پاکستان اور افغانستان کرکٹ کے میدانوں میں انڈیا پاکستان کی طرح روایتی حریف نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان کے میچوں میں خون گرما دینے والا ماحول ضرور ہوتا ہے
بدھ کی شب شارجہ اسٹیڈیم میں نوجوان نسیم شاہ کے دو چھکوں نے جہاں پاکستان کو آخری اوور میں ایک وکٹ کی ڈرامائی جیت دلوا کر ہوئے فائنل میں پہنچا دیا وہیں دو ٹیموں افغانستان اور بھارت کو ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا
اتوار کو کھیلے جانے والے فائنل میں پاکستان کا مقابلہ سری لنکا سے ہوگا۔ اس سے قبل جمعے کو یہ دونوں ٹیمیں سپر فور کے آخری میچ میں بھی مدمقابل ہوں گی
پاکستانی ٹیم کے لیے وہ لمحہ بہت بھاری تھا جب ایک ہی اوور میں فرید احمد نے حارث رؤف کو صفر پر بولڈ کر دیا۔ پاکستان کی آٹھویں وکٹ ایک سو دس رنز پر گری اور جیت اس سے دور ہوتی جا رہی تھی
آصف علی پاکستان کی آخری امید تھے لیکن فرید احمد کو چھکا لگانے کے بعد اگلی ہی گیند پر وہ بھی آؤٹ ہو گئے
آخری اوور میں پاکستان کو جیت کے لیے 11 رنز درکار تھے اور کریز پر ٹیل اینڈر نسیم شاہ اور محمد حسنین موجود تھے
نسیم شاہ نے اپنے اعصاب قابو میں رکھتے ہوئے فضل حق فاروقی کو دو لگاتار چھکے لگا کر نہ صرف پاکستان کو فائنل میں پہنچایا بلکہ ان دو چھکوں نے دو ٹیموں کو ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا
ہم سیاست میں کھیلتے ہیں اور کھیل میں سیاست کرتے ہیں
سیاسی اختلافات جب سیاسی اکھاڑے سے بڑھ کر کھیل کے میدان میں جھلکنے لگتے ہیں تو پھر کھیل کھیل نہیں رہتا، تھیٹر بن جاتا ہے۔ ایسا سنسنی خیز تھیٹر جس میں جانے کب کون اچانک سے ابھر کر آئے اور کلائمیکس پر سبھی اندازوں کو مات دے ڈالے
ورلڈ کپ یا ایشیا کپ میں جب بھی پاکستان اور افغانستان آمنے سامنے ہوتے ہیں، ڈرامہ ضرور ہوتا ہے۔ یہ اپنی طرح کی ایک عجیب ننھی مُنی سی رقابت دونوں ملکوں کی دو طرفہ کرکٹنگ تاریخ کو ایک نئی جہت دینے کی کوشش کر رہی ہے مگر ابھی تک اسے کوئی کامیابی ہو نہیں پائی
حالانکہ افغان کرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کلیدی کردار پاکستان کا تھا۔ افغان کرکٹ کے سپر اسٹارز کی تیاری میں پاکستانی کوچز اور کرکٹ کلبز کی بھی محنت شامل رہی ہے مگر پھر اچانک حکومتی پالیسی میں بدلاؤ آیا اور افغان کرکٹ نے اپنا قبلہ پاکستان کی بجائے بھارت کو ٹھہرا دیا
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میچ میں بھی یہ ڈیتھ اوورز کی ٹی ٹونٹی بولنگ کو طرح دینے والے پاکستان کے عمر گل ہی تھے، جو افغان ڈریسنگ روم میں بیٹھے بابر، فخر اور رضوان کے خلاف سٹریٹیجی بنا رہے تھے
گذشتہ چند سال سے، پاکستان اور افغانستان کے میچز کے اختتامی لمحات میں جذبات آسمان کو چھونے لگتے ہیں اور بات کھیل تک ہی محدود نہیں رہتی۔ زبانیں تلخ ہو جاتی ہیں اور محاذ آرائی کے خدشات بڑھ چلتے ہیں مگر نتیجہ ایک بار پھر وہی نکلا جو ہر بار نکلتا ہے
کھیل کا میدان اور اسٹیڈیم بھی اکھاڑا بن گئے
اس میچ میں کمینٹری کرنے والے بھارت کے سابق کرکٹر سنجے منجریکر نے اپنی ٹویٹ میں کہا ’شاید یہ اُن کی کمنٹری کے کریئر کے بہترین میچوں میں سے ایک تھا‘
