ستمگر ستمبر (افسانہ)

شاہین کمال (کیلگری، کینیڈا)

اس سال سردی جلدی آ گئی ہے مگر ابھی ٹھنڈی ہوا جسم کو اتنی ناگوار نہیں ہے بس ایک جیکٹ سے کام چل جاتا ہے. میں نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے پسنجر سیٹ کے پائیدان سے کافی کا تھرماس اٹھایا ساتھ ہی پلاسٹک کے مربع ڈبے میں سلیقے سے رکھی گئی سینوچ نے بھی اپنی جانب متوجہ کیا اور خواہش نہ ہوتے ہوئے بھی میں نے سینوچ کا ڈبہ اٹھا لیا کہ دروازے سے نکلتے نکلتے سعدیہ کی تاکید یاد آ گئی تھی. دل سے اس کے لیے ڈھیروں دعائیں نکلیں. بیٹیاں بھی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں یہ نہ ہوں تو زندگی کیسی پر ہول اور ویران ہو جائے.

میں انتہائی شکر گزار ہوں اس رب جلیل کا کہ اس نے مجھے ان نعمتوں سے سرفراز کیا.

میں گیٹ کے قریب پڑی بنچ پر بیٹھ گیا. چاروں طرف سناٹے کا راج تھا اور زرد اور سرخ پتے ہوا میں اڑتے پھر رہے تھے. خزاں ہمیشہ سے میرا پسندیدہ موسم رہا ہے مگر آج مجھے یہ جدائی کا نوحہ لگا. میں کافی کا سپ لیتے ہوئے عاتکہ کی قبر کو تکے جا رہا تھا. چار دن سے عاتکہ یہاں ہے اور مجھے کسی پہلو قرار نہیں. دل کی جگہ معنوں انگارہ سلگ رہا ہے. گھر پر ضبط کے پہرے ہیں کہ بچیوں کے سامنے رونا نہیں چاہتا اور پھر تنہائی بھی میسر نہیں سو سعدیہ کے اصرار پر بمشکل اشراق تک گھر پہ رک پاتا ہوں، پھر میں اپنی عاتکہ کے پاس آ جاتا ہوں. میرا بس چلے تو میں یہیں کا مکین ہو جاؤں. انسان کس قدر بےبس ہے نہ جانے والوں کو روک سکتا ہے اور نہ ان کے پیچھے اپنی مرضی سے جا سکتا ہے. بےبسی سی بےبسی ہے.

میرا اور عاتکہ کا اڑتیس برس کا ساتھ تھا. مجھے آج پہلی بار اندازہ ہوا کہ لفظ "تھا” کتنا سفاک اور دل خراش بھی ہو سکتا ہے. اپنے محبوب کے لیے تھا کا لفظ استعمال کرنا گویا تیزاب پینا ہے. میں شکوہ نہیں کر رہا مگر میرے کریم یہ امتحان میری برداشت سے بہت زیادہ ہے.
میں نے ابا میاں اور امی کی موت کا سانحہ بھی برداشت کیا تھا . وہ میں مشکل ہی سے سہی پر جھیل گیا تھا مگر عاتکہ کی جدائی! اف میرے خدا!
اس میں تو سانس سانس آزار ہے، گویا دو دھاری تلوار ہے.
میں صبح ہی عاتکہ کے پاس آ جاتا ہوں اور تلاوت اور ذکر کرتا رہتا ہوں. ابھی عصر کی نماز میں پینتالیس منٹ باقی ہیں. سرد ہوا تند ہو چلی ہے گرم کافی نے جسم کو گرمائش دی. یادوں کا ایک ریلا ہے جو مجھے بہائے لیے جا رہا ہے. ابا میاں اور امی بھی یاد آ رہے ہیں.

