سمندروں کی حفاظت کرنے والے کیتھ ڈیوس کو سمندر نگل گیا یا آسمان؟

ویب ڈیسک

کیتھ ڈیوس اپنے گھر سے ہزاروں میل دور سمندر میں لاپتہ ہو گئے۔ اُن کی لاش تاحال نہیں مل سکی۔ اب ان کی پراسراریت میں لپٹی ہلاکت ایک ایسی ان دیکھی آبی دنیا کو سامنے لے آئی ہے، جو پہلے سب کی نظروں سے اوجھل تھی

ٹیکساس میں اگر کوئی اپنے مقامی گروسری اسٹور سے میں ٹونا مچھلی ایک ڈالر سے بھی کم قیمت میں خرید سکتا ہے تو یہ خاصا سستا سودا ہے اور یہ کم قیمتیں صرف اس لیے ممکن ہیں کیونکہ یہاں سے کئی ہزار میل دور بہت خطرناک کام ہو رہا ہے۔ ایسا کام، جس کے بارے میں شاید ہم میں سے اکثر افراد کبھی جان ہی نہ پائیں

ڈیوس مہم جوئی کا شوق رکھنے والے ایریزونا کے رہائشی تھے اور وہ اس ان دیکھی کمرشل ٹونا فشنگ کی دنیا میں کام کرتے تھے، اور شاید انہیں اس کی قیمت چکانی پڑی

ان کے دوست اور ساتھ کام کرنے والے اینک کلیمینز کہتے ہیں ”وہ بہت جذباتی، بہت رومانوی تھے, جو ہر وقت کچھ نیا کرنے کی تلاش میں ہوتے تھے۔ انہیں اپنے کام سے بہت لگاؤ تھا۔ وہ سمندروں کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے اور ماہی گیروں اور ان کی صنعت کی حفاظت کرنا چاہتے تھے“

سنہ 2015 میں بحری جہاز ’وکٹوریا 168‘ میں ایک معمول کے سفر کے دوران اکتالیس سال کے ڈیوس ایکواڈور کے ساحل سے ہزاروں میل دور اچانک لاپتہ ہو گئے تھے

جہاز کے عملے نے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اُن کے آثار نہ مل سکے۔ جب اُن کے دوستوں تک ان کے لاپتہ ہونے کی خبر پہنچی تو اکثر کو فوری طور پر اس بارے میں شک لاحق ہوا

ڈیوس کی دوست اور ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مغربی اور وسطی بحرالکاہل ٹونا پروگرام کی مینیجر بوبا کک کہتی ہیں ”وہ سولہ برس سے یہ نوکری کر رہے تھے اور مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ پروفیشنل انسان تھے جو بہت محتاط رہتے تھے“

”ان کی موت کے بارے میں آخر میں یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے کچھ ایسا دیکھا جو بحری جہاز پر موجود لوگ نہیں چاہتے تھے کہ وہ دیکھیں“

ڈیوس ایک مرین بائیولوجسٹ تھے، جو ماہی گیری کی صنعت میں بطور آبزرور کام کر رہے تھے۔ یہ پیشہ کچھ زیادہ مقبول نہیں لیکن اس میں مہم جوئی کا شوق رکھنے والے افراد کے لیے بہت کچھ ہے اور ساتھ ہی ساتھ خطرات بھی ہیں

ان کی تعداد ڈھائی ہزار کے قریب ہے اور یہ سمندروں میں ہماری آنکھیں اور کان ہیں۔ یہ ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتیوں پر کئی ماہ تک وقت گزارتے ہیں اور سینکڑوں میل کا سفر کرتے ہیں

اس دوران یہ ایسے سائنسی شواہد بھی جمع کرتے ہیں، جو ہمیں آبی زندگی کی صحت کے بارے میں بتاتے ہیں

