گذشتہ ہفتے بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت کے رہنما نے ملک بھر میں لانگ مارچ کا آغاز کیا ہے
’بھارت جوڑو‘ کے عنوان سے شروع ہونے والے اس لانگ مارچ کے سفر میں راہل گاندھی کے ہمراہ کانگریس کے ایک سو ممبران شریک ہیں
یہ لانگ مارچ پانچ ماہ تک جاری رہے گا اور ملک کی 12 ریاستوں کے 3570 کلومیٹر کے علاقے سے گزرے گا
یہ لانگ مارچ لائیو اسٹریمنگ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے اور اس دوران اپنا پیغام دینے کے لیے یہ سیاسی جماعت گانے بھی چلائے گی
’بھارت جوڑو مارچ‘ کا بنیادی مقصد وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے جارحیت پر مبنی انتہا پسندانہ نظریات کی ترویج کو روکنا ہے
کانگریس رہنما ششی تھرور کا کہنا ہے ”ہم آئین میں بھارت کے نظریہ دفاع کی بقا کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں“
وہ کہتے ہیں ”مارچ کا پیغام یہ ہے کہ ہم ایک جماعت ہیں اور ہم بھارت کو متحد کر سکتے ہیں اور اس کے مذہب، نسل اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے کے عمل کو روک سکتے ہیں جس کی ترویج حکمران جماعت کر رہی ہے“
کانگرس کے ایک اور لیڈر جے رام رمیش کہتے ہیں ”ہم لوگوں کو سننے جا رہے ہیں، انہیں بھاشن دینے نہیں“
واضح رہے کہ یہ سنہ 2014 میں جب مودی حکومت میں آئے، تب سے کانگریس کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ بی جے پی نے دو بار وفاقی انتخابات میں اسے مسلسل شکست دی اور ریاستی انتخابات میں یہ جماعت 45 میں سے 40 نشتسوں میں ناکام ہوئی۔ اس وقت کانگریس جزوی طور پر دو ریاستوں میں اقتدار میں ہے۔
یہ واضح نہیں کہ کانگریس، جس نے اپنے بہت سے روایتی ووٹرز کو بی جے پی کے ہاتھوں گنوا دیا ہے، ’سیکیولر انڈیا‘ کے وژن کے علاوہ کس کے لیے کھڑی ہے
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کے مارچ ملک بھر میں حکومت کے خلاف ہونے والی تحریک کا مرکز تب ہی بن سکتے ہیں، جب مقبول لیڈر اس کی سربراہی کریں ۔ جبکہ راہل گاندھی کے بارے میں کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ بظاہر ایسے لیڈر کے طور پر دکھائی دیتے ہیں، جو عوام میں آنے کے بارے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں
ابھی بھی اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ راہل گاندھی مقبول لیڈر ہیں: رائے عامہ کے نئے پول کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار لوگوں میں سے فقط نو فیصد نے کہا کہ وہ انہیں نئے وزیراعظم کے عہدے کے لیے ترجیح دیں گے۔ اس کے مقابلے میں مودی کو نیا وزیراعظم دیکھنے کے خواہاں افراد کا تناسب دگنے سے بھی زیادہ تھا
بی جے پی کے قومی نائب صدر بائےجیانت پانڈہ کہتے ہیں ”کوئی بھی عوامی مہم کسی لیڈر کی بنیادی ساکھ کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ دو دہائیوں میں راہل گاندھی نے عوام سے رابطہ نہیں رکھا اور اب ان کی ساکھ نہیں رہی“
کانگریس پر لکھنے والی سیاسی تجزیہ نگار زویا حسن کہتی ہیں ”کانگریس کو امید ہے کہ یہ مارچ گاندھی کے امیج کو بہتر کرنے میں مدد دے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے لانگ مارچ راہل گاندھی کی بطور قومی لیڈر دوبارہ متعارف کروانے کی ایک کوشش ہے“
وہ کہتی ہیں کہ اس کا فوکس لوگوں کو ایک ایسے وقت پر متحد کرنا ہے، جب بھارتی معاشرہ بہت زیادہ تقسیم کا شکار ہو گیا ہے، یہ ایک طاقتور پیغام ہے اور ہر جانب سے اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے“
اگر ماضی قریب میں انڈیا میں ہونے والے لانگ مارچ کا جائزہ لیا جائے تو ان کے نتائج ملے جلے رہے ہیں
سنہ 1983 میں اپوزیشن لیڈر چندرا شیکھر نے چھ ماہ تک چار سو کلومیٹر لمبا مارچ ملک کے طول و عرض میں کیا۔ اس مارچ نے انہیں عام لوگوں کا لیڈر دکھایا
لوگوں نے چھپن سال کے چندرا شیکھر کو ’میراتھن مین‘ کہا، لیکن اس مارچ سے انہیں سیاسی فائدہ نہیں ہوا