امی تین سال کی تھیں تب نانا بحرین سے
وآپس پاکستان آ گئے تھے. بحرین میں فیکٹری میں ہونے والے حادثے میں ان کا بازو کٹ گیا تھا. وہاں ابتدائی علاج کے بعد ان کو فارغ کر دیا گیا اور وہ وطن لوٹ آئے. فیکٹری نے ان کو ہرجانے کے طور پر بھاری معاوضہ بھی دیا تھا. پاکستان میں جانے کس کی کوتاہی سے ان کا زخم بگڑ گیااور نانا کنگرین (gangrene) کے مرض میں مبتلا ہو کر چل بسے. یہ نانی کے لیے ایک جانکاہ صدمہ تھا. نانی معاشی طور پر خودکفیل تھیں مگر چونکہ کم عمر تھیں اس لیے ان کے بھائی ان کی دوسری شادی کے لیے کوشاں تھے. نانی کا بیوگی میں ایک آدھ رشتہ آیا پر کوئی جی کو نہیں لگا. کوئی رنڈوا تھا تو کوئی طلاق شدہ اور کوئی دوسری شادی کا خواہاں کا مگر بچی کو قبولنے کو کوئی بھی تیار نہیں تھا اور نانی کسی بھی قیمت پر اپنی بچی کو چھوڑنے پر راضی نہیں تھیں. امی کی بدقسمتی کہ نانی کی زندگی نے وفا نہیں کی اور نانا کے انتقال کے ٹھیک پانچ سال بعد وہ میری امی کو اپنے بھائی کے حوالے کر کے خلد سدھاریں.

بڑے نانا (امی کے ماموں) خود کثیر العیال تھے اور بیگم بھی مزاج کی تیکھی. اٹھ سال کی مختصر سی عمر میں امی نے زندگی کی ساری تلخیاں چکھ لی. ان کے پیٹ کو نہ کبھی تازہ کھانا نصیب ہوا اور نہ ہی تن کو نیا کپڑا. بڑے نانا کو اللہ جنت نصیب کرے بیوی سے جھگڑا مول کر کسی نہ کسی طرح امی کو میٹرک کروا ہی دیا تھا. امی بتاتی تھیں کہ وہ صبح منہ اندھیرے اٹھتی اور پورے گھر کا ناشتا (نانا، نانی، تین بیٹیاں اور دو بیٹے) بنا کر اسکول جاتی اور وآپسی پر ناشتے کے برتن دھونے کے بعد دن کا کھانا بناتی۔ بڑی نانی ان کے ساتھ بالکل زرخرید غلاموں والا برتاؤ رکھتی. بڑے نانا بیچارے جس قدر کر سکتے تھے کرتے مگر بیگم کے آگے وہ بھی بے بس تھے. امی کے حالات بہت سخت تھے اور زندگی دشوار ترین. امی کی خوش شکلی کے سبب اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے امی کے کئ رشتے آئے مگر بری نانی نے اپنے حسد کے باعث امی کو منگنی شدہ کہہ کر ان لوگوں کو انکار کر دیا. ان کا کہنا تھا کہ جب میری بیٹیاں عیش نہیں کر رہی ہیں تو یہ منحوس کیوں ٹھاٹ سے رہے. بلکہ وہ تو مفت کی نوکرانی کھونے کے ڈر سے سرے سے امی کی شادی کے حق ہی میں نہیں تھیں اور رشتے کے لیے آنے والوں کو آنے بہانے انکار کر دیتی تھیں.

امی جب بیس سال کی تھیں تو بڑے نانا کے کولیگ نے اپنے سالے یعنی ابا کا رشتہ دیا اور ساتھ ہی اپنے سالے کی بہت تعریف کی اور بلاشبہ ابا میاں تعریف کے لائق تھے سادہ، صابر اور خاموش طبع جنہوں نے اپنی پانچ بہنوں کو بیاہنے میں اپنی جوانی گلا دی. بڑے نانا عمروں میں اتنے واضح فرق(بائیس سال) کی بنا پر اس رشتے کے لیے اقرار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے مگر بڑی نانی نے آگے بڑھ کر رشتے کے لیے ہاں کہہ دی. تین جوڑے اور شربت کے گلاس پہ امی کا نکاح ہوا. اس طرح امی اس جہنم سے آزاد ہوئیں مگر ابھی مقدر کی سختیاں باقی تھیں۔ پانچوں نندوں کو جوان بھابھی سے خوف تھا کہ وہ بھائی کو ان سے چھین لے گی اور سیاہ و سفید کی مالک بن جائے گی اس چلتے ان پانچوں نے امی کے خلاف محاذ بنا لیا اور امی کو ٹھیک ٹھاک سخت وقت دیا. رفتہ رفتہ امی کی بےزبانی، صبر اور سلیقہ ابا میاں کے دل میں گھر کرتا گیا اور جب پہلی بار ابا نے بیوی کی حمایت میں آواز بلند کی تو بہنوں میں پٹس پڑ گئی اور تین بہنیں جو ابا کے گھر کے نزدیک رہتی تھیں انہوں نے ابا کا بائیکاٹ کر دیا اور مزے کی بات کہ ہمیشہ کے صلح جو ابا نے جواب میں مرحبا کہا. پھوپھیوں کی مداخلت ختم ہونے کے بعد پھر امی کی زندگی میں اطمنان ہی اطمنان تھا.