آبزرورز جہاز کے عملے کے ساتھ رہتے ہیں، ان کے ساتھ ہی اتنے ہی گھنٹے کام کرتے ہیں اور انہی مشکل حالات میں وقت گزارتے ہیں۔ تاہم انہیں کئی مرتبہ مشکوک بھی سمجھا جاتا ہے کیونکہ انہیں نوکری کے دوران غیر قانونی سرگرمیاں بھی رپورٹ کرنی ہوتی ہیں

ڈیوس کی موت کے حوالے سے یہ خدشہ یہ بھی ہے کہ ممکن ہے انہوں نے کچھ ایسا دیکھا ہو، جس سے انہیں خطرہ لاحق ہو گیا ہو۔ یہ خدشہ بلاوجہ نہیں ہے کیونکہ گہرے پانیوں میں جہاں قانونی دائرہ کار کے حوالے سے معاملات خاصے پیچیدہ ہیں اور نگرانی بھی زیادہ نہیں کی جاتی، وہیں انسانی اسمگلنگ سے لے کر، اسلحہ اور منشیات اسمگلنگ بھی ہوتی ہے

تاہم واضح طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ڈیوس نے یہ تمام ہی سرگرمیاں ہوتے دیکھی تھیں

جس کشتی میں وہ لاپتہ ہونے کے دوران موجود تھے وہ دراصل ٹرانس شپمنٹ میں مصروف تھی

مال بردار بحری جہاز ’لونگ لائنر‘ ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتیوں کو تازہ رسد پہنچانے کے علاوہ ان سے تازہ مچھلی لے کر واپس ساحل پر بھی آتے ہیں۔ ان کے باعث ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتیوں کو اکثر کئی سال تک سمندر میں رہنے کا موقع ملتا ہے اور اس سے مالکان کی بچت ہوتی ہے اور اس سے گروسری اسٹور کے شیلف پر ٹیونا نناوے سینٹ میں دستیاب ہو پاتی ہے

آبزرورز، جنہیں غیر قانونی آمدورفت نظر آ جائے، ان کے لیے خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ جب ڈیوس ’وکٹوریا 168‘ پر کام کر رہے تھے تو ان کا ساحل پر رابطہ صرف جہاز کے کپتان کے کمپیوٹر کی مدد سے ہی ہوتا تھا

اس نوکری کے لیے پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے والے افراد اکثر کوڈ زبان استعمال کرتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی ایسی چیز نظر آئے، جس کے بارے میں وہ اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتے۔ڈیوس کو جہاں اپنی نوکری سے محبت تھی، وہیں وہ اس سے جڑے خطرات سے بھی بخوبی واقف تھے

انہوں نے لاپتہ ہونے سے ایک برس قبل اپنے فیسبک اکاؤنٹ پر لکھا ”ہم میں سے اکثر جنہوں نے اس پیشے میں کام کیا ہے نے اسلحے کا استعمال، چاقوؤں سے لڑائی اور غیر قانونی طور غلاموں کی منتقلی دیکھی ہے۔ اس میں سے بہت سی باتیں ہمیں اکثر اپنی نوکری کے باعث ہضم کرنی پڑتی ہیں“

تاہم جو بات زیادہ خطرناک ہے وہ یہ کہ ڈیوس کی مبینہ ہلاکت واحد واقعہ نہیں ہے۔ متعددد آبزرورز پراسرار حالات میں لاپتہ یا ہلاک ہوئے ہیں۔ مزید دو اور ایسے واقعات بھی ان مہینوں میں ہوئے

ان میں سے اکثر واقعات پر ڈیوس سے بہت کم روشنی ڈالی جاتی ہے۔ یہ اس لیے، کیونکہ اکثر آبزرورز مہم جوئی کا شوق رکھنے والے امریکی مرد نہیں ہیں، جیسے ڈیوس تھے۔ اس کے برعکس ان میں سے اکثر بحرالکاہل کے گرد موجود جزائر کے رہائشی تھے، جو اپنے خاندان کا پیٹ پال رہے تھے