اگلے برس کانگریس کو وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہمدردی کے ووٹ کے ذریعے غیر معمولی کامیابی ملی
ایل کے ایڈوانی کے سنہ 1990ع میں کیے جانے والے مارچ نے بھارتی سیاست کو بدل کر رکھ دیا اور اسے انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھا دیا
انہوں نے ایک منی ٹرک، جو بگھی کی مانند لگتا تھا، میں دس ہزار کلومیٹر کا سفر کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ وہ سومناتھ سے ایودھیہ تک گئے۔ انہیں ایودھیہ میں بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کی مہم میں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے بہت حمایت ملی
خیال رہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے بھارت کی تاریخ میں بدترین مذہبی تشدد کے واقعات پیش آئے اور ہندو انتہا پسندی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی
لیکن ایل کے ایڈوانی کی جانب سے مارچ کو شروع کیے ہوئے ابھی بمشکل ایک ماہ ہی گزرا تھا تو ان کو روکا گیا اور ان کے سیاسی مخالف لالو پرساد یادیو جو کہ انڈین ریاست بہار میں حکمران تھے، نے انہیں گرفتار کروایا
لالو پرساد نے کہا ”میں نے یہ اقدام انسانیت کے بچاؤ کے لیے اٹھایا“
ایڈوانی کا یہ مارچ، بی جے پی کی جانب سے ’ثقافتی قومپرستی‘ کے نام پر ہندوتوا نظریات کی ترویج اور مسلم دشمنی کے جذبات کو بھڑکانے کا باعث بنا
یاد رہے سنہ 1930ع میں مہاتما گاندھی نے 380 کلومیٹر کا لانگ مارچ اس وقت کے برطانوی راج کے خلاف کیا تھا۔ انہوں نے یہ مارچ گجرات کے مغربی ساحل کی جانب کیا تھا اور اسے تاریخی لانگ مارچ سمجھا جاتا ہے
اکسٹھ سالہ گاندھی کو راستے میں آنے والے گاؤں کے لوگوں نے کھانا دیا اور ان کی میزبانی کی تھی
لانگ مارچ کو بہت سی علامتوں کی عکاسی کے طور پر بھی لیا جاتا ہے
ماؤزے کا سنہ 1934 کا مارچ ریڈ آرمی کے ساتھ تھا جو کہ 8000 سے 86000 میل لمبا تھا۔ ماؤ نے اسے نئے چین کی بنیاد کی علامت قرار دیا
لیکن بی جے پی رہنما پانڈا کہتے ہیں کہ عوام تک پیغام رسائی کے نئے طریقوں اور سوشل میڈیا اور دیگر طرح کے عوامی اجتماعات غلبہ ہے، ایسے میں لانگ مارچ تب ہی کامیاب ہوتے ہیں، جب لیڈر عوام سے جڑے ہوں اور ان کی ایک ساکھ ہو
کانگریس رہنما تھرور کہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہے کہ کیا لانگ مارچ راہل گاندھی کی پارٹی کو دوبارہ کھڑا ہونے میں مدد کر سکتا ہے یا یہ سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے
انہوں نے کہا ’مارچ کے ختم ہونے کے بعد بھارتی ریاست کی جدوجہد رک نہیں جائے گی‘
اشوکا یونیورسٹی میں ماحولیات اور تاریخ کے شعبے سے منسلک پروفیسر مہیش رانگا راجن سمجھتے ہیں کہ اس کا زیادہ تر انحصار گاندھی کے پیغام پر ہوگا
وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ حمایت یا مخالفت کس کی توقع کر رہے ہیں؟ یہ مارچ آپ کو کیسے سیاست کے مرکز میں لا سکتا ہے؟
رائے عامہ کا جائزہ لینے والوں میں شامل یشونت دیش مکھ کہتے ہیں ”ایک حیران کن بات سامنے آئی ہے کہ حالیہ جائزوں کے مطابق 35 فیصد افراد کی جانب سے یہ کہنے کے باوجود کہ ان کی معاشی حالت مودی کے دورِ حکومت میں خراب ہوئی ہے، وزیراعظم مودی اب بھی رائے عامہ کے جائزوں میں سب سے اوپر ہیں“
انہوں نے کہا ”آپ مودی پر ووٹرز کے اعتماد اور ان کی ناقابل یقین مقبولیت کو دیکھیں جو ’کبھی کبھی‘ منطق کو نظر انداز کرتا ہے“
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ راہل گاندھی کا کام بہت مشکل ہے
رانگا راجن کا کہنا ہے ”لوگ شاید مشکل وقت سے گزر رہے ہوں لیکن کیا لوگوں کو یقین ہے کہ حکومت اس کی ذمہ دار ہے؟ کیا وہ موجودہ حکمراں جماعت سے اتنے غیر مطمئن ہیں کہ ایک اور سیاسی جماعت کو موقع دینا چاہتے ہیں؟
بہرحال یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ راہل گاندھی بھارتی سیاست کی موجودہ دھارا کو کتنا تبدیل کر پاتے ہیں