یہ 11 ستمبر 2012ع کی بات ہے، جب سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں ایک ہولناک سانحہ رونما ہوا
علی انٹرپرائزز نامی ڈینم فیکٹری میں بھڑکنے والی آگ میں جھلس کر دو سو ساٹھ مزدور ہلاک اور پچاس سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کو دس سال ہو چکے ہیں جبکہ اس مقدمے میں سزا یافتہ ملزمان کی اپیلیں اکیس ماہ سے زیرِ سماعت ہیں
یاد رہے کہ واقعے کے آٹھ سال بعد 2020 میں عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں، بلکہ لگائی گئی تھی
ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایم کیو ایم کی کراچی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کے حکم پر بھتے کی ادائیگی نہ ہونے پر فیکٹری میں آگ لگائی، مقدمے میں چار سو گواہوں سمیت تمام فرانزک ثبوت بھی پیش کیے گئے
آگ لگی کیسے تھی؟
جے آئی ٹی کو اپنے بیان میں فیکٹری کے اکاؤنٹنٹ نے بتایا تھا کہ اس روز رات کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب انہیں دفتر سے ایک فائل لانے کے لیے کہا گیا جو گودام کے پاس واقع تھا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے ایک عجیب سی بُو محسوس کی۔ وہ دفتر سے باہر آئے تو انہوں نے آگ کو لگتے اور پلک جھپکنے میں شعلے بلند ہوتے دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تپش کی وجہ سے اس جگہ کھڑا ہونا ممکن نہیں تھا۔ وہ چیختے ہوئے وہاں سے بھاگے۔ اسی دوران مین سوئچ آف کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ شارٹ سرکٹ سے بچا جا سکے
پروڈکشن منیجر کے مطابق اکاؤنٹنٹ کے چیخنے پر جب وہ دفتر سے باہر آئے تو آگ پھیل چکی تھی۔ اکاؤنٹنٹ کو انہوں نے فائر بریگیڈ لانے کے لیے بھجوایا، جو ڈیڑھ گھنٹے بعد بھی نہیں پہنچی
ملزم زبیر عرف چریا، جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق آگ لگانے والوں میں شامل تھا۔ پروڈکشن منیجر کے مطابق زبیر فیکٹری کا ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کا کارکن بھی تھا اور فیکٹری میں اس کا کافی اثر و رسوخ تھا
رپورٹ کے مطابق جس دن فیکٹری میں آگ لگی زبیر عرف چریا پانچ افراد کے ساتھ گودام کے دروازے پر موجود تھا۔ وہ لوگ ’چرس سے سگریٹ‘ بنا رہے تھے۔ وہیں اس نے کالے رنگ کے چھوٹے شاپنگ بیگ اپنے ساتھیوں کو دیے اور سب نے گودام کے اندر الگ الگ جگہوں پر یہ شاپنگ بیگ پھینک دیے۔ پانچ سے دس سیکنڈ میں آگ نے فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا
جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق پندرہ سے بیس ملازمین نے آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن آگ قابو سے باہر ہو چکی تھی۔ جب آگ دوسری منزل تک پہنچنے لگی تو مالکان کو یہ کہتے سُنا گیا کہ سامان نہ بچائیں، لوگوں کو بچائیں
فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد زخمیوں کے ابتدائی بیان میں یہ بات سامنے آئی کہ چھت پر جانے یا باہر نکلنے کے راستے بند تھے اور یہ کہ فیکٹری کی پہلی منزل پر موجود مچان کے گرنے سے زیادہ اموات پیش آئیں، نہ کہ آگ لگنے کی وجہ سے
2020 میں ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ریٹائرڈ فائر آفیسر تعلیم شاہ نے بتایا کہ عام طور پر آگ نیچے سے اوپر جاتی ہے، لیکن فیکٹری کے بیسمنٹ میں آگ بعد میں لگی۔ تعلیم شاہ نے کہا کہ عمارت کی چھت کا دروازہ لاک تھا، جس کی وجہ سے لوگ باہر نہ آ سکے اور آگ بجھانے کے لیے فائربریگیڈ کی گاڑی آتے ہی خراب ہو گئی۔ ریٹائرڈ فائر آفیسر کے مطابق فیکٹری میں لگنے والی آگ کی اطلاع کسی نے نہیں دی اور فائربریگیڈ کئی گھنٹے تاخیر کے بعد آگ بجھانے پہنچی تھی
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سیڑھی لگا کر پچاس سے زائد افراد کو فیکٹری سے باہر نکالا گیا جبکہ کئی ملازمین عمارت کی کھڑکیوں سے نیچے کود گئے
ایف آئی آر درج ہوئی تو اس کا متن یہ تھا کہ آگ حادثاتی طور پر لگی ہے، لیکن لوگ فیکٹری میں حفاظتی سہولیات نہ ہونے کے باعث مارے گئے۔ بلڈنگ کا ڈھانچہ فیکٹری کے کام کے لیے مناسب نہیں تھا کیونکہ اس میں حادثے کی صورت میں باہر بھاگنے کے راستے نہیں تھےـ ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی کہ آگ بروقت نہ بجھائے جانے کی وجہ سے زخمی افراد فیکٹری سے باہر نہ نکل سکے اور دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے
اس کے برعکس، مارچ 2016ع میں جے آئی ٹی کے متن کے مطابق آگ اگر حادثاتی ہوتی تو ایک ساتھ پوری عمارت میں نہ پھیلتی۔ آگ الگ الگ جگہوں پر لگی جن میں تہہ خانہ اور گراؤنڈ فلور شامل تھے اور شارٹ سرکٹ جو کے۔ الیکٹرک کے ابتدائی بیان کے مطابق پہلی منزل پر ہوا تھا، اس کا کوئی ثبوت نہیں پایا گیا