امی بہت دبو اور گم سم رہتی تھیں مگر ابا کی محبت اور اعتماد نے امی کو نیا جنم دیا اور میری پیدائش کے تین سال بعد امی نے پراؤیٹ انٹر اور پھر بی. اے کیا. امی بتاتی ہیں کہ شادی کے شروع کے دنوں میں اتنے عمر رسیدہ شوہر کو پا کر امی بہت رنجور تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابا میاں کی محبت اور خیال نے امی کو ان کا گرویدہ کر دیا. ان دونوں کا پچیس سال ساتھ رہا. اپنی عمر کے آخری سال ابا میاں فالج کی وجہ سے بستر کے ہو کر رہ گئے اور امی نے ان کی تیمارداری اور خدمت گزاری میں دن رات کا فرق مٹا دیا. میں ان دنوں انجینئرنگ کے چوتھے سال میں تھا اور گھر کی گاڑی کے اضافی ایندھن کے لیے کوچنگ سینٹر کے علاوہ تین چار جگہ ٹیوشن بھی پڑھاتا تھا. فورتھ اور فائنل یر میری زندگی کے مشکل ترین سال تھے. ابا میاں کے انتقال کے دن سے زیادہ میں اپنی کونوکیشن (convocation) کے دن رویا تھا کہ ابا میاں کو بہت ارمان تھا میری انجینیرنگ کی ڈگری دیکھنے کا. کونوکیشن کے جلسے میں ڈگری وصول کرنے کے بعد یونیورسٹی سے میں سیدھے پاپوش کے قبرستان چلا گیا اور وہاں ابا میاں کی قبر پر دل کھول کر رویا. مجھے ابا میاں کو آرام پہچانے کا موقع قدرت نے نہیں دیا اور وہ بہت سے ارمان اور تشنہ خواہشات کے ساتھ قبر میں اتر گئے . ابا کو قیمتی گھڑیاں اچھی لگتی تھیں اور عمر بھر انہیں ایک اچھی ری کنڈیشن گاڑی کی شدید تمنا رہی.

ابا میاں بہت ذہین طالب علم تھے اور ان کا داخلہ میڈیکل کالج میں ہو گیا تھا مگر دادا میاں کے انتقال کی وجہ سے انہیں میڈیکل کی تعلیم کو خیر باد کہہ کر
بی. کام کرنا پڑا شام میں ٹیوشن اور رات کی شفٹ کی نوکری. انہوں نے اپنی پانچوں بہنوں کی شادیاں کی. ابا میاں کو بڑا دکھ تھا کہ ان کی بیماری میں ان کی بہنوں نے ان کو نہیں پوچھا. ابا میاں کی میت پر میری تمام پھوپھیاں جمع تھیں اور اونچا اونچا بین ڈال رہی تھیں. میرے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم لوگ مردہ پرست کیوں ہیں؟
ہم اعتراف محبت کے لے موت کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟
آخر جیتے جی کسی کو خوشی پہنچا نے میں کیا امر مانع ہے؟
ہم زندگی میں رشتوں کی قدر کیوں نہیں کرتے؟
خسارے اور پچھتاوے ہی کیوں اکٹھے کرتے ہیں؟
جانے کیوں ہم لوگ جیتے جی اعتراض اور بعد از موت اعتراف کرتے ہیں.