آخری اوورز میں گرما گرمی اُس وقت عروج پر پہنچ گئی، جب افغان بولر فرید احمد نے پاکستانی بلے باز آصف علی کو آؤٹ کیا اور بات ان کے درمیان تلخ کلامی تک جا پہنچی۔ اور پھر میچ کے اختتام پر پاکستانی کھلاڑیوں کا ’جذباتی انداز‘ یقیناً اُس تلخ کلامی کا جواب تھا
وہ میچ کا ایک اہم موڑ تھا۔ پاکستان کو جیت کے لیے آٹھ گیندوں پر 12 رنز درکار تھے۔ آصف علی، جو اس سے پہلے بھی آخری گیندوں پر چھکوں کی مدد سے پاکستان کو جتا چکے ہیں، فرید کو مڈ وکٹ کے اوپر سے ایک چھکا مار چکے تھے
لیکن فرید نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شارٹ گیند کروائی اور آصف شارٹ فائن لیگ کو کیچ دے بیٹھے
تناؤ سے بھرپور اس مقابلے میں صورتحال اس وقت گمبھیر ہو گئی جب افغان فاسٹ باؤلر فرید احمد نے آصف علی کو آؤٹ کرنے کے بعد نازیبا زبان استعمال کی جس پر پاکستانی بلے باز بھی اپنے جذبات قابو میں نہ رکھ سکے اور ان کی سرزنش کی لیکن اس سے قبل کہ یہ معاملہ مزید پیچیدہ شکل اختیار کرتا، دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے معاملہ رفع دفع کرا دیا
تاہم میچ میں شکست کے بعد افغان شائقین ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر اپنے جذبات قابو میں نہ رکھ سکے اور آپے سے باہر ہو گئے
سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز میں افغان شائقین کو اسٹیڈیم میں توڑ پھوڑ کرتے اور پاکستانی شائقین کو مارنے کے ساتھ ساتھ ان پر کرسیاں پھینکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے
نامور اینکر فخر عالم نے اسٹیڈیم میں افغان شائقین کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ افغان شائقین کا یہ رویہ انتہائی شرمناک اور مایوس کن ہے
ان کا کہنا تھا کہ اس پرتشدد رویے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی اور مقامی حکام بھی اس واقعے میں ملوث تمام افراد کے خلاف فوری تادیبی کارروائی کریں
یہ پہلا موقع نہیں کہ افغان شائقین نے پاکستان کے ہاتھوں شکست کے بعد اس طرح کے پرتشدد رویے کا مظاہرہ کیا ہو بلکہ اس سے قبل بھی متعدد بار وہ ایسا کر چکے ہیں
2019 کے ورلڈ کپ میچ میں اس سلسلے میں سب سے زیادہ پرتشدد واقعات منظر عام پر آئے تھے جب پاکستان کے خلاف اپنی ٹیم کی وکٹیں جلدی گرتی دیکھ کر افغان تماشائی طیش میں آ گئے تھے اور انہوں نے جشن منانے والے پاکستانی شائقین کرکٹ کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا
افغانستان کی گرتی وکٹوں پر پاکستانی شائقین جشن منا رہے تھے کہ ان پر بپھرے ہوئے افغان شائقین نے حملہ کر دیا تھا، اس موقع پر برطانوی پولیس نے فوری طور پر مداخلت کر کے ہنگامہ آرائی کرنے پر دو افغان باشندوں کو گرفتار کر لیا تھا
مذکورہ میچ میں شکست کے بعد اسٹیڈیم کے باہر بھی پاکستانی شائقین کو افغان تماشائیوں کے پرتشدد رویے کا سامنا کرنا پڑا تھا
اس کے بعد 2021 کے ٹی20 ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کے ہاتھوں شکست کے بعد افغان شائقین نے اسٹیڈیم میں توڑ پھوڑ کی تھی
سوشل میڈیا پر ردِعمل
