ایک غلام سے ملاقات

یاسر پیرزادہ

کل اتفاقاً میری ملاقات ایک غلام سے ہو گئی۔ وہ اپنی لیمبرگینی پارک کر کے کلب میں داخل ہو رہا تھا جبکہ میں کلب کی بیکری سے ڈبل روٹی خرید کر نکل رہا تھا کہ پارکنگ میں ہماری مُڈھ بھیڑ ہو گئی

چھوٹتے ہی اس نے اپنی غلامی کا راگ الاپنا شروع کر دیا، اس سے پہلے کہ وہ وہیں زار و قطار رونا شروع کر دیتا میں نے اسے کافی کی دعوت دی جو اس نے فوراً قبول کر لی۔ ہم کلب کے کیفے میں بیٹھ گئے۔ کافی لانے والے بیرے کو اس نے ’ویرونا‘ کے روسٹڈ بینز کی کافی لانے کو کہا۔ بیرا بیچارہ اس کا منہ تکنے لگا

جواب میں غلام نے بیرے سے بھی زیادہ برا منہ بنایا اور بڑبڑانے لگا کہ نہ جانے میں کس قسم کے جاہلوں میں پھنس گیا ہوں، امریکہ میں ہمیشہ یہی کافی پیتا تھا اور یہاں کسی کو ’روسٹڈ بینز‘ کہہ دو تو ہونقوں کی طرح شکل دیکھنے لگ جاتا ہے، کافی بنانے کی تمیز ہی نہیں

’جاؤ جا کر سادہ کافی ہی لے آؤ،‘ غلام نے بیرے کو ڈانٹ کر کہا

میں نے غلام کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ’یہاں اس قسم کے چونچلے نہیں ہوتے، ہم ایک غریب ملک ہیں، یہاں کے لوگ بھی زیادہ پڑھے لکھے نہیں، انہیں کیا پتہ کہ روسٹڈ بینز کی کافی کیسے بنائی جاتی ہے‘

اس پر اس مرد باکمال نے جواب دیا کہ ’یہی تو غلامانہ ذہنیت ہے جس سے ہمیں چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے‘

پھر ہماری اس گفتگو کا آغاز ہوا جو اگلے ایک گھنٹے تک جاری رہی، بلکہ اسے گفتگو کہنا مناسب نہیں ہو گا، یوں سمجھیے کہ غلام بولتا رہا اور میں اس کی باتوں پر سر ہلاتا رہا

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں ایک اچھے خاصے معقول آدمی کو بار بار غلام لکھ کر اس کی توہین کیوں کر رہا ہوں

تو گزارش یہ ہے کہ میں نے اسے یہ لقب نہیں دیا۔ اس سے پہلے جتنی مرتبہ بھی ہماری ملاقات ہوئی اس میں موصوف نے بار بار یہی کہا کہ وہ غلام ہے اور اسے غلامی سے نجات چاہیے

اس ملاقات میں بھی یہی موضوع زیر بحث رہا۔ جب اس نے غلامی کی کچھ زیادہ ہی تکرار کی تو میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ وہ یہاں کی غلامی چھوڑ کر کسی مغربی ملک کی شہریت کیوں نہیں لے لیتا؟

اس پر اس نے مجھے یوں دیکھا جیسے میں مریخ سے آیا ہوں۔ ’تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اب تک سبز پاسپورٹ پر ہی سفر کرتا ہوں۔ میرے پاس برٹش پاسپورٹ ہے‘

یہ جملہ اس نے یوں کہا جیسے فلم دیوار میں ششی کپور نے امیتابھ بچن کو جواب دیا تھا کہ ’میرے پاس ماں ہے۔‘ اس جواب پر مجھے اپنی حماقت اور غربت دونوں پر افسوس ہوا

غلام نے مجھے بتایا کہ کینیڈا میں اس کی کچھ جائیداد ہے جو اس نے بچوں کے نام کر دی ہے، بچے وہاں گھر تعمیر کر کے فروخت کرتے ہیں جس سے، بقول غلام کے، دال دلیہ چل جاتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ پھر وہ بھی بچوں کے پاس ہی کیوں نہیں چلا جاتا؟

اس پر اس کی آواز گلوگیر ہو گئی، قریب تھا کہ وہ رو پڑتا، پاس سے ایک حسینہ گزری جسے دیکھ کر اس نے اپنے رونے کو یوں بریک لگا لی جیسے کوئی منہ بسورتا ہوا بچہ چاکلیٹ کو دیکھ کر اچانک مچلنا شروع کر دیتا ہے

