آرمی چیف کی تعیناتی پر تنازع: فوجی افسران کی سینیارٹی کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟

ویب ڈیسک

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے آرمی چیف کی ’میرٹ پر تعیناتی‘ سے متعلق بیان اور پھر پاکستانی فوج کی جانب سے دیے جانے والا ردِ عمل اس وقت پاکستان میں موضوعِ بحث ہے

عمران خان نے کہا تھا ’جو سب سے میرٹ پر ہے اس کو آرمی چیف بننا چاہیے۔ کسی کا پسندیدہ آرمی چیف نہیں ہونا چاہیے، کسی کا فیورٹ نہیں ہونا چاہیے۔‘

اگلے روز اس بیان کے ردِ عمل میں فوج لے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ”پاکستان آرمی میں فیصل آباد میں ایک سیاسی جلسے کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے ’پاک فوج کی سینیئر قیادت کے بارے میں ہتک آمیز اور غیر ضروری بیان پر شدید غم و غصہ ہے۔‘

جبکہ اس وقت حکومت میں شامل تمام جماعتوں نے عمران خان کے اس بیان پر منظم مخالف مہم شروع کر رکھی ہے

اس وقت ملک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل جن فوجی افسران کے ناموں کی فہرست وزیرِ اعظم کو ارسال کی جاتی ہے، اس میں کون سے نکات پر غور کیا جاتا ہے

یاد رہے کہ چند ماہ قبل فوج کے ترجمان نے واضح کیا تھا کہ جنرل باجوہ ملازمت میں مزید توسیع کے خواہشمند نہیں تاہم اس مدت کے خاتمے میں جب اب تین ماہ سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے، پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ’ایکسٹینشن‘ کی بازگشت دوبارہ سنائی دینے لگی ہے اور فوج کی جانب سے فی الوقت ان خبروں پر دوبارہ کوئی ردعمل نہیں دیا گیا ہے

آرمی چیف کی تقرری کا طریقہ کیا ہے؟

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 243 کے سیکشن تین کے مطابق صدر، وزیر اعظم کی سفارش پر سروسز چیفس کا تقرر کرتا ہے۔

عام طور پر جی ایچ کیو چار سے پانچ سب سے سینیئر لیفٹیننٹ جنرلز کے ناموں کی فہرست اور ان کی تفصیلات وزارت دفاع کو بھیجتا ہے، جس کے بعد یہ فہرست وزیراعظم کی میز پر پہنچتی ہے، جو صدر سے مشاورت کے بعد اس عہدے پر تعیناتی کرتے ہیں

اس معاملے پر مزید غور و خوض کے لیے اگر وزیراعظم چاہیں تو کابینہ کے سامنے بھی یہ معاملہ زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے اور وزیر اعظم سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کے ساتھ غیر رسمی مشاورت کر سکتے ہیں

پاکستانی فوج کے ایک سابق سینیئر افسر کے مطابق فوج میں یہ قانون تو نہیں تاہم روایت ضرور ہے کہ فور اسٹار جنرل یعنی آرمی چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے پر ترقی پانے والے افسران بطور لیفٹننٹ جنرل کمانڈ اور اسٹاف دونوں فرائض سرانجام دیتے ہیں

پاکستانی فوج میں اب تک صرف ایک افسر ایسے ہیں، جو کور کی کمان کیے بغیر فور اسٹار کے رینک تک پہنچے

یہ اس وقت ہوا تھا جب سابق فوجی صدر جنرل ضیاء الحق نے جنرل خالد محمود عارف کو وائس چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر ترقی دی تھی

خیال رہے کہ ایک لیفٹننٹ جنرل کے عہدے کی مدت چار سال ہے، جس میں سے عام طور پر دو سال پرنسپل اسٹاف ڈیوٹی جبکہ دو سال کسی بھی کور کی کمان میں صرف کیے جاتے ہیں

افسر کی سینیارٹی کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟

آرمی ایکٹ کے مطابق کسی بھی افسر کی لانگ کورس میں سینیارٹی ملٹری اکیڈمی کاکول سے پاسنگ آؤٹ کے موقع پر ملنے والے نمبر ، جسے پاک آرمی یا پی اے نمبر کہا جاتا ہے، کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے

سروس کی عمر یا اس رینک کے لیے مختص مدت میں سے جو پہلے آئے، اسی کے مطابق ریٹائرمنٹ ہو جاتی ہے۔ مثلاً موجودہ آرمی چیف اگرچہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ایک ہی دن پاس آؤٹ ہوئے، تاہم آرمی چیف بننے سے قبل وہ اپنے کورس میں سینیارٹی میں چھٹے نمبر پر تھے، جس کی وجہ ان کا پی اے نمبر تھا

اسی طرح موجودہ سینیئر ترین لانگ کورس کے لیفٹیننٹ جنرل سید عدنان اپنے رینک کی مدت پوری ہونے پر اکتوبر 2022 میں ریٹائر ہوں گے اور یوں وہ فور اسٹار جنرل کی دوڑ میں بھی شامل نہیں ہوں گے

