۔ کالے نیلے بادل جانے کہاں کہاں سے جمع ہوگئے تھے۔ ہوا تیز چلنے لگی۔ آنگن میں سیم کی پھلی کا درخت ہلنے لگا۔ دوچار پھلیاں یکے بعد دیگرے ٹوٹ کر پیڑے سے نیچے گر پڑیں

گھاس، سوکھے ڈنٹھل اور پتے ہوا کی انگلی پکڑ کر چکراتے ہوئے اوپر اڑنے لگے۔ پرندے جلدی جلدی اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹنے لگے۔ بھینس کے بچے اپنی دم اوپر اٹھا کر کود پھاند کرنے لگے۔ بھینسیں نتھنے سکیڑ کر پیچھے دیکھنے لگیں

باپو بادلوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں کہیں سے ایک موٹی سی بوند اس کی آنکھ میں آ گری۔ بڑی ہی ٹھنڈی ٹھنڈی تھی۔ اس نے فوراً آنکھ مَلی۔ تبھی دوسری بوند پیچھے گردن پر گری۔ کریلو پر بوندا باندی کی آواز آنے لگی۔ مٹی کی سوندھی خوشبو آنے لگی۔ کہاں سے آرہی تھی وہ خوشبو، یہ باپو کی سمجھ ہی میں نہیں آرہا تھا۔ لیکن اسے یہ خوشبو بہت اچھی لگی

اب چھپروں پر سے پانی خوب بہنے لگا۔ آنگن میں اچھا خاصا پانی جمع ہو گیا۔ اس میں اور پانی کی بوندیں گرتیں تو چھوٹے چھوٹے گڑھے پڑتے دکھائی دیتے تھے۔ یہ دیکھ کر باپو کو خوب مزا آیا۔ گولر کا پیڑ پورا بھیگ گیا۔ پہلے اس پر ایک چیونٹی کی قطار چڑھ رہی تھی

’’ان بیچاریوں کا کیا ہوا ہوگا؟‘‘ باپو کو یہ سوچ کر بڑا دکھ ہوا

آنگن کے کنارے ایک خاص حوض تھا۔ اس میں اب کتنا پانی بھر گیا ہوگا؟

باپو کو اسے جا کر دیکھنے کی بہت خواہش ہو رہی تھی۔ لیکن ابا بیٹھے تھے نا پاس ہی۔ پتا نہیں کون سا کاغذ آفس سے لے کر آئے تھے۔ جس پر وہ لکھ رہے تھے

چھپر کے کھمبے کو پکڑ کر باپو کھڑا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ ہاتھ آگے کرتا۔ ہاتھ بھیگ جاتا تو پیچھے کر لیتا۔ پھر سے ہاتھ آگے کرتا

ابا لکھ رہے تھے۔ درمیان میں وہ چشمے میں سے ایک طرف دیکھتے، نتھنے سکوڑتے اور پھر لکھنے لگتے

’’ابا برسات کہاں سے آتی ہے؟‘‘ باپو نے بیچ ہی میں پوچھ لیا، ابا نے سنا ہی نہیں۔ ’’آسمان سے؟ ہے نا؟‘‘ باپو نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

ایسا لگا ابا نے ہامی بھری ہو

’’آسمان میں کہاں رہتی ہے؟‘‘ باپو کہاں رکنے والا تھا

ابا نے نتھنے سکوڑے

’’بادلوں میں ہی نا؟‘‘ باپو نے اندازہ لگایا

’’ہاں‘‘ ابا بیچ ہی میں دہاڑے۔ شاید ان کے بروقلم میں کوئی کچرا اٹک گیا تھا۔ قریب ہی رکھے ہوئے گاؤ تکیے پر انہوں نے بروقلم کو آڑا ترچھا کھینچا

’’لیکن بادل میں سے بارش کا پانی بہہ کیوں نہیں جاتا؟‘‘ باپو کے ذہن میں ایک نئی بات سمائی

’’اور آج ہی بارش کیوں ہوئی؟ کل کیوں نہیں ہوئی؟‘‘

’’نہیں ہوئی کل‘‘ ابا زور سے بڑبڑائے۔ وہ کیا بولے یہ انہیں خود سمجھ میں آیا کہ نہیں کون جانے۔ وہ جھک کر لکھ ہی رہے تھے

’’ابا یہ بارش کا پانی کیا پیا جا سکتا ہے؟‘‘ باپو کی اوک میں چھپر کا بہت سارا پانی جمع ہوگیا تھا

’’ہاں، پپو‘‘ ابا بڑبڑائے۔ کیا پیا جائے کسے پتا

باپو نے ایک بار ابا کی طرف دیکھا اور ہاتھ کا پانی پھینک دیا

’’پر یہ سارا پانی ندی میں جاتا ہے نا؟‘‘

ابا نے اوپر دیکھا۔ آنکھیں دکھائیں ’’ندی میں مت جاؤ سیلاب آیا ہوگا۔ وہاں‘‘ ابا غصے سے بولے۔ پھر سے گردن جھکا کر لکھنے لگے

باپو ہنسا۔ لیکن دل ہی دل میں ہنسا۔ ابا کو سمجھا ہی نہیں کہ اس نے کیا پوچھا تھا۔ ’’ابا یہ ندی کا سیلاب سمندر میں جاتا ہے نا؟‘‘ تھوڑی دیر بعد باپو نے پوچھا

ابا کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور وہ اوپر دیکھنے لگے۔ منہ سے وہ کچھ بول رہے تھے۔ ’’چاردونی آٹھ اور پانچ تیرہ۔‘‘

’’لیکن ابا ندی کا پانی میٹھا اور سمندر کا پانی کھارا کیوں ہوتا ہے؟‘‘

ابا کے بڑبڑانے کی طرف باپو کا دھیان ہی نہیں تھا

ابا کا سارا حساب غلط ہو گیا۔ انہوں نے قلم سے لمبی لمبی لکیریں کاغذ پر کھینچیں اور زور سے قلم کو جھٹکا

’’ابا کیا سمندر میں زبردست سیلاب آتا ہے؟ اور وہ سیلاب کہاں جا کر ملتا ہے؟‘‘ باپو نے سوال پوچھنے میں بڑی جلدی کی

ابا بالکل چڑ گئے اور انہوں نے قریب ہی رکھی ہوئی موٹی چھڑی اٹھائی۔ ’’باپو کے بچے، اٹھتے ہو یا نہیں وہاں سے؟ یا لگاؤں تمہاری پیٹھ پر؟ کب سے خواہ مخواہ کی بڑبڑ لگا رکھی ہے۔ سر دکھنے لگا میرا۔ ’بارش، سمندر، مٹی اور شمشان‘ خواہ مخواہ تمہیں یہ سب پوچھ کر کیا کرنا ہے۔ اٹھو کتاب لے کر پڑھنے بیٹھو۔ خواہ مخواہ ان نالائقوں کو سوالات کرنے ہیں۔‘‘

مرجھائے ہوئے چہرے کے ساتھ باپو گھر کے اندر بھاگ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ابا ناراض کیوں ہو گئے۔ ہوسکتا ہے انہیں یہ باتیں معلوم ہی نہ ہوں۔ وہ کہاں ٹیچر ہیں۔ باپو نے اپنے دل کو تسلی دی۔ اتنے میں بادل بھی گرجنے لگے۔ اس میں، ابا نے آگے کیا کہا، سنائی ہی نہیں دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close