پھر وہ میری طرف متوجہ ہو کر بولا، ’اصل میں تم تو جانتے ہو، اس ملک میں میری جان ہے۔ اس ملک میں تو ہم سب کی جان ہے،‘ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’افوہ، تم غلط سمجھے، میرا مطلب ہے کہ پاکستان میں میری محبوبہ رہتی ہے، وہ میری جان ہے۔‘

’لاحول ولا قوة۔‘

’اس میں لاحول ولا پڑھنے کی کیا بات ہے، محبوبہ ہے، شیطان تو نہیں۔ لیکن تم یہ باتیں چھوڑو اور صرف یہ بتاؤ کہ ہم روس سے سستا تیل کیوں نہیں خریدتے، آخر اس میں کیا رکاوٹ ہے؟‘

غلام اپنے پسندیدہ موضوع پر گویا واپس آ گیا۔ میں نے غلام کو سمجھانے کی کوشش کی کہ روس نے ہم سے سستے تیل کا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ اس پر غلام نے زہریلی سی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے یوں دیکھا جیسے عموماً کوئی اپنے مخالف کو احمق سمجھ کر دیکھتا ہے

’اصل میں ہم لوگوں میں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں، ہم امریکہ اور یورپ کے غلام بن چکے ہیں، ہمیں غلامی کی یہ زنجیریں توڑنی ہوں گی، اپنے فیصلے خود کرنے چاہییں، اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی۔۔۔‘

غلام بولتا جا رہا تھا اور میں اس کی باتوں پر سر ہلا رہا تھا۔ اس کی تقریر میں وقفہ اس وقت آیا جب بیرا کافی لے کر آ گیا، اسے دیکھ ایک مرتبہ پھر غلام کا منہ بن گیا اور اس نے زیر لب بیرے کو انگریزی میں گالی بھی دی اور پھر کافی کی چُسکی لے کر حقارت سے بولا، ’تم لوگ اس گرم مشروب کو کافی کہتے ہو! کبھی ورجینیا آنا، اپنے ہاتھ سے کافی پلاؤں گا، پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ کافی کیا ہوتی ہے۔‘

میں نے پھر ہاں میں سر ہلا دیا۔

’ایک بات تو بتاؤ؟‘ میں نے اس غلام کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

’پوچھو۔‘

’کیا تم واقعی خود کو غلام سمجھتے ہو؟‘

’بالکل، اس میں بھلا کیا شک ہے، پوری قوم ہی غلام ہے۔‘

’پوری قوم کس کی غلام ہے؟ ‘

’امریکہ، برطانیہ، یورپ، مغربی سامراج کی غلام ہے، کیا تمہیں نظر نہیں آتا؟‘ غلام نے قدرے چِڑ کر کہا۔

’ہاں، نظر آتا ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی نظر آتا ہے کہ تم لوگ غلامی اور غیرت کا ڈھول اس لیے پیٹ رہے ہو کیونکہ دل میں تم جانتے ہو کہ اس قوم کے اصل مجرم تم ہو، تمہیں بس اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے ایک نعرے کی ضرورت ہے اور یہ نعرہ لگا کر تم اپنے تمام جرائم اور گناہوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہو، تمہاری رعونت کا یہ عالم ہے کہ کروڑوں روپوں کی گاڑیوں میں گھومتے ہو، مغربی ممالک کی شہریت رکھتے ہو، جائیدادیں بناتے ہو اور یہاں کے غریبوں اور محنت کشوں سے جانوروں کی طرح پیش آتے ہو، اور جب رات کو تمہارا ضمیر کچوکے لگاتا ہے تو اسے سمجھاتے ہو کہ تم تو دراصل غلامی سے نجات کی جنگ لڑ رہے ہو، تم غلام نہیں آقا ہو کیونکہ اگر تم سچ مچ کے غلام ہوتے تو کسی جلیانوالہ باغ میں انگریز فوجی کی گولی کا نشانہ بن چکے ہوتے۔‘

میری زہر آلود باتوں کے جواب اس نام نہاد غلام نے کچھ بولنا چاہا مگر میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔

بیرا بل لے آیا تھا۔ میں نے بِل ادا کیا اور غلام کو کلب میں چھوڑ کرباہر نکل آیا۔ سنا ہے وہ غلام آج کل گرمیاں گزارنے کینیڈا گیا ہوا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

بشکریہ: انڈیپینڈنٹ اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close