میری پارکو میں بحثیت پروسیس انجینئر کے نوکری لگی اور میری نوکری کے بعد امی نے مالی آسودگی تو دیکھی مگر اب ان کا دل مر چکا تھا. مجھے بڑا قلق ہے کہ ابا میاں اپنی ناتمام آرزوؤں کے ساتھ اس جہان سے نا آسودہ گئے. میرا یہ دکھ ہمیشہ ہرا رہا.

امی نے مجھے سے میری پسند دریافت کی کہ اگر مجھے کوئی پسند ہے تو امی وہاں میرا رشتہ لے جائیں مگر غم روزگار نے مجھے کبھی اتنی فرصت ہی نہ دی تھی کہ کسی کے رخ زیبا کو نظر بھر دیکھتا یا کسی کی زلف مشکبار کا اسیر ہوتا۔ غریبوں کی جوانی بھی تو سہمی اور کچلی ہوئی ہوتی ہی ہے اور انا بھی اپنا علم بلند کیے رہتی ہے. سو میں مبتلائے یار ہوئے بغیر عمر عزیز کی ستائیس بہاریں گزار چکا تھا.
مجھے راضی پا کر امی نے جھٹ پٹ کلیم چچا جو ابا کے گہرے دوست تھے اور ہر مشکل گھڑی میں ہم لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے تھے ان کی بیٹی عاتکہ سے میرا رشتہ پکا کر دیا. عاتکہ کو میں نے دسیوں بار دیکھا تھا مگر سوچا ایک بار بھی نہیں تھا کہ رنگین خواب دیکھنے کی استطاعت ہی نہیں تھی. عاتکہ بہت خوب صورت تھی اور اس نے ہوم اکنامکس میں گریجویشن کی تھی. کلیم چچا کے تین بچے تھے. محمود، خالدہ اور عاتکہ. عاتکہ سے میری شادی سادگی سے ہو گئ اور یقین کیجیے شادی کے بعد مجھے زندگی کے اصل معنی سمجھ میں آئے. میں نے جانا کہ جینا کس کو کہتے ہیں اور یہ بھی کہ واقعی وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ. عاتکہ کے وجود سے میری بےرنگ زندگی دھنک رنگ ہو گئی تھی. بہت کم میاں بیوی کو ایک دوسرے سے عشق ہوتا ہے مگر ہم ایک دوسرے کے لیے اور ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر جیتے تھے. ہم دونوں ایک دوسرے کی تکمیل تھے، صحیح معنوں میں ایک دوسرے کا لباس. میں وہ خوش نصیب ہوں جس نے جیتے جی اس دنیا میں اپنی جنت بسائی.
1980 کی بہار میں ہماری شادی ہوئی تھی پھر اس بندھن کو مزید مضبوطی عطا کرنے کے لیے پہلے آمنہ اور اس کے بعد فاطمہ آ گئی. سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا کہ اچانک امی مختصر سی علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں اور ان کی جدائی کے بعد میرا پاکستان سے دل اٹھ گیا.
میں نے عاتکہ سے مشورہ کیا اور وہ میری رضا میں راضی رہنے والی بندی فوراً پردیس کے جوکھم کے لیے تیار ہو گئی.