ذیل میں ان تمام افسران کا ذکر ہے جو آئندہ برس نومبر میں سینیر ترین ہوں گے اور آرمی چیف بننے کی دوڑ میں شامل ہوں گے

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں مزید توسیع نہ کی گئی، تو وہ رواں برس نومبر میں فوج سے ریٹائر ہو جائیں گے

فوج کا 76واں لانگ کورس

نومبر 2022 میں اگر وزیر اعظم شہباز شریف سینیارٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی چیف کا انتخاب کرتے ہیں تو موجودہ فوجی سربراہ کی ریٹائرمنٹ کے وقت 76ویں لانگ کورس کے افسران فوج میں سب سے سینیئر ہیں

اس لانگ کورس میں اعزازی شمشیر حاصل کرنے والے افسر لیفٹیننٹ جنرل سید عدنان کا ذکر پہلے ہو چکا، ان کی طرح لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف بھی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے صرف آٹھ دن پہلے ریٹائر ہو جائیں گے

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے بڑے بھائی لیفٹیننٹ جنرل نعیم اشرف تھے اور اگر جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن نہ ملتی تو وہ اس وقت آرمی چیف کے لیے تین سینئر ترین افسران میں سے ایک تھے

لیفٹینٹ جنرل عاصم منیر

لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا تعلق او ٹی ایس کے اس کورس سے ہے، جو 75ویں لانگ کورس سے جونیئر اور 76ویں لانگ کورس سے سینیئر ہے۔ اُن کی ترقی موجود کور کمانڈر لاہور، منگلا، ڈی جی ایس پی ڈی اور آئی جی ٹی اینڈ ای کے ساتھ اکتوبر 2018 میں ہوئی تھی۔ تاہم انہوں نے رینک تقریباً ڈیڑھ مہینے کی تاخیر سے لگایا جس کی وجہ سے ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ اپنے جونیئرز کے بھی بعد ہے

موجود آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے دو روز پہلے ہی ان کی ریٹائرمنٹ ہو جائے گی۔ اس کی بنیاد وہی قواعد و ضوابط ہیں، جن کا ذکر پہلے ہو چکا یعنی مدت ملازمت یا رینک کے لیے متعین مدت میں سے جو پہلے آ جائے، اسی تاریخ پر افسر کی سروس ختم ہو جاتی ہے

اس لیے ان کی چار سالہ مدت ملازمت 27 نومبر کو یعنی موجود آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے صرف دو دن پہلے پوری ہو جائے گی اور وہ اس دوڑ میں اسی صورت میں شامل ہو سکتے ہیں کہ انہیں دو دن کی ایکسٹینشن مل جائے

لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر پاکستان ملٹری اکیڈمی کے فارغ التحصیل نہیں بلکہ انہوں نے آفیسرز ٹریننگ اسکول سے فوج کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا تھا

ایک سابق فوجی اہلکار کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے کے لیے منتخب ہونے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اُن کی ریٹائرمنٹ کے دن جنرل عاصم حاضر سروس ہوں گے۔ آرمی چیف کے عہدے کے لیے انہیں دو دن کی توسیع یا موجودہ آرمی چیف کی دو روز قبل ریٹائرمنٹ کرنا ہوگی

لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کے بعد اس کورس میں اب سب سے پہلا نام لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کا ہے، جبکہ لیفٹیننٹ جنرل چراغ حیدر چھٹے نمبر پر ہیں

ماضی میں بننے والے فوجی سربراہان کا ریکارڈ اور ان جنرلز کی اسائنمنٹس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کورس کے تقریبا تمام ہی افسران مضبوط پروفائل رکھتے ہیں

لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا

سندھ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے ساحر شمشاد مرزا اس وقت ٹین کور، جسے راولپنڈی کور بھی کہا جاتا ہے، کمان کر رہے ہیں

خیال رہے کہ اس سے قبل خود آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے بھی یہی کور کمان کی تھی۔ یہ علاقے کے لحاظ سے فوج کی سب سے بڑی کور ہے، جو کشمیر اور سیاچن جیسے علاقوں کی نگرانی کرتی ہے

اس سے پہلے وہ فوج کے اہم ترین عہدوں میں سے ایک یعنی بطور چیف آف جنرل اسٹاف تعینات رہے

وہ اپنے کیریئر میں تین بار یعنی بطور لیفٹیننٹ کرنل ، بریگیڈیئر اور پھر بطور میجر جنرل ملٹری آپریشنز یعنی ایم او ڈائریکٹوریٹ میں تعینات رہے

انہوں نے وائس چیف آف جنرل اسٹاف رہے، جو ملٹری آپریشنز اور ملٹری انٹیلیجنس کی نگرانی کرتا ہے

