میرے سامنے آج 3 ستمبر کا اخبار پڑا ہوا ہے۔ اس کی کچھ لیڈ خبریں اس طرح کی ہیں:
’کپاس اور دھان کی فصلیں تباہ، گندم کی کاشت بھی مشکل سے ہوگی، منچھر کو کٹ لگانے کا فیصلہ ایریگیشن ڈپارٹمنٹ کرے گا۔ پانی کی نکاسی میں 2 سے 3 ماہ لگیں گے: مراد علی شاہ۔‘
’جھانگارا اور باجارا ڈوب گئے، منچھر کی سطح بڑھنے سے وارھ کو خالی کرنے کا الرٹ جاری، میہڑ اور جوہی ابھی خطرے میں ہیں۔‘
’بارش، کیمپوں میں لوگوں کو مختلف بیماریاں، حاملہ عورتوں کو خوراک کی کمی کی وجہ سے بچوں کی زندگیاں خطرے میں، لوگوں میں جلد اور آنکھوں کی بیماری عام، ڈائریا کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ، بارشوں کے گندے پانی سے ملیریا اور ڈینگی پھیلنے کا خطرہ۔‘
’بارش کے پانی کی وجہ سے 24 اضلاع متاثر، سندھ میں 56 لاکھ 53 ہزار لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔‘
ابھی اخبار مکمل نہیں ہوا تھا اتنے میں خبر ملی کی منچھر جھیل کو کٹ لگا دیا گیا ہے۔ میں نے مصطفیٰ میرانی کو فون کرکے پوچھا کہ کٹ کس جگہ سے لگا ہے اور اس کٹ سے کون سے علاقے زیرِ آب آئیں گے؟
انہوں نے جواب دیا کہ ‘سیہون سے دو میل مغرب میں اور منچھر کے جنوب میں لگائے جانے والے اس کٹ سے سیہون کے جنوب سے بھان سید آباد تک کا علاقہ پانی سے بھر جائے گا۔ 25 کلومیٹر تک انڈس ہائی وے پانی میں ڈوب جائے گا، 5 یونین کاؤنسلیں یعنی چنا، آراضی، بوبک، جعفرآباد اور واھڑ مکمل زیرِ آب آجائیں گی جن کی آبادی ایک لاکھ 20 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ساتھ میں موسم کی بوئی ہوئی فصلیں اور مال مویشی بھی برباد ہوجائے گا‘
بارش رُکنے کے 12، 15 دنوں کے بعد یہ خبر اس تناؤ بھرے ماحول میں اور زیادہ خوف بھردے گی
میرے لیپ ٹاپ کے ڈیسک ٹاپ پر جو ’سیلاب 2022ء‘ کا فولڈر ہے، اس میں ان مون سون کی بارشوں اور ان کے بعد آنے والے سیلاب کی کئی تصاویر اور وڈیوز ہیں، جن میں ایک بے بسی اور بے چارگی بستی ہے۔ پانی کی چادر ہزاروں مربع میل پر بچھی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے جو سیٹلائٹ تصویر سامنے آئی ہے اس میں سندھ پانی کی ایک جھیل کی طرح نظر آتا ہے
یہ کہتے ہوئے مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا لیکن یہ سب یہاں کے لیے کچھ نیا نہیں ہے۔ یہ ہر آٹھ یا دس برس میں ہوتا رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جو ہماری مصنوعی ترقی کی دھجیاں اُڑانے کے لیے بہت ہے، اگر ہم کچھ محسوس کر سکتے ہیں تو۔۔۔!