میں نے کینڈین امیگریشن کے لیے اپلائی کیا. اَسی کی دھائی میں امیگریشن بہت آسان تھی. یوں 1985 کے کڑکڑاتے جاڑے میں ہم چاروں کیلگری ائرپورٹ پہ اترے. میرا پوزیشن ہولڈر ہونا اور پارکو کا تجربہ کام آیا اور مہینے کے اندر اندر مجھے exon mobil
میں نوکری مل گئی. مجھے تین جنوری سے کام شروع کرنا تھا کہ بیچ میں کرسمَس اور نیو یر کی چھٹیاں آ گئی تھیں. اس دوران ہم لوگوں نے کرائے کا مکان اور تھوڑا بہت سامان جوڑ لیا. یہ ایک نئی شروعات تھی. عاتکہ نے بھی ڈے کیر میں جوب کر لی اور دونوں بچیوں کو بھی وہیں داخل کرا دیا.
میرے گھر مزید دو کلیاں کھلیں ہانیہ اور سعدیہ. عاتکہ کو بیٹے کا بہت ارمان تھا مگر میں واللہ ان پانچ خواتین کے ساتھ پر بہت خوش اور مطمئن تھا. گزرتے وقت نے ہمیں معاشی طور پر مستحکم کر دیا تھا. عاتکہ اب فل ٹائم ہوم میکر تھی. میرا کام کمانا تھا اور کہاں اور کیسے خرچ کرنا ہے یہ عاتکہ کا محکمہ تھا. گھر کے بیشتر فیصلے عاتکہ کے ہوتے. اس نے پیسے کو بہت اچھے سے استمعال کیا، بچیوں کو پڑھایا لکھایا، خوبصورتی سے ان کی شادیاں کی اور جائیداد بھی بنائی. حلقہ احباب میرا ہمیشہ مختصر ہی رہا کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ وقت بتا کر زیادہ خوشی محسوس کرتا تھا. ہمارا پاکستانی کمیونٹی میں اچھا ملنا جلنا تھا. لوگوں کا عام خیال تھا کہ میں بیوی کے عاشق ہونے کا ڈھونگ رچاتا ہوں کہ بیوی سے بھی کوئی عشق کرتا ہے بھلا ؟
کمیونٹی میں ہم دونوں ایک خوبصورت اور خوش باش کپل کے طور پر جانے جاتے تھے.

مجھے بچیوں سے بھی بہت محبت ہے شاید میرا خمیر ہی محبت سے اٹھایا گیا ہے. کبھی کبھی مجھے اپنا آپ بالکل ابا میاں کا پرتو لگتا ہے . بچیوں کے اسکول کا لنچ آلٹرنیٹ عاتکہ اور میں بنایا کرتے تھے . مجھے بچیوں کے لنچ باکس میں لو نوٹ (love note) رکھنا بہت اچھا لگتا تھا. اسکول سے واپسی پر انہیں پک کرتے ہوئے ان کا خوشی سے تمتماتا چہرہ اور پاپا پاپا کرتے ہوئے بےساختہ لپٹ جانا روح کو سرشار کر دیتا تھا. بچیوں کی گڑیا کی شادی ہو یا ان کی آئس ہاکی اور اسکیٹنگ کی کلاس، میں لمحہ لمحہ شریک رہتا. ان کا ہیر اسٹائل ہو یا لباس اور نیل کلر کا چناؤ میرا مشورہ ان کے لیے حتمی ہوتا۔

بچیوں اور میرا اٹوٹ بانڈ تھا وہ ماں کے مقابلے میں مجھ سے زیادہ بےتکلف تھیں. سنیچر کی صبح سب اپنی سہولت سے ناشتا کرتے پر اتوار کو ناشتے کی چھٹی ہوتی اور بجائے ناشتے کے شاندار برنچ کا اہتمام ہوتا جو سب مل کر بناتے تھے. وہ برنچ ہم لوگ ایک فیملی ایونٹ کے طور پر منایا کرتے تھے . اس سے زیادہ خوبصورت زندگی کا تصور ممکن نہیں. اب بچیاں بڑی ہو گئ تھیں اور انہیں شکایت تھی کہ پاپا آپ مما کو زیادہ چاہتے ہیں اور میں ہنستے ہوئے کہتا کہ میں دراصل ماں کے عشق میں مبتلا ہوں. شادی سے پہلے اپنی ماں کو چاہتا تھا اور اب اپنے بچوں کی ماں سے عشق کرتا ہوں.
ہم لوگ گرمیوں کی چھٹیوں میں کرائے پر آر وی لے کر کینیڈا کی سیاحت پر نکل جاتے. بہت متحرک اور خوش باش زندگی تھی ہماری. بچیاں بڑی ہوتی گئیں اور پڑھائی مکمل کر کے اپنے پیا کا دل و گھر آباد کیا. آمنہ نے میڈسن، فاطمہ نے بزنس، ہانیہ نے انجینئرنگ اور سعدیہ نے ایجوکیشن میں ڈگری لی۔ فاطمہ امریکہ، آمنہ ٹورانٹو اور ہانیہ وینکور میں. صرف سعدیہ کیلگری میں رہتی ہے اور اب میرا گھونسلہ خالی ہو گیا ہے.