جس کے بعد وہ چیف آف جنرل اسٹاف بنے۔ بطور میجر جنرل انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی ڈویژن کی کمانڈ کی، جو اس وقت جنوبی وزیرستان میں ہونے والے آپریشنز کی نگرانی کر رہی تھی

لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس

بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے اظہر عباس سینیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ وہ اس وقت فوج کے اہم ترین عہدوں میں سے ایک یعنی چیف آف جنرل اسٹاف کے طور پر تعینات ہیں

اس سے قبل انہوں نے بطور کور کمانڈر ٹین کور کمان کی ہے۔ ان دو عہدوں کی حد تک جنرل اظہر عباس اور ساحر شمشاد مرزا کی پروفائل ملتی جلتی ہے

اظہر عباس بطور میجر جنرل کمانڈنٹ انفنٹری سکول تعینات رہے جبکہ سابق فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرح وہ مری کے جی او سی بھی رہے

جنرل (ر) راحیل شریف کے پی ایس سی یعنی پرنسپل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ بطور لیفٹیننٹ جنرل وہ ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ اسٹاف رہے ہیں

لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود

اگرچہ نعمان محمود سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر ہیں لیکن ایک مضبوط کیریئر کے حامل ہیں۔ فوج میں انہیں خاص طور پر پاکستان کی مغربی سرحد کا ماہر مانا جاتا ہے

ان کے والد کرنل راجہ سلطان نے 1971 کی جنگ میں شامل تھے تاہم وہ مسنگ ان ایکشن افسر ہیں یعنی ان کے لاپتہ ہونے کے باعث ان کے زندہ ہونے یا نہ ہونے سے متعلق علم نہیں۔ بعد میں نعمان محمود نے اپنے والد کی یونٹ 22 بلوچ کی کمانڈ بھی کی

بلوچ رجمنٹ کے لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود اس وقت نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ ہیں۔ جبکہ اس سے قبل وہ پشاور کے کور کمانڈر تعینات رہے ہیں

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عام طور پر دفتر میں نہیں پائے جاتے اور ان کا زیادہ وقت فارورڈ ایریاز میں گزرتا ہے۔ انہیں سابق فاٹا کی جنگ کا ماہر سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ ان کی اسائنمنٹس ہیں

وہ بریگیڈئیر کے طور پر الیون کور میں ہی چیف آف اسٹاف رہے، بطور میجر جنرل انہوں نے شمالی وزیرستان میں ڈویژن کی کمان سنبھالی اور افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کے منصوبے کی نگرانی کی

خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں بھی تجزیاتی ونگ کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ جبکہ لیفٹیننٹ جنرل کے طور آئی جی سی اینڈ آئی ٹی رہے

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید

پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے۔ وہ اُس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کے چیف آف اسٹاف تھے، جب جنرل باجوہ ٹین کور کمانڈ کر رہے تھے

بطور میجر جنرل انہوں نے پنوں عاقل کی ڈویژن کی کمانڈ کی۔ وہ آئی ایس آئی میں ہی ‘سی آئی’ یعنی کاؤنٹر انٹیلیجنس سیکشن کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں اور آئی ایس آئی کی سربراہی سے قبل کچھ ہفتوں کے لیے ایجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے وقت وہ سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر ہوں گے۔ اُن کے بارے میں فوج میں ایک یہ رائے پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے کام کو تکمیل تک پہنچا کر دم لیتے ہیں

لیفٹننٹ جنرل محمد عامر

یہ اس فہرست میں غالباً ’خاموش ترین طبیعت‘ کے افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آرٹلری سے تعلق رکھتے ہیں اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ملٹری سیکرٹری بھی رہے ہیں

وہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ڈائریکٹر جنرل اسٹاف ڈیوٹیز تھے اور آرمی چیف سیکرٹریٹ کے امور کی نگراتی کرتے تھے۔ بطور میجر جنرل انہوں نے لاہور ڈویژن کمانڈ کی

اس وقت اس وقت وہ گجرانوالہ کور کی کمان کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ جی ایچ کیو میں ایجوٹنٹ جنرل تھے

لیفٹننٹ جنرل چراغ حیدر

لیفٹینٹ جنرل چراغ حیدر کا تعلق فرنٹئیر فورس رجمنٹ سے ہے۔ وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے فارغ التحصیل نہیں ہیں بلکہ انھوں نے آفیسر ٹریننگ سکول سے فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا

بطور بریگیڈیئر وہ ملٹری انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ میں تعینات رہے ۔ بھارت کی جانب سے ستمبر 2019 میں لائن آف کنٹرول کے پاس سرجیکل اسٹرائیک کے دعویٰ کے وقت وہ جہلم کا ڈویژن کمانڈ کر رہے تھے

لیفٹیننٹ جنرل چراغ حیدر ڈائریکٹر جنرل ملٹری ٹریننگ رہے جبکہ ڈی جی جوائنٹ سٹاف کے عہدے پر بھی تعینات رہے ہیں۔ اس وقت وہ کور کمانڈر ملتان ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close