قدرتی آفات ساری دنیا میں آتی ہیں اور بربادیاں لاتی ہیں مگر وہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ ان نقصان کا سدِباب کرلیا جاتا ہے کہ اگر آئندہ ایسی آفت آئے تو نقصان کم سے کم ہو۔ مگر یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں جب تک پانی ہے تب تک باتیں ہیں، چیخ و پکار ہے اور اس کے بعد خاموشی۔ پھر آٹھ دس برس گزر جائیں گے۔ پھر بارشیں آئیں گی پھر وہی لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) اور رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) ہوگی اور ان دونوں ناکام میگا پراجیکٹس کے بیچ میں سندھ ہوگا، مشرق سے لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین اور مغرب میں رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین ہوگا اور موجودہ ذلتوں اور بیماریوں سے بچ جانے والے لوگ ہوں گے۔ پھر یہ دونوں بہاؤ پانی لے کر خشکیوں پر آدم بُو آدم بُو کرکے دوڑیں گے اور پھر وہی کہانی۔۔۔
جب 2010ع جولائی میں بلوچستان سے سیلاب شروع ہوا تھا، تب بھی ایسی بربادی آئی تھی، سندھ حکومت کے پاس وقت بھی تھا، مگر بربادی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس سیلاب کی بربادی کے بعد سندھ حکومت نے عالمی اداروں کے ساتھ مل کر اس سیلاب کے پانی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کاغذی کارروائی کی اور ایک سمری بنائی جس میں ان تمام قدرتی بہاؤ کو بحال کرنا تھا جو دریائے سندھ کے دائیں کنارے کے پندرہ اضلاع یعنی گھوٹکی سے لے کر سجاول اور بدین تک موجود تھے۔ اس کے لیے ہاکڑو کے پرانے بیس سے زیادہ چھوٹے بڑے بہاؤ اور بڑی جھیلوں کو ڈھونڈ کر ان کو بحال کرنا تھا
یہ ایک شاندار اور حقیقت پسندانہ خیال تھا۔ اس کے عمل میں آنے کا اتنا یقین تھا کہ کتنی بھی بارش پڑے، اس کے نتیجے میں جو سیلاب آئے گا، وہ قدرتی گزر گاہیں اس کو سمندر تک لے جائیں گی اور کوئی سیلابی بربادی نہیں آئے گی۔ مگر یہ فقط باتوں اور ملاقاتوں تک محدود رہا اور اس سے آگے کوئی کام نہ ہوسکا، پھر بارشیں اس برس آگئیں اور وہی تاحدِ نظر پانی کی چادر
سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈوجام کے اسمٰعیل کنبھر اس یونیورسٹی کے شعبہ سوشل سائنس ایکسٹینشن ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں اور پانی کے حوالے سے بہت معلومات بھی رکھتے ہیں۔ جب میں نے ان سے اس پانی کی بربادی سے متعلق پوچھا تو ان صاحب نے بڑا تفصیلی جواب دیا
انہوں نے بتایا ’جہاں مون سون کی بارشوں اور سیلاب نے سارے ملک کو سیلاب کی لپیٹ میں لیا ہے، وہاں سندھ بھی ہر دفعہ کی طرح شدید متاثر ہوا ہے۔ اس بربادی کی وجہ سے ایل بی او ڈی کے سیم نالے کے ساتھ سکھر بیراج کی نصیر ڈویژن کی برانچوں جیسے جرکس، بنگار، آئلپور اور کھوسکی کے پلٹنے سے بھی اس طرف کے خیرپور گمبو، ملکانی شریف، میرپورخاص میں جھڈو اور ٹنڈو جان محمد والے علاقے تقریباً ڈوب گئے ہیں۔ جھڈو تو مکمل ڈوب گیا ہے