سعدیہ کی شادی کے بعد ہم نے اپنا گھر بیچ کر ڈاؤن ٹاؤن میں بو ریور(bow river ) پاس دریا کے رخ پر دو بیڈروم کا اپارٹمنٹ لے لیا تھا. عاتکہ کو یہ علاقہ بہت پسند تھا . سورج ہمارے بیڈروم میں طلوع ہوتا اور ڈوبتا ہماری بالکونی میں تھا.

بچیاں اپنی اپنی زندگیوں میں خوش اور مگن تھیں. گرمیوں کی چھٹیوں میں کوئی تفریحی مقام طے کر لیا جاتا اور وہاں ہم سب ہفتے دس دن کے لیے جمع ہو جاتے. اچھی چہل پہل رہتی اور بہت خوشگوار وقت گزرتا. ہم دونوں نانا نانی بن چکے تھے. زندگی پیار کی چاشنی سے لبریز تھی.

مجھے ریٹائرڈ ہوئے ایک ہی سال ہوا تھا اور میں نے محسوس کیا کہ ان دنوں عاتکہ کی طبیعت کچھ گری گری سی تھی. وہ جلدی تھک جاتی تھی اور تھوڑا سا چل کر ہانپ جاتی تھی. ڈاکٹر کو دکھایا اور ڈاکٹر نے ٹیسٹ کی ایک لمبی فہرست لکھ دی. پھر جو نتیجہ آیا اس نے ہمارے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی. یہ تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا. انسان اپنے مستقبل کی منصوبہ بندیوں میں بیماری اور موت کو بھلا کب شامل کر تا ہے؟
وہ انہونی کب سوچتا ہے؟

عاتکہ کو پھیپھڑے کا سرطان تھا اور وہ بھی لاسٹ اسٹیج پر۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ نہ اسے کبھی کھانسی ہوئی نہ سانس لینے میں تکلیف اور ایک دم سے اسٹیج فور۔۔۔ تینوں بچیاں کیلگری آ گئی. میری تو جان پر بن آئی تھی . عاتکہ کا وقت گھر میں کم اور ہسپتال میں زیادہ گزرتا. میں پل پل اس کے ساتھ تھا اور تل تل مرتا تھا. اس کو سانس لینے کے لیے ہلکان ہوتے دیکھ کر میری اپنی سانسیں رک رک جاتیں. اس کی تکلیف میرے لیے ناقابل برداشت تھی مگر میرے پاس اس کی تکلیف اور دکھوں کا مداوا نہیں تھا. اس رحمان و جلیل کو بہت پکارا ، عاتکہ کی صحت اور زندگی کے لیے بہت بہت گڑگڑایا مگر مہلت ختم ہو چکی تھی. ڈاکٹروں نے علاج سے معذوری کا اظہار کر کے عاتکہ کو ہوسپس میں داخل کرنے کا مشورہ دیا تو میں اپنی محبت کو اپنی جنت لے آیا. گھر پر آمنہ نے عاتکہ کے لیے ہر ممکن آسانی اور آرام کا انتظام کر دیا تھا اور میری چاروں بچیاں اپنا اپنا گھر بار چھوڑ کر ماں کی پٹی سے لگ کر بیٹھ گئی تھیں . بےشک میرے داماد قابل قدر تھے جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں اپنی بیویوں کے جزبات کو سمجھا اور اپنے اپنے گھروں اور بچوں کو احسن طریقے سے سنبھالا.