مختلف سوشل میڈیا صارفین نے میچ کے دوران پیش آنے والے دلچسپ لمحوں کے ساتھ ناخوشگوار واقعات کا ذکر کیا تو ’پاکستان اور افغانستان کے میچ کے ہائی وولٹیج ہونے‘ کے ممکنہ اسباب پر بھی گفتگو کی
ٹوئٹر پر ’آصف علی پر پابندی لگاؤ‘ کا مطالبہ ٹرینڈ بنا تو پاکستانی کرکٹر نسیم شاہ کی جانب سے مسلسل دو گیندوں پر چھکوں کا ذکر کرنے والے کرکٹ فینز شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں بھارت کے خلاف جاوید میانداد اور شاہد آفریدی کے میچ وننگ چھکوں کو یاد کرنا بھی نہیں بھولے
کرکٹ فینز کے درمیان جذباتی ماحول پر تبصرہ کرنے والے حماد احمد نے تجویز دی کہ ’نفرت نہیں میمز پھیلائیں۔‘
ایک افغان خاتون تماشائی وازمہ ایوبی جنہیں ان کی دلکشی کی وجہ سے بھارتی میڈیا میں بہت کوریج مل رہی ہے ایک ٹویٹ پر لکھا: ’پورے احترام کے ساتھ ہمارا کھلاڑی صرف وکٹ جیتنے کا جشن منا رہا تھا لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے جب آصف علی نے افغان کھلاڑیوں کے ساتھ گراؤنڈ پر بدتمیزی کی ہو۔ اس کے رویے نے ہجوم کو مشتعل کیا، میں دونوں کارروائیوں کی شدید مذمت کرتی ہوں۔‘
ایک شریر صارف نے لکھا کہ 30 سال کا ہونے کے باوجود آصف علی کو مناسب طریقے سے مکا مارنا بھی نہیں آیا
گفتگو میں شریک کچھ افراد نے کرکٹ فینز کے درمیان حالات بہتر کرنے کے لیے پرانی تجویز دہراتے ہوئے ’کھیل کو سیاست سے الگ رکھنے‘ کی یاددہانی کرائی لیکن ٹائم لائنز کے مزاج سے واضح تھا کہ اس مرتبہ یہ تلقین زیادہ لوگوں کو متوجہ نہیں کر سکی
پبلک پالیسی کے شعبے سے وابستہ رفیع اللہ کاکڑ نے موقف اپنایا کہ ’کرکٹ کو سیاست سے الگ رکھنے کی خواہش اچھی ہے لیکن ناسمجھی پر مبنی ہے۔ سبھی کچھ سیاسی ہے، کرکٹ میں پاکستان اور انڈیا کا تقابل بھی سیاسی وجوہات کی بنا پر مشہور ہے۔‘
ٹوئٹر صارف پلوشہ خٹک نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’ہم اب بھی جنگ کو کھیل اور کھیل کو جنگ سمجھتے ہیں۔‘
پاک افغان کرکٹ میچ ’ہائی وولٹیج‘ ہونے کے مختلف اسباب کا ذکر کرنے والوں نے سوال کیا کہ ’سرحد کے دونوں جانب کے پشتونوں کو ایک کہا جاتا ہے لیکن لگتا ہے وطنیت کا بت قومیت پر غالب آ چکا ہے، تبھی پاکستان و افغانستان کا میچ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہائی وولٹیج ہوتا جارہا ہے۔‘
افغان کرکٹر فرید احمد اور پاکستانی کرکٹر آصف علی کے درمیان پیش آنے والی صورتحال پر ’ادھوری بات‘ بتانے پر کرکٹ سے متعلق ویب سائٹ ای ایس پی این کرک انفو کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا
متعدد کرکٹ فینز نے دعوی کیا کہ ’افغان کرکٹر نے آصف علی کے آؤٹ ہونے پر نازیبا اشارہ کیا اور گالی دی، یہی بدمزگی کی وجہ بنی‘۔ حسنہ نے لکھا کہ ’جانبدارانہ رپورٹنگ شرمناک ہے۔‘
افغان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان گلبدین نائب نے آصف علی کے انداز پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’ان پر باقی ٹورنامنٹ کے لیے پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ ہر بولر کو سیلبریٹ کرنے کا حق ہے لیکن کسی کے ساتھ فزیکل ہو جانا قابل قبول نہیں ہے۔‘