’بارش کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے پہلے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملکی سطح پر نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی مدد سے پروونشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) صوبائی سطح پر یونین کونسل سے لے کر تحصیل اور ضلعی سطح سے لے کر ریجنل سطح تک اس آفت سے ہونے والی بربادی کو کم کرنے کے لیے عملی کام کرتی۔ ساتھ ہی جن اضلاع میں ہنگامی صورتحال کے حوالے سے منصوبہ بندی موجود تھی وہاں اس پر عمل کیا جاتا تو اتنی تباہی نہ آتی
’اسی طرح ایل بی او ڈی کے مرکزی ڈرین کی مسلسل دیکھ بھال اور اس کی ٹوٹے ہوئے اور خستہ پشتوں اور پُلوں کی مرمت کی جاتی اور 5 ہزار کیوسک سے زیادہ گزرنے والے پانی کو پران (دریائے سندھ کا قدیم بہاؤ جو اب خشک ہے) کی طرف موڑنے کے اقدامات کیے جاتے تو بھی ہم بڑے نقصان سے بچ سکتے تھے۔ جنوبی سندھ میں پانی کے قدیم قدرتی بہاؤ جیسے کہ ہاکڑہ ندی، نارو ڈھورو کے ساتھ پران جو ونگو گھاٹ سے ہوتی ہوئی جار جو گھاٹ تک جاکر اس سے ملتا ہے اور پھر جاکر شکور جھیل میں پانی کو گراتا ہے۔ ایل بی او ڈی اور اس کے دوسرے حصے جیسے کے پی او ڈی (کڈھن پٹیجی آؤٹ فال ڈرین)، ڈی پی او ڈی (ڈھورو پران آؤٹ فال ڈرین) اور اسپائنل ڈرین کے بننے کے بعد یہ قدرتی پانی کے راستے بند ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے پانی کو سمندر تک جانے کا راستہ نہیں ملتا‘
اس ناکام منصوبے کی وجہ سے بدین، میرپورخاص اور سانگھڑ کے زرخیز علاقوں کو اس کا پانی برباد کرتا رہتا ہے۔ میں ایک اور اہم بات آپ کو بتاؤں کہ یہ قدیم بہاؤ بحال کیوں نہیں ہوتے؟ کیونکہ ان پر بڑے زمینداروں کے قبضے ہیں، وہ وہاں فصلیں اگاتے ہیں۔ وہاں انہوں نے مچھلی کے تالاب بنا رکھے ہیں، چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا رکھے ہیں جہاں پانی ذخیرہ کرتے ہیں اور ساتھ میں ناجائز تعمیرات کر رکھی ہیں۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پانی کے قدیم راستے بحال ہوں۔ 1998ء، 1999ء، 2003ء، 2010ء، 2020ء اور اب 2022ء میں اس ایل بی او ڈی میں کئی شگاف پڑچکے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں گاؤں اور لاکھوں مرد، عورتیں اور بچے بے یار و مددگار راستوں اور پُشتوں پر امداد کے آسرے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں
جھڈو جو ضلع میرپورخاص کا شہر ہے جس کی آبادی پچاس ہزار کے قریب ہے، اس کے قرب و جوار میں جو گاؤں تھے وہ بھی سیلاب کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ اب اس شہر میں گلیاں، گھر اور دکانیں تو ہیں مگر پانی کے سوا وہاں کچھ نہیں ہے۔ شام ڈھلے خاموشی مزید گہری ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگ وہاں اپنے گھروں کی چھتوں پر اس لیے رہ رہے ہیں کہ چوری نہ ہوجائے۔ آپ اندازہ کریں کہ ہم کس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں
مطلب ایسی حالت میں جب لوگ دربدر اور خاک بسر ہیں، رہنے کے لیے راستہ یا کسی نہر کا پشتہ ہے، جس کے دونوں اطراف پانی ہے اور بے تحاشہ پانی ہے، پینے کے لیے صاف پانی نہیں ہے۔ اگر کچھ پکائیں بھی تو کس پر؟ اگر خدانخواستہ سرکاری افسران 100 افراد کے لیے ایک دیگ دے بھی جائیں تو اس میں کچے آلو اور کنکر والے چاول ہوں، دوپہر کی تپتی دھوپ اور شام ہوتے ہی جنگلی جھاڑیوں کے بے رنگ اور مکھی جتنے مچھر۔ چلیں اگر ایک دن یا ایک رات ہو تو انسان برداشت کر بھی لیتا ہے مگر یہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے ایک ایسا طویل انتظار ہے جس کی سرحد دُور دُور تک نظر نہیں آتی۔ ایسے میں دکان اور گھروں سے چوری کا خدشہ بھی ہو تو خدا کی پناہ کے سوا آپ کے پاس اور کچھ نہیں بچتا
ان شب و روز میں خدانخواستہ کسی عورت کے زچگی کے دن ہوں، کسی کو ڈائریا ہوجائے، کسی کو ملیریا ہوجائے، کسی کو سانپ کاٹ لے یا دل کا دورہ پڑجائے آپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ جب پانی کی بچھی چادر پر رات کی سیاہی اُترتی ہے، تو جہاں گھر کی چار دیواری نہ ہو اور دربدری اور خاک بسری ہو وہاں تناؤ اپنی آخری لکیر کو جا پہنچتا ہے۔ جس کو بلڈ پریشر یا شوگر ہو اس کی ان حالات میں ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہوگی؟
میں نے محترم خالد صدف سے جھڈو کے متعلق پوچھا۔ وہ جھڈو کے صحافی اور سوشل ورکر بھی ہیں۔ ان کا جواب آیا کہ ‘جھڈو شہر اور اس کے اطراف میں جن گاؤں میں پانی آیا ہے وہاں کی آبادی ایک لاکھ کے قریب تو یقیناً ہوگی۔ ہم کو 2006ء میں، 2011ء میں اور اس برس 2022ء میں پران اسپائنل ڈرین اور مین میرپورخاص ڈرین نے ڈبویا ہے۔ یہ سب ایل بی او ڈی کی مہربانیاں ہیں۔ ہمارے پاس بھلے بارشیں کم ہی ہوں پر اگر میرپورخاص، سندھڑی، شہدادپور، سنجھورو، نوابشاہ (شہید بینظیرآباد) اور ٹنڈو آدم میں بارشیں زیادہ ہوجائیں تو ہمارا ڈوبنا طے ہے۔ کیونکہ واپڈا نے ایل بی او ڈی کے ڈیزائن میں ہی غلطی کی۔ اگر یہ دریا کے پانی کی پرانی گزرگاہوں کو استعمال کرتے تو جتنا بھی پانی آجاتا لیکن کوئی گاؤں بھی نہیں ڈوبتا۔ ایل بی او ڈی کی تعمیر کے بعد محکمہ آبپاشی نے کوئی دیکھ بھال بھی نہیں کی۔ اسے ڈوبنے سے تحفظ فقط اسی صورت میں مل سکتا ہے کہ پانی کو قدیم گزرگاہوں کے راستے سمندر تک لے جایا جائے‘
سانگھڑ شہر کو تو مقامی طور پر بچالیا گیا ہے مگر جب میں نے میر حسن مری سے پوچھا تو وہاں بھی درد کی تان ایل بی او ڈی پر ٹوٹی اور انہوں نے کہا کہ ‘دراصل یہ ساری بربادی اس ایل بی او ڈی کے سیم نالوں کے جال کی وجہ سے ہر دفعہ ہوتی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ یہ ایک ناکام ترین پراجیکٹ اس لیے ہے کہ پانی کی پرانی گزرگاہوں کو نظرانداز کرکے یہ ڈرین بنائی گئی۔ پھر کوئی ان سیم نالوں کی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں۔ وہ ڈرین جن سے پانی کو گزر کر جانا ہے وہ گھاس سے بھری پڑی ہیں اور پل اور پشتے خستہ حال ہیں۔ ابھی یہاں کی یونین کونسل میرکیہور میں اس ڈرین کے پانی کی وجہ سے تین افراد ڈوب گئے۔ اس کے علاوہ لاکھوں ایکڑ زرعی زمین برباد ہوئی ہے اور گھاس اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے مال مویشی مرنے کے قریب ہیں۔ فقط اس ایک یونین کونسل میں 33 ہزار لوگ بے گھر ہوئے ہیں مگر یہ بربادی کا اختتام نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ ابھی بہت دنوں بلکہ مہینوں تک چلنے والا ہے‘