اب کہنے سننے کو کچھ نہیں رہ گیا تھا. میں عاتکہ کا سرد ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر اکثر ماضی کے قصے دہراتا اور اسے یقین دہانی کراتا کہ وہاں وہ اکیلی نہیں ہو گی میں بھی ساتھ ہوں گا. ایک دفعہ سعدیہ نے میری عاتکہ سے کی گئی یہ سرگوشی سن لی اور وہ بہت روئی اور ناراض ہوئی کہ آپ کو ہم لوگوں کا کوئی خیال نہیں؟
آپ بہت خود غرض ہیں پاپا.
میں کیا کہتا خاموش رہا کہ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا. میرے لیے عاتکہ کے بغیر جینے کا تصور ہی محال تھا کہ اس کے بغیر زندگی کا کوئی جواز بھی تو نہیں۔ پھر ایک اداس شام جھڑتے پتوں کے ساتھ ساری آس اور دعائیں دم توڑ گئی.
عاتکہ چلی گئی.
تدفین کے بعد سعدیہ مجھے اپنے گھر لے آئی. چھٹے دن باقی بچیاں اپنے گھروں کو روانہ ہوگئی کہ پچھلے دو ماہ سے سب اپنے اپنے گھروں سے لا تعلق تھیں. میں روز صبح اشراق کی نماز کے بعد قبرستان آ جاتا ہوں اور مغرب پڑھ کر سعدیہ کے گھر جاتا ہوں مگر اب میں بےچین ہو گیا ہوں مجھے اپنے گھر وآپس جانا ہے. میرا اپنا گھر جہاں عاتکہ کی خوشبو ہے اور جہاں میں اسے محسوس کر سکتا ہوں. آج میں سعدیہ سے اجازت لیکر اپنے گھر چلا جاؤں گا.

میں نے عاتکہ کی قبر کے ساتھ والی قطعہ اراضی اپنی قبرکے لیے بک کروا لی ہے. دیکھیے کب تک لیز کے کاغذات آتے ہیں. میں نے سعدیہ کا ٹیلی فون نمبر دیا ہے کہ میں آج کل فون نہیں اٹھاتا. بچیوں سے بھی کہہ دیا ہے کہ میری خیر خبر سعدیہ سے پوچھ لیا کریں. وہ روز صبح سویرے اور رات کو پابندی سے چکر لگاتی ہے. میں سارا دن قبرستان میں اور رات لیونگ روم میں گزارتا ہوں. بےچینی ایسی ہے جیسے مچھلی کو پانی سے نکال کر تپتی ریت پر ڈال دیا گیا ہو. میرا سعدیہ سے روز یہی سوال ہوتا ہے کہ جواب آیا لیز کا؟
قبر کا قطعہ میرے نام الاٹ ہوا؟
آج میں قبرستان سے واپس آیا تو فون کے میسج کی لائٹ بلنکblink کر رہی تھی. سعدیہ کا پیغام تھا اور اس نے بتایا کہ قطعہ اراضی میرے نام الاٹ ہو گئی ہے.
آہ! دس دنوں کے بعد ایک اچھی خبر ملی. مجھے یقین ہے کہ عاتکہ سے یہ دوری جلدی ختم ہو جائے گی.
۔۔۔۔۔۔۔

آج فجر سے ہی مجھے عجیب سی گھبراہٹ محسوس ہو رہی تھی. میں نیند میں بھی بے آرام تھی سو میں نے سہیل سے کہا کہ میں آج پاپا کی طرف زرا سویرے ہی چلی جاتی ہوں. جانے کیوں دل بہت بےچین ہے.
ارے!!! آج پاپا لاؤنج کے بجائے بیڈروم میں سو رہے ہیں؟
میں نے بیڈروم کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ان کو دیکھا مگر آواز نہیں دی کہ کہیں ان کی نیند نہ خراب ہوجائے. ان کے چہرے پر بہت سکون تھا اور سینے پر ان کی شادی کی تصویر کا فریم اوندھا پڑا ہوا تھا. ان کو غور سے دیکھنے پر مجھے خوف محسوس ہوا کیونکہ دور سے مجھے ان کی سانسوں کا زیر و بم محسوس نہیں ہو رہا تھا. میرے پیر میرا بوجھ سہارنے سے انکاری تھے. میں نے بہت ہمت کی اور اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے بستر کے قریب جا کر پاپا کو دیکھا اور میرے بدترین خدشہ صحیح ثابت ہو گیا .
ان کا انتظار تمام ہوا تھا اور وہ اپنی محبت کے پاس جا چکے تھے.

دیکھا!! پاپا نے پھر ہم لوگوں پر امی کو فوقیت دے دی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close