پاکستان نے چین کے صوبے سنکیانگ میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد بیجنگ کی جانب سے اویغور مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی ترقی، ہم آہنگی اور امن و استحکام کے لیے کوششوں کی حمایت کرتا ہے
اقوام متحدہ کی جانب سے یکم ستمبر کو طویل عرصے کے بعد جاری ہونے والی رپورٹ میں چین کے دور دراز مغربی خطے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے ذکر کے ساتھ ساتھ سرگرم گروپوں، مغربی ممالک میں جلاوطن ایغور کمیونٹی کی طرف سے طویل عرصے سے لگائے جانے والے بہت سے الزامات پر اقوام متحدہ کی مہر لگائی گئی تھی
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی اور انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملیوں کے اطلاق کے تناظر میں سنکیانگ کے خود مختار ایغور خطے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
منگل کی صبح اسلام آباد میں پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ”پاکستان اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نظام کے ساتھ ساتھ او آئی سی جنرل سیکرٹیریٹ کے ساتھ چین کے تعمیری کردار کو سراہتا ہے“
ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ چین نے گزشتہ پینتیس سالوں میں اپنی ستر کروڑ سے زیادہ آبادی کو غربت سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی، جس سے ان لوگوں کے حالات زندگی میں بہتری آئی ہے، اور وہ بنیادی انسانی حقوق سے مستفید ہوئے
واضح رہے کہ اس سال اگست میں سبکدوش ہونے والی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے قبل چین کے صوبہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق رپورٹ جاری کی تھی
رپورٹ میں ’انسداد دہشت گردی اور انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملیوں کی آڑ میں‘ چین کے صدر شی جن پنگ کی حکومت پر سنکیانگ صوبے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا ہے
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں کے خلاف چینی حکومت کے متعصبانہ اقدامات بین الاقوامی جرائم، خاص طور پر ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی شکل اختیار کر سکتے ہیں
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے نے چین کو مسلمان اقلیت سے تعلق رکھنے والے زیر حراست افراد کو آزاد کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا
بیجنگ پر صوبہ سنکیانگ میں مسلمان اقلیت سے تعلق رکھنے والے لاکھوں اویغور باشندوں کو پیشہ ورانہ تعلیم کے تربیتی مراکز، جیلوں اور دوسرے حراستی مراکز کے ذریعے آزادی سے محروم رکھنے کا الزام ہے
رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے اسے امریکہ اور مغرب میں موجود ’بعض چین مخالف قوتوں کی سازش‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ رپورٹ مکمل طور پر غیر قانونی اور غلط ہے
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ساٹھ سے زائد ممالک نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کو ایک مشترکہ خط کے ذریعے اس ’جھوٹی رپورٹ‘ کے اجرا کی مخالفت کی تھی۔
ایغور کون ہیں؟
چین کے جنوبی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیتی برادری ‘ایغور’ آباد ہیں، جو صوبے کی آبادی کا 45 فیصد ہیں
سنکیانگ سرکاری طور پر چین میں تبت کی طرح خودمختار علاقہ کہلاتا ہے
کئی سال سے ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ایغور سمیت دیگر مسلم اقلیتوں کو سنکیانگ صوبے میں قید کرلیا جاتا ہے، لیکن چین کی حکومت ان خبروں کو مسترد کر رہی ہے
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی اور انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملیوں کے اطلاق کے تناظر میں سنکیانگ کے خود مختار ایغور خطے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے۔