پرل فارمنگ: بھارت میں موتیوں کی پیداوار کی صنعت کیسے فروغ پا رہی ہے؟

ویب ڈیسک

سنہ 2016ع میں نریندرا گروا شدید مالی مشکلات کا شکار تھے۔ راجھستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں رینوال میں اُن کی کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان مسلسل گھاٹے میں جا رہی تھی

اپنے خاندان کی کفالت کرنے والے نریندرا گروا کچھ خاص تعلیم یافتہ بھی نہیں تھے۔ اسی صورتحال کے پیش نظر انہوں نے پیسہ کمانے کے دوسرے ذرائع کی جستجو میں انٹرنیٹ پر تلاش شروع کی۔ انہیں پلاسٹک کی بوتلوں میں سبزیاں اُگانے میں کچھ کامیابی ملی، لیکن پھر انہیں ایک ممکنہ طور پر زیادہ منافع بخش فصل ملی یعنی موتی

وہ بتاتے ہیں ”راجستھان ایک خشک علاقہ ہے، جہاں پانی کی کمی جیسے مسائل ہیں۔ محدود پانی کے ساتھ موتی اگانے کا سوچنا ایک چیلنج تھا لیکن میں نے کوشش کرنے کا فیصلہ کیا“

واضح رہے کہ موتی اس وقت بنتے ہیں، جب ایک سیپ اپنی حفاظتی جھلی میں کسی جلن پر ردعمل ظاہر کرتی ہے۔ سیپ اریگونائٹ اور کونچلولین کی پرتیں اکھٹی کرنا شروع کر دیتی ہے، جن سے مل کر نیکر بنتا ہے، جسے ’موتی کی ماں‘ کہا جاتا ہے

قدرتی طور پر بننے والے موتی نایاب ہوتے ہیں مگر آج کل فروخت ہونے والے زیادہ تر موتی سیپ کی فارمنگ کی مدد سے حاصل کیے جاتے ہیں

موتی کی پیدائش کا قدرتی عمل

موتی اپنی خوش رنگی اور ملائمت کے باعث بہت مقبول ہے۔ موتی خشخاش کے دانے سے لے کر کبوتر کے انڈے کے برابر تک ہوتا ہے۔ اس کو دیگر پتھروں کی طرح تراشنا نہیں پڑتا، یہ قدرتی چمک دمک رکھتا تھا۔ اس کی متعدد اقسام ہیں۔ اس میں کیلشیئم کاربونیٹ ہوتا ہے اور اس کی ہارڈنس تین ہوتی ہے

موتی کی پیدائش اس صدف کے پیٹ میں ہوتی ہے، صدف کو سیپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل ایک انتہائی سخت سمندری کیڑا ہوتا ہے، اس کے دونوں بازؤں پر کچھوے کی طرح سخت ہڈی کی ڈھال ہوتی ہے، جس کے ذریعہ یہ دوسرے جانوروں سے محفوظ رہتا ہے۔ بارش کے دنوں میں سطح پر آتا ہے۔ یہ ایک خاص طرح کا جالا بن کر مکڑے کی طرح خود کو کسی محفوظ مقام پر اَڑا لیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک جگہ ٹھہرا رہتا ہے، ماہرین نے اسے خوردبین کے ذریعہ دریافت کیا ہے

صدف کے تین پرتیں ہوتی ہیں، اوپر والی پرت سخت لچک دار اورسیاہی مائل سبز رنگ کی ہوتی ہے، دوسری پرت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے خانے ہوتے ہیں، جن میں چونا بھرا ہوتا ہے اور کئی طرح کے رنگ پیدا کرنے والے مادے ہوتے ہیں، تیسری پرت پوست در پوست ہوتی ہے اور اس میں طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں، موتی یہیں بنتا ہے۔ اس کی پیدائش کے بارے میں دو طرح کی روایات ہیں، ایک مذکورہ، جو ماہرین نے بیان کی ہے اور دوسری وہ جو قدیم جوہریوں نے بیان کی ہیں۔ قدیم روایت کے مطابق نو روز کے اکیسویں دن نیساں کا مہینہ شروع ہوتا ہے، اس مہینے کے بادل ابرِ نیساں اور اس کی بارش آب نیساں کہلاتی ہے۔ ابرنیساں جب سمندر پر برستا ہے تو سیپ سطح پر آ کر منہ کھول دیتے ہیں اس طرح آب نیساں کے قطرے ان کے منہ میں پڑتے ہیں۔ اب جس قدر بڑا قطرہ صدف کے منہ میں جاتا ہے، اتنا ہی بڑا موتی بنتا ہے لیکن یہ ایک قدیم اور قطعی غلط روایت ہے۔ جدید سائنس نے یہ بات کسی اور طرح سے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدف کے اندر کوئی بھی چیز داخل ہو جائے موتی بن جاتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق صدف میں کوئی بیرونی چیز اتفاق سے داخل ہو جائے مثلاً ریت کا ذرہ یا کوئی اور سخت چیز تو کیونکہ اس کی اندرونی ساخت یا جسم جیلی کی طرح نرم ہوتا ہے تو یہ سخت زرہ اس کے جسم میں اذیت یا Irritation کا باعث بنتا ہے کیڑا اپنے تحفظ کے لیے ایک خاص قسم کا مادہ یا لعاب خارج کر کے اس شئے کے گرد ایک جال سا بننا شروع کر دیتا ہے، تاکہ اس کی چبھن ختم ہو سکے اور یہی لعاب سخت ہو کر موتی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ ہی دراصل موتی بننے کی ابتدا ہوتی ہے

