بالائی سندھ میں بدامنی کے خلاف کارروائی میں سستی پر مظاہرین کا اظہارِ مایوسی!

ویب ڈیسک

تاجروں اور اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے بچوں کے اغوا پر بالائی سندھ کی ہندو برادری کا احتجاج جاری ہے، جبکہ مغویوں میں سے دو کو گزشتہ روز کی شام اغوا کاروں نے رہا کر دیا

رپورٹس کے مطابق پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے کشمور سے اغوا کئے گئے تین مغویوں کو بازیاب کرایا ہے، بازیاب مغویوں میں مکھی جگدیش، جئے دیو اور ڈاکٹر منیر نائچ شامل ہیں

کشمور میں مغویوں کی بازیابی کے لئے چار روز سے جاری دھرنے کے دباؤ کے باعث پولیس حرکت میں آئی ہے اور کچے کے علاقےمیں پولیس نے کارروائی کی، کارروائی کے دوران تین مغویوں کو بازیاب کرا لیا ہے

تاہم مظاہرین ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی سے مطمئن نظر نہیں آتے اور کشمور میں کچے کے ڈاکوؤں سے تنگ شہریوں کا قومی شاہراہ پر دھرنا جاری ہے، حیدرآباد میں قاسم آباد بائی پاس پر بھی دھرنا دے دیا گیا

رپورٹ کے مطابق یہ احتجاج کشمور کے ’ڈیرہ موڑ‘ پر منعقد کیا جا رہا ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں

قبل ازیں کشمور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مہر چند نے بتایا کہ تین ہندوؤں سمیت پانچ افراد اغواکاروں کی قید میں ہیں، ان میں ڈاکٹر منیر نائچ، مکھی جگدیش، جے دیپ، ساگر کمار اور مشتاق علی ممدانی شامل ہیں

ڈاکٹر مہر چند، جو سندھ میں پیپلزپارٹی کے اقلیتی ونگ کے سینئر نائب صدر ہیں، نے انکشاف کیا کہ تین لاپتا لڑکیوں (نازیہ، پریا کماری اور کسور کھوسو) کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں ہے

ایس ایس پی امجد شیخ نے کہا کہ پولیس نے مغویوں کے ساتھ پولیس مقابلے کے دوران مکھی جگدیش اور جے دیپ کو بازیاب کرا لیا ہے، پولیس ذرائع نے بتایا کہ دونوں بازیاب افراد کو مزاری ہاؤس لایا گیا ہے

تاہم ڈاکٹر مہر چند نے کہا کہ وہ مکھی جگدیش اور جے دیپ سے نہیں ملے اور ان کی صحت یابی کی اطلاعات کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

کشمور میں احتجاج گزشتہ روز مسلسل چوتھے دن بھی جاری رہا، کشمور، کندھ کوٹ، بڈانی، کرم پور اور غوث پور میں تاجروں نے اپنے کاروبار اور دکانیں بند رکھیں

قوم پرست جماعتوں کی طرح جے یو آئی (ف) کی صوبائی قیادت نے بھی احتجاج کی حمایت کی، تاہم ہندو برادری کے ایک رہنما نے افسوس کا اظہار کیا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی دھارے میں سے کوئی بھی ان کے احتجاج میں شامل نہیں ہوا

اغوا کے واقعات کے خلاف جامشورو ٹاؤن میں بھی اقلیتی برادری نے احتجاجی مظاہرہ کیا، ریلی میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے حامیوں نے بھی شرکت کی

ڈاکٹر مہر چند نے کہا کہ ہم بالائی سندھ میں تقریباً ہر روز ہونے والی اغوا کی وارداتوں سے تنگ آچکے ہیں، ہر کوئی ہم سے احتجاج ختم کرنے کے لیے کہہ رہا ہے

انہوں نے نشاندہی کی کہ ایس ایس پی امجد شیخ نے چند روز میں مغویوں کی بازیابی کا وعدہ کیا تھا اور ہم اس وعدے کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں

ڈاکٹر مہر چند نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران تقریباً چالیس افراد کو اغوا کیا جا چکا ہے، کچھ افراد کو ڈاکوؤں نے چھوڑ دیا جبکہ دیگر تاوان کی ادائیگی کے بعد گھر پہنچے

ایس ایس پی امجد شیخ نے مظاہرین سے صرف چوبیس گھنٹے سڑک کھولنے کی درخواست کی کیونکہ کئی مسافر پھنسے ہوئے ہیں اور ٹرکوں میں لدی چیزیں موصول کرنے کے لیے دوسرے علاقوں کے لوگ منتظر ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم مغویوں کی جلد از جلد بازیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں

ایس ایس پی نے نشاندہی کی کہ سکھر سے پریا کماری کا کیس دو سال پرانا ہے، بظاہر یہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا

انہوں نے امید ظاہر کی کہ نازیہ کھوسو اور ان کی بیٹی کا معاملہ بھنگوار اور کھوسو برادریوں کے درمیان نجی تنازع سے جڑا ہے اور اسے جلد ہی حل کر لیا جائے گا