آگ لگانے کی وجہ بھتے کی عدم ادائیگی
آگ لگانے کی اہم وجہ ایم کیو ایم کی طرف سے فیکٹری مالکان سے مانگا گیا بیس کروڑ روپے کا بھتہ تھا۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے حماد صدیقی نے بھتہ نہ دینے پر رحمٰن عرف بھولا کو مبینہ طور پر آگ لگانے کا حکم دیا
2015ع میں ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے دبئی میں جا کر فیکٹری مالکان سے تفتیش کی جنہوں نے اقرار کیا کہ ان سے بھتہ مانگا گیا تھا
2016 دسمبر کو عبدالرحمٰن عرف بھولا کو بینکاک سے گرفتار کیا گیا۔ مقدمہ پہلے سٹی کورٹ میں چلا پھر سپریم کورٹ کی ہدایات پر کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوئی
جنوری 2019 میں عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا فیکٹری میں آگ لگانے کے بیان سے مکر گئے تھے۔ 2 ستمبر 2020 کو گواہان کے بیانات اور وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مقدمہ کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو بعد ازاں سامنے آیا تو عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی اور دو مرکزی ملزمان عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو سزائے موت سنائی گئی
تفصیلی فیصلہ
2020ع میں عدالت نے اپنے فیصلے میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما رؤف صدیقی سمیت چار افراد کو عدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا۔ بری ہونے والے دیگر تین افراد میں ادیب خانم، علی حسن قادری اور عبدالستار شامل تھے
دوسری جانب عدالت نے واقعے میں سہولت کاری کے جرم میں چار ملزمان فضل احمد، علی محمد، ارشد محمود اور فیکٹری منیجر شاہ رخ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی
عدالت کے تحریری حکم نامے کے تحت ملزمان عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو انسداد دہشت گردی کے قانون کی شق 384، 385، 386، 435، 436، 302، 324 اور 34 پی پی سی کی سیکشن سات (ایچ)، سات (اے)، سات (بی) اور سات (سی) کے مطابق یہ سزائیں سنائی گئی تھیں
۔ 264 افراد کے قتل میں 264 مرتبہ سزائے موت اور دو، دو لاکھ روپے جرمانہ
۔ فیکٹری کے اندر ملازمین کی جان خطرے میں ڈالنے اور ان کے قتل میں عمر قید کی سزا اور دو، دو لاکھ روپے جرمانہ
۔ 60 افراد کے قتلِ عمد کی کوشش کے جرم میں 10،10 سال قید اور ایک، ایک لاکھ روپے جرمانہ
۔ 60 افراد کو زخمی کرنے کے جرم میں عمر قید اور دو، دو لاکھ روپے جرمانہ
۔ واردات کے وقت فیکٹری کے قریب موجود عوام اور اندر موجود فیکٹری مالکان اور ملازمین کی جان خطرے میں ڈالنے کے جرم میں عمر قید اور ایک، ایک لاکھ روپے جرمانہ
۔ نجی فیکٹری کو نقصان پہنچانے کے جرم میں عمر قید اور دو، دو لاکھ روپے جرمانہ
۔ بھتہ خوری کرنے کے جرم میں تین، تین سال قید اور ایک، ایک لاکھ روپے جرمانہ
۔ بھتے کے لیے فیکٹری مالکان کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے اور قتل کی دھمکی دینے کے جرم میں 13،13 سال قید اور ڈیڑھ، ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ
فیصلے میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کے دیگر ملزمان شاہ رخ لطیف، علی محمد، ارشد محمود اور فضل احمد کو انسداد دہشت گردی قانون کی شق 21 آئی اور پی پی سی کی سیکشن 109 کے تحت مرکزی ملزمان عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کی سہولت کاری کرنے، 246 افراد کے قتل اور 60 افراد کو زخمی کرنے کے جرم میں ہر ملزم کو دو، دو بار عمرقید اور تین، تین لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی گئی اور مفرور ملزم حماد صدیقی اور علی حسن قادری کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا بھی حکم دیا گیا
ملزمان اب کہاں ہیں؟
مرکزی ملزمان عبدالرحمٰن بھولا اور زبیر چریا پولیس کی تحویل میں ہے۔ سزا کے خلاف اکیس ماہ سے ان کی اپیل سندھ ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ سندھ حکومت نے کیس میں نامزد سابق صوبائی وزیر رؤف صدیقی سمیت چار ملزمان کی بریّت کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے
فیصلے کے خلاف عبدالرحمٰن بھولا اور زبیر چریا کی اپیلیں جب سندھ ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں تو اس وقت دو ججز نے چار ملزمان کی بریت کے خلاف اپیلیں دائر نہ کرنے کے خلاف پراسیکیوشن پر ناراضگی کا اظہار کیا، جس کے بعد اس فیصلے کو سندھ حکومت کی جانب سے چیلنج کیا گیا
اپیلوں پر آخری بار سماعت 26 اگست 2022 کو ہوئی تھی جو بغیر کارروائی کے چھ ہفتے کے لیے ملتوی کر دی گئی تھی۔