پرل فارمنگ

دنیا بھر میں چوں کہ سچے موتی کی مانگ بہت زیادہ ہے اس لیے بہت سے عقل مندوں نے موتی حاصل کرنے کے لیے اصل موتیوں کی فارمنگ شروع کردی ہے، جس میں چین سرفہرست ہے۔ وہ اصل سیپ کی پوری فیملی سمندر میں ایک مخصوص جگہ چھوڑ دیتے ہیں، چوں کہ یہ تمام سیپ سمندر میں زیادہ حرکت نہیں کرتے اور احتیاط کے طور پر وہ ان کے گرد مخصوص دائرے میں جال بھی لگا دیتے ہیں تاکہ سیپ اس جال سے باہر نہ نکل سکیں، پھر مصنوعی طریقے سے ان کی بریڈنگ کی جاتی ہے اور ان کو کچھ عرصے کے لیے سمندر ہی میں پڑا رہنے دیا جاتا ہے تاکہ وہ قدرتی ماحول میں موتی تیار کریں اور وقت آنے پر آسانی سے اس مخصوص جگہ سے نکالا جا سکے۔ یہ کاروبار بے پناہ ترقی کر رہا ہے کیوں کہ اس میں ایک بار سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے، اس لیے بہت سے ممالک میں اس پر بہت زیادہ کام ہورہا ہے۔ یعنی اب فارمی مرغی کی طرح موتی بھی پیدا کئے جا رہے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں صدف کی کالونی کو سمندر میں ایک مخصوص جگہ پالا جاتا ہے اور ان میں نقلی طریقے سے کوئی ریت کا ذرہ یا سخت چیز داخل کر دی جاتی ہے اور ہر سیپ موتی بنانے لگتی ہے۔ ایک مخصوص عرصہ گزرنے کے بعد غوطہ خور سمندر کی تہہ میں جا کر ان صدف کو سطح آب پر جمع کر کے موتی حاصل کرتے ہیں۔ اب پرل فارمنگ کے لیے مصنوعی طور پر تالاب بھی بنائے جاتے ہیں

بھارت میں پرل فارمنگ

واضح رہے کہ بھارتی حکومت اپنے ’بلیو ریوولیوشن منصوبے‘ کے تحت پرل فشنگ کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے، جو کہ ملک کی ماہی گیری کی صنعت کو جدید بنانے کا منصوبہ ہے

اس اسکیم کے تحت حکومت موتیوں کی ماہی گیری کے لیے تالاب بنانے کی نصف لاگت ادا کرتی ہے اور اب تک محکمہ ماہی گیری دو سو بتیس پرل فارمنگ تالابوں کو مالی مدد فراہم کر چکی ہے

کتابوں کی دکان سے پرل فارمنگ کی طرف آنے والے نریندرا گروا کو معلوم ہوا کہ سیپی میں موجود کیڑے یا مولسک کو موتی بنانے کی ترغیب دینے کے لیے ایک مصنوعی چڑچڑاپن سیپ میں داخل کیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ ایک نازک عمل ہے اور اس دوران سیپ کو احتیاط سے سنبھالنا ہوتا ہے

انہوں نے تسلیم کیا کہ ’اس حوالے سے میری پہلی کوشش تباہ کن تھی۔‘ کیونکہ انہوں نے جو پانچ سو مسلز خریدے تھے، اُن میں سے صرف پینتیس ہی بچ پائے تھے

اس کے بعد نریندرا نے اپنی بچت کے ساتھ ساتھ اُدھار بھی لیا اور سولہ ہزار روپے اکٹھے کر کے مزید مسلز خریدنے سترہ سو میل کا سفر کر کے کیرالہ پہنچے

اس کے علاوہ نریندرا نے اس مخلوق کو رکھنے کے لیے اپنے گھر کے عقبی باغ میں دس فٹ بائی دس فٹ کا تالاب بھی کھودا

ناکامی کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور پھر انھوں نے موتیوں کی فارمنگ کا پانچ روزہ کورس کیا