ان کا تعلق اکثر ایسی برادریوں سے ہوتا ہے، جنہیں ماہی گیری ورثے میں ملی ہوتی ہے۔ یہ ایک مقامی صنعت ہے، جسے بڑے ٹرالرز اور ماہی گیری کرنے والے بحری جہازوں کے باعث بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے

پاپوا نیو گنی سے تعلق رکھنے والے آبزرور چارلی لاسیسی یا کریباس کی ایرتارا آتی کئیروا دونوں ہی انتہائی مشکوک صورتحال میں ہلاک ہوئے، لیکن ان کے بارے میں شہ سرخیاں نہیں لگیں۔ تاہم ان جیسے آبزرورز ہی سستے داموں مچھلی خریدنے کی خواہش کو پورا کرتے ہیں

ڈیوس کی لاش تاحال نہیں مل سکی۔ پانامہ کے حکام اور ایف بی آئی کی جانب سے کی گئی تفتیش نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی

ان کی کمپنی ’ایم آر اے جی امیرکس‘ نے ایک بیان میں کہا کہ ’جہاں ہمیں کیتھ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے اور اس معمے کی گتھیاں نہ سلجھنے پر بہت افسوس ہے، ہم اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہم سمندر اور زمین پر اپنے آبزرورز کی حفاظت کی زیادہ سے زیادہ سکیورٹی دینے کی کوشش کریں گے۔‘

دی گیلونٹس گروپ جس کے پاس وکٹوریا 168 بحری جہاز کی ملکیت ہے نے اس واقعے کے بارے میں تبصرہ کرنے سے معذرت کر لی ہے، جو تاحال حل طلب ہے اور کہا ہے کہ ’دی گلونٹس گروپ نے تفتیش کے دوران حکام کے ساتھ تعاون کیا ہے۔‘

باضابطہ طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ڈیوس کی موت حادثے کے باعث ہوئی، انھوں نے خودکشی کی یا وہ ہلاک کر دیے گئے۔ لیکن جو بات ہمیں معلوم ہے وہ یہ کہ سمندر میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اس سوچ کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی ساحل سے دور کسی فون سگنل یا سکیورٹی کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہے، وہ باقی دنیا کی نظروں سے بھی اوجھل ہے

آبزرورز کا کام یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ سمندر میں کیا ہو رہا ہے، اور یہی ان کی زندگی مشکل میں ڈال دیتا ہے

پروفیشنل آبزرورز کی ایسوسی ایشن کے سابق صدر لز مچل کہتے ہیں ’آبزرورز کو ماہی گیری کی صنعت کی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ ان کے پاس ایجنسیز کی حمایت بھی نہیں ہوتی۔ ان کے پاس، اپنے مالکان یا کانٹریکٹرز کی حمایت بھی نہیں ہوتی۔ آخر میں وہ تنہا رہ جاتے ہیں‘

آبزرورز میں متعدد ایسے افراد بھی ہیں، جنہوں نے اس ان دیکھی دنیا کے حوالے سے پہلوؤں کو اجاگر کیا

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی بوبا کک ان افراد کی غیر واضح وجوہات کی بنا پر ہونے والی اموات پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’اس بارے میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کے اب تک ہم کتنے آبزرورز کھو چکے ہیں۔ اور یہ ابھی صرف وہ افراد ہیں جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ لاپتہ ہیں۔

’ہماری جانب سے ڈیٹا رکھنے سے پہلے کتنے افراد ہونہی سمندر میں ہلاک ہوئے، یا کبھی گھر نہ آئے، کوئی نہیں جانتا۔‘

اس کے علاوہ گلوبل فشنگ واچ میپ بھی ایک عام استعمال کا مفت پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے 65 ہزار بحری جہازوں کی لوکیشن کے بارے میں سنہ 2012 سے اب تک کا ڈیٹا دکھاتا ہے

کیتھ ڈیوس، چارلی اور ایریتارا کی کہانیوں کو توجہ دے کر اور اس بات سے سیکھ کر کہ گہرے سمندروں میں کیا ہوتا ہے، سمندروں میں موجود افراد اور آبزرورز کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close