نگران وزیر داخلہ حارث نواز نے اتوار کو ٹھٹہ میں صحافیوں کو بتایا کہ جیکب آباد اور شکارپور کے دریائی علاقے میں آپریشن شروع کرنے کے لیے ایک پلان کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور ہم اسے نتیجہ خیز بنانے کا وعدہ کرتے ہیں

مظاہرین نے مغویوں کی عدم بازیابی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی کچے کے علاقے میں فوجی آپریشن کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ مغویوں کی بازیابی کےلیے دیے گئے دھرنوں کی حمایت میں نوابشاہ اور نوشہروفیروز میں بھی احتجاج کیا گیا

چوبیس سالہ مغوی ساگر کمار کے بھائی راج کمار نے بتایا کہ ان کے بھائی کو مسلح افراد نے نو اگست کو اس وقت اغوا کیا تھا، جب وہ قریبی ہوٹل میں رات کا کھانا کھا رہا تھا

انہوں نے بتایا کہ اغوا کار موٹر سائیکلوں پر آئے تھے، جن کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں تھیں۔ انہوں نے میرے بھائی کو بھرے بازار میں باآسانی اغوا کیا اور لے کر شہر سے نکل گئے جب کہ ہر جگہ یہاں پولیس کی چیک پوسٹس موجود ہیں

ساگر کمار کا کہنا تھا کہ اغوا کاروں نے بھائی کی رہائی کے عوض دس کروڑ روپے کا تاوان طلب کیا جا رہا ہے۔ جب کہ وہ اور ان کا بھائی ڈرائی فروٹس کی دکان چلاتے ہیں اور بہت ہی محدود آمدن رکھتے ہیں

انہوں نے کہا کہ پولیس نہ صرف اب تک مغوی کو بازیاب کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ الزام عائد کیا کہ پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کی

یاد رہے کہ اتوار کو کراچی میں بھی سینکڑوں شہریوں نے مغوی افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کیا تھا اور ان کی بحفاظت واپسی کا مطالبہ کیا

مظاہرین اور شرکا کا کہنا تھا کہ کشمور، کندھ کوٹ، شکار پور اور ملحقہ علاقوں میں اغوا برائے تاوان خاص طور پر مذہبی اقلیتوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں

نگراں وزیر داخلہ سندھ بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے مظاہرے کے شرکا کو یقین دلایا کہ یرغمالیوں کو بہت جلد بازیاب کرا لیا جائے گا اور وہ جلد ہی اپنے گھروں کو واپس آجائیں گے

انہوں نے کہا کہ پولیس ڈاکوؤں کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے۔ دھرنے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ جن لوگوں کی رہائی کے لیے تاوان ان کے خاندانوں نے ادا کیا، ریاست انہیں یہ رقم بھی لوٹائے گی

کندھ کوٹ سے صحافی میر علی اکبر بھنگوار نے بتایا کہ ایس ایس پی ضلع کشمور امجد احمد شیخ نے کشمور میں دھرنے پر بیٹھے مظاہرین سے بھی ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ اغوا کاروں کی بحفاظت بازیابی کے لیے دریائی پٹی میں پولیس آپریشن جاری ہے۔

دوسری جانب مغویوں کی بازیابی کے لیے ڈاکوؤں کی جانب سے کروڑوں روپے تاوان طلب کیا گیا ہے اور تاوان ادا نہ کیے جانے پر مغویوں کے اہلِ خانہ کو ان کی جان کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں

شمالی سندھ کے آٹھ اضلاع میں دریائی بیلٹ کے دور دراز علاقوں کو اغوا کاروں، ڈاکوؤں اور اسلحے کی غیر قانونی تجارت کی جنت تصور کیا جاتا ہے

ان علاقوں میں پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کنٹرول بہت کم ہے اور یہاں نہ صرف سندھ بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے لوگوں کو اغوا کر کے رکھا جاتا ہے اور پھر ڈاکو تاوان کے عوض لوگوں کو چھوڑتے ہیں

پولیس اور رینجرز کی ماضی میں متعدد کارروائیوں کے باوجود علاقے کو جرائم پیشہ افراد سے پاک نہیں کیا جا سکا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انفراسٹرکچر اور وسائل کی کمی کے ساتھ جرائم پیشہ عناصر کی سیاسی اور پولیس میں موجود عناصر کی جانب سے پشت پناہی کے باعث یہاں ماضی میں کیے گئے آپریشنز ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

سندھ حکومت اور خود پولیس بھی اس بات کا اعتراف کرتی آئی ہے کہ صوبے کے دریائی علاقوں جسے کچے کے علاقے بھی کہا جاتا ہے کے ڈاکو ان کے لیے ایک چیلنج بن چکے ہیں اور ان کے تدارک کے لیے کیے گئے آپریشنز میں کئی پولیس اہل کار بھی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close