وہ کہتے ہیں ”سیپ کو بڑھانا ایک بچے کی پرورش کرنے جیسا ہے۔ اعلیٰ معیار اور پیداوار کے حجم کو حاصل کرنے کے لیے نشوونما کی پوری مدت میں پانی کی نگرانی بہت ضروری ہے“

اب ان کے پاس چالیس فٹ بائی پچاس فٹ کا تالاب ہے، جس کی دیکھ بھال کے لیے وہ ملٹی وٹامنز اور پھٹکڑی استعمال کرتے ہیں، جو نشوونما کے لیے درکار درست پی ایچ لیول کو برقرار رکھتا ہے

اس طریقہِ کار کے زیادہ مواقف ہونے کے باعث اُن کے مسلز کی بقا کی شرح 30 فیصد سے بڑھ کر 70فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ نریندر گروا اس سال تقریباً تین ہزار موتیوں کی پیداوار کی توقع رکھتے ہیں، جن میں سے ہر موتی وہ چار سو سے نو سو روپے میں فروخت کر سکیں گے

محکمہ ماہی گیری کے متعلقہ ادارے کے جوائنٹ سیکریٹری جوجاواراپو بالاجی بتاتے ہیں ”موتیوں کی کاشتکاری آبی زراعت کے سب سے زیادہ منافع بخش کاروباروں میں سے ایک ہے اور حکومت کسانوں کو اس کاشتکاری کو شروع کرنے کی ترغیب دے رہی ہے“

تاہم موتیوں کی کاشت کاری کی اس لہر سے ہر کوئی متاثر نہیں ہوا۔ ناقدین میں گنجن شاہ شامل ہیں، جو موتیوں کی تجارت کے کاروبار سے وابستہ اپنے خاندان کی پانچویں نسل ہیں

ممبئی میں مقیم بابلا انٹرپرائزز کے مالک کا کہنا ہے ”بھارت میں موتیوں کی کاشت کاری کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے لیکن میرے خیال میں ہر جگہ اگائے جانے والے موتی بہت اچھے معیار کے نہیں ہیں۔ بھارت بہت زیادہ غلط قسم کے موتی پیدا کر رہا ہے“

انہوں نے کہا ”بھارت کو اس وقت ایسے لوگوں کی ضرورت ہے، جو سمندری پانی کے موتی اگائیں، اگر ہم چین کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو بھارتی سیپ چھوٹے ہیں لیکن چین کے پاس ہائبرڈ سیپ ہیں، جو بڑے موتی پیدا کرتے ہیں“

گنجن شاہ کہتے ہیں ”کلچرڈ ساؤتھ سی موتی آج کل مارکیٹ میں سب سے قیمتی قسم ہیں۔ ان موتیوں کے سائز، اشکال اور رنگ خوبصورت اقسام کے ہیں۔ جنوبی سمندر کے موتیوں کا ایک ہار دس ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ مہنگا ہو سکتا ہے۔ یہ موتی بھارت میں بہت کم پیدا ہوتے ہیں“

تاہم اُن کا کہنا ہے کہ حکومت کو صنعت کے اس حصے کو ترقی دینے کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے

دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ اسے موتیوں کی کاشت کا ایک مسابقتی سیکٹر بنانے میں وقت لگے گا

محکمہ ماہی گیری سے تعلق رکھنے والے بالاجی کہتے ہیں ”اس شعبے کو ترقی کرنے میں وقت لگے گا۔ منصوبے ہے کہ اگلے تین سالوں میں اس میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ ایک بار جب ہم مقامی کھپت کے لیے کافی موتی اُگانے کے قابل ہو جائیں گے تو پھر ہم برآمدات پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں“

نریندر گروا اب موتیوں کی کاشتکاری کے لیے دوسرے لوگوں کو کورسز بھی کرواتے ہیں

اٹھائیس سالہ رینا چوہدری اُن کے شاگردوں میں سے ایک تھیں اور اپنے استاد کی طرح گذشتہ سال ان کی پہلی کوشش ناکام رہی

وہ بتاتی ہیں ”میں نے تمام سیپ کھو دیے، ان میں سے کوئی بھی موتی پیدا کرنے کے قابل نہیں تھا“ لیکن اس سال رینا کو امید ہے کہ وہ تقریباً ایک ہزار موتی پیدا کر پائیں گی

اپنا کاروبار شروع کرنا رینا چوہدری کے لیے ایک بڑا قدم تھا، خاص طور پر جب اُن کے علاقے میں خواتین سے اکثر توقع کی جاتی ہے کہ وہ کام کے بجائے صرف گھر کی دیکھ بھال کریں

وہ کہتی ہیں ”ہم جیسے لوگوں کو اس سے آزادی کی خوشبو آتی ہے۔ ہم نے سیکھا ہے کہ ہم کس طرح خود مختار ہو سکتے ہیں، خاندان کی معاشی حیثیت میں حصہ ڈال سکتے ہیں اور خاندانی معاملات میں اپنی رائے رکھ سکتے ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close