خیرپور ناتھن شاہ جو جھڈو کی طرح مکمل ڈوبا ہوا ہے، میں نے وہاں ڈاکٹر سکندر علی نائچ سے رابطے کی بہت کوشش کی مگر رابطہ ہو نہ سکا
پانی کی قدیم گزرگاہوں پر جو طاقتور لوگوں نے قبضے کر رکھے ہیں، کیا بڑا نقصان ان کی وجہ سے ہی ہوا ہے؟ یہ سوال جب میں نے سوشل ورکر اقبال حیدر سے کیا تو جواب کچھ اس طرح کا آیا کہ ‘میرے خیال میں 30، 35 برس میں یعنی جب 1984ء سے یہ ایل بی او ڈی منصوبہ شروع ہوا ہے تب سے ہم مسلسل جو بربادیاں دیکھتے آئے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے اب یقین ہوجانا چاہیے کہ یہ سندھ کی بربادی کا پراجیکٹ ہے۔ جب 2019ء میں سندھ ہائی کورٹ نے بھی یہ حکم دیا کہ شمال سے جنوب کی طرف آنے والے پانی کے لیے قدرتی گزر گاہیں کھولی جائیں تو یہ کیوں نہیں کیا جارہا؟ کونسی ایسی رکاوٹیں ہیں جو ریاست نہیں ہٹا سکتی؟ میں نہیں سمجھتا کہ فنڈنگ حکومت کے لیے کوئی ایسا بڑا مسئلہ ہے۔ ہر 7 یا 8 سال بعد آنے والی بربادی نے صرف یہاں کی معیشت کو تباہ نہیں کیا بلکہ ہر بارش میں میں جو تباہی کا ڈر لگا رہتا ہے اس نے لوگوں کو نفسیاتی بیمار بنا دیا ہے۔ ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اب اس برس یہ بربادی آخری بار ہو اور عدالت کے دیے ہوئے فیصلے پر حالات بہتر ہوتے ہی فوری عمل کیا جائے’
آپ یہ سمجھیں کہ سندھ کی آبادی کا بڑا حصہ گاؤں میں رہتا ہے اور باقی شہروں میں۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی تباہی کی تفصیل بیان کی گئی ہے جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنی بڑی بربادی پھیلی ہوئی ہے۔ پانی کو روکنے کے لیے جنگل ہونے چاہئیں مگر ہم ان کو کاٹ کر، بیچ کر کھا گئے ہیں
حالات سے سیکھنے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں، قرضہ لے کر ایسے منصوبے شروع کرتے ہیں جو مکمل نہیں کرتے بلکہ جو بنا ہوا ہے وہ برباد کرتے ہیں۔ بیچ میں دریائے سندھ ہے اور اس کے دونوں کناروں پر اژدھے جیسے پراجیکٹ بچھے ہیں جو اس قدرتی رحمت کو ایک بربادی میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اس برس کی بربادی آپ کو سکھر، جوہی، دادو، نوابشاہ، سانگھڑ، میرپورخاص، بدین تک نظر آئے گی اور یہ پانی کی چادر اتنی جلدی خشک نہیں ہوگی
حکومتی اعلان کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 1300 سے تجاوز کرچکی ہے جن میں تقریباً 250 بچے ہیں۔ وقت کے ساتھ صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بہت ساری جانوں کے ضائع ہونے کا شدید اندیشہ ہے کیونکہ مال مویشیوں کے لیے گھاس اتنی مقدار میں نہیں ہوگی اور گندے پانی کے استعمال سے بہت ساری بیماریاں پھوٹ پڑیں گی۔ یہ ایک مشکل وقت ہے اور وقت کٹ ہی جائے گا مگر بہت ساری تلخ اور درد دینے والی یادوں کے زخم ہمارے دلوں اور ذہنوں پر چھوڑ کر
بس ایک ہی تمنا ہے کہ ہم اس بار ضرور اس بربادی سے کچھ سیکھ لیں۔ حکومت بھی اور ہم سب بھی۔ اور دعا ہے کہ اس طرح کی بربادی ہماری آنکھیں پھر کبھی نہ دیکھیں۔
نوٹ: یہ مضمون ڈان نیوز اور مصنف کے شکریے کے ساتھ شائع کیا گیا۔