میچ کے دوران ’اسٹیڈیم میں موجود افغان تماشائیوں کی جانب سے توڑ پھوڑ اور پاکستانی کرکٹ فینز پر کرسیاں اچھالنے’ پر پاکستانی فنکار فخرعالم سمیت متعدد افراد نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا
فخر عالم نے سٹیڈیم میں توڑپھوڑ کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’افغان کرکٹ فینز کا یہ رویہ افسوسناک ہے۔ آئی سی سی کو فینز کے لیے تمام کرکٹ وینیوز محفوظ بنانے اور ایسے متشدد رویے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔‘
پاکستانی کرکٹر شعیب اختر نے میچ پر اپنے تبصرے میں نسیم شاہ کے چھکوں کے تناظر میں لکھا کہ ’پٹھان نے پٹھان سے بدلہ لیا ہے۔‘
متعدد سوشل میڈیا صارفین نے اسے نامناسب انداز کہہ کر ان پر تنقید کی تو سابق پاکستانی کرکٹر نے اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی
افغان کرکٹ بورڈ کے سابق صدر شفیق ستانکزئی نے شعیب اختر کے تبصرہ پر ردعمل میں لکھا کہ ’آپ تماشائیوں کے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے، کرکٹ کی دنیا میں ایسے واقعات کئی بار ہو چکے ہیں۔ آپ کو کبیر خان، انضمام بھائی اور راشد لطیف سے پوچھنا چاہیے کہ ہم نے ان سے کیسا سلوک کیا۔ آپ کے لیے میری تجویز کے لیے آئندہ بات کو قوم پر مت لانا۔‘
شفیق ستانکزئی کے جواب میں پاکستانی ٹیلی ویژن میزبان اجمل جامی نے لکھا کہ ’بورڈ کے سابق صدر ہونے کے ناطے مجھے شفیق ستانکزئی سے کچھ معقولیت کی توقع تھی لیکن وہ پاکستانی ٹیم کے سپورٹرز پر حملہ کرنے والوں سے بھی آگے نکل گئے۔ آپ کی نسبت راشد خان اور محمد نبی سپورٹس مین شپ کی بہترین مثال ہیں۔‘
میچ کے دوران پیش آنے والے واقعات پر جذباتی ردعمل زیادہ آگے بڑھا تو پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’جو کچھ کل شارجہ کرکٹ گراونڈ میں دیکھا اور جس انداز میں چند افغان تماشائیوں نے ردعمل دیا وہ کھیل کی سپرٹ کے خلاف ضرور تھا لیکن پاکستانی ہوں یا افغان ہم بھائی بھائی ہیں اور ہمیں چند افراد کے غیر ذمہ دارانہ رویہ سے پیدا ہونے والی تلخی کو ختم کرنا چاہیے نہ کہ اس بڑھانا چاہیے۔‘
پاکستان اور افغانستان کے میچ پر دونوں جانب کے شائقین کرکٹ نے جہاں جذباتی تبصرے کیے وہیں گفتگو میں شریک کئی افراد معاملے کے دیگر پہلوؤں کی جانب متوجہ کرتے دکھائی دیے
گرین ٹیم کے ہینڈل سے آصف علی و فرید خان اور راشد خان و حارث رؤف کی الگ الگ تصاویر شیئر کرتے ہوئے اسے ’پاکستان اور افغانستان کرکٹ کی دو سائیڈز‘ قرار دیا گیا
تبصرے میں مزید لکھا گیا کہ ’آصف علی اور فرید احمد کے درمیان ایک برا واقعہ افسوسناک ہے۔ اس دوران افغان اور پاکستان کھلاڑیوں کے درمیان اچھے لمحوں کو نظرانداز نہ ہونے دیں۔ راشد خان، محمد نبی، حضرت اللہ زازئی، مجیب اور گرباز پی ایس ایل کا حصہ ہیں اور ہمیشہ احترام کا رویہ رکھتے ہیں۔‘
افغان کرکٹر راشد خان نے ’میچ جیت کر ہم وطنوں کو خوشی نہ دے سکنے‘ پر معذرت کی تو لکھا کہ ’ہم نے آخر تک کوشش کی اور مجھے ٹیم پر فخر ہے۔ ہم سیکھنا جاری رکھیں گے اور مضبوط ہو کر سامنے آئیں گے۔‘