بلوچستان کا ’دشت‘ تالابوں کی سرزمین میں کیسے بدلا؟

ویب ڈیسک

یہ بلوچستان میں واقع دشت کا علاقہ ہے لیکن حالیہ تباہ کن بارشوں میں یہ کسی ’دشت‘ کی طرح بنجر یا صحرا سا نہیں لگ رہا تھا کیونکہ چاروں جانب گہرے پانی کے درجنوں تالاب تھے

ان تالابوں کے بیچ کہیں پگڈنڈیاں تھیں جو اِسی پانی میں پھسلتی جاتی تھیں اور کہیں پلستر کے بغیر پختہ دیواروں کا کچھ حصہ پانی کی سطح پر دکھائی دے رہا تھا

کبھی کبھار سکوت اور خاموشی کے اس ماحول میں ایک پہیے والی ریڑھی کی آواز گونجنے لگتی، جس پر گدلے پانی کے تین، چار گیلن رکھے اور بچہ بٹھائے کوئی سیلاب زدہ شخص ننگے پاؤں اسے میلوں دور بنے خیموں کی طرف گھسیٹ رہا ہوتا

ان تالابوں کے عقب میں لگ بھگ ڈیڑھ سو بھٹے تھے، جہاں چند ہفتے پہلے تک دہکتی آگ میں پختہ اینٹیں تیار ہوتی تھیں اور ان ہی سے ملحق کچے گھروں میں کھانا پکتا تھا

اب اینٹوں کے یہ بھٹے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اور ان کے سائے تلے بنی بستیاں ڈوب چکی ہیں

بلوچستان کا یہ علاقہ دشت صوبے کے دیگر حصوں کی طرح دور دور تک صرف بنجر زمین اور سخت چٹانوں میں گِھرا ہوا ہے، لیکن یہ تالاب اور جھیلوں کا منظر درحقیقت وہ تباہی ہے، جو چند ہفتے قبل سیلابی پانی کا بڑا ریلا برپا کر گیا تھا

یہاں چار سو کے لگ بھگ گھر تھے، جہاں زندگی کی رونقیں تھیں لیکن اب کچھ بھی باقی نہیں بچا

اگرچہ کوئٹہ اور پشین میں سیلابی پانی بہت حد تک اُتر چکا چکا ہے لیکن دشت میں صورتحال مختلف ہے

دشت میں کافی تعداد میں اینٹیں بنانے کے بھٹے ہیں۔ کچی اینٹیں بنانے کے لیے بھٹے کے مزدور کسی جگہ سے مٹی نکالتے ہیں تو وہاں بڑا گڑھا بن جاتا ہے۔ یہاں ایسے بڑے بڑے گڑھے موجود تھے۔ ایک بھٹے میں پچاس سے ساٹھ افراد کام کرتے ہیں اور وہ اسی بھٹے کے سامنے خالی گڑھوں میں اپنے گھر بنا لیتے ہیں

مگر جب سیلابی ریلا آیا تو سب ڈوب گیا۔ یہاں بسنے والوں میں سے کم از کم دو افراد اسی پانی میں ڈوب کر ہلاک بھی ہوئے لیکن باقی خاندان جان بچا کر نکل آئے۔ یہاں لگ بھگ دس سے پندرہ فٹ تک پانی اب بھی کھڑا ہے

سیلابی ریلوں کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تباہی صرف اینٹوں کے بھٹوں کے سامنے گہرے گڑھوں میں بنے گھروں میں ہی نہیں ہوئی، بلکہ ان بھٹوں کے عقب میں قدرے بلندی پر بنے کچے گھر بھی ریلے کی نذر ہوئے

اب یہاں بچے کھچے اور ٹوٹے پھوٹے گھر خالی ہیں اور ویرانی کا ڈیرہ ہے، یہاں نہ کوئی مکین ہے اور نہ سامان

جب ہمیں یہاں کچھ نہ ملا تو ہم نے یہاں سے چند میل دور خیموں میں بیٹھے مزدوروں سے ملنے کے لیے دوبارہ سفر کا آغاز کیا

وہیں ایک پگڈنڈی پر ایک معمر شخص نظر آیا جو اپنے کمسن پوتے کے ساتھ کمبل نچوڑ رہا تھا

اُن کا نام میوہ خان جمالی تھا۔ یہ پگڈنڈی تالاب کے نصف میں آ کر پانی میں غائب ہو گئی تھی اور میوہ خان جمالی اُس کے ایک سرے پر ہی کھڑے تھے۔ وہ اور اُن کا پوتا ننگے پاؤں تھے

جب اُن سے پوچھا گیا کہ کہ وہ یہاں کیا کر رہے ہیں، تو انہوں نے دور سے ہی کچھ یوں جواب دیا ’سب کچھ ختم ہو گیا۔ بس ختم۔ ختم۔ خالی ہو گئے ہیں۔ یہ گھر بھی ڈوب گیا اور گاؤں والا گھر بھی گر گیا“

یہ دریافت کرنے پر کہ وہ کہاں رہتے تھے اور ان کا گھر کہاں تھا؟ انہوں نے ایک پتھر اٹھایا اور دور پانی میں اچھالتے ہوئے بتایا ”یہ پتھر جہاں گرا ہے، وہیں میرا گھر تھا“

وہاں لکڑی کے چند بانسوں کے سوا اب کچھ نہیں تھا، جن کے سرے پانی سے باہر نکل رہے تھے اور ان پر ایک چادر پڑی تھی

میوہ خان جمالی کے بقول اُن کی عمر بھر کی محنت ڈوب چکی تھی

پھر انہوں نے مزید کنکر اٹھائے اور پانی میں پھینکتے ہوئے کہنے لگے: ”یہ میرا گھر تھا۔ یہ دوسرا گھر تھا، یہاں تیسرا اور پھر چوتھا۔ یہ سارے گھر ڈوب گئے ہیں“

اس پانی کو دیکھ کر کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ اس کی تہہ میں چار سو گھر ہیں، جو ڈوب گئے ہیں

میوہ خان جمالی نے بتایا کہ اُن کا ایک گھر گاؤں میں بھی تھا، جو سیلاب میں بہہ گیا ہے

انہوں نے بتایا ”ہر طرف سے بس ’بھاگو بھاگو‘ کی آواز تھی۔ ہم بچے پکڑ کر بھاگے بس۔ یہ روڈ تھا اور ہم ادھر کو بھاگ گئے، وہاں سے ایک عثمانی نام کے ہوٹل گئے۔ ساری رات بس کانپتے رہے پریشانی میں۔ سب ختم ہو گیا۔ سب گر گیا۔ کچھ نہیں بچا، کوئی کمبل بستر، کچھ بھی نہیں۔ بس یہی ہے، جو ریڑھی پر لے جائیں گے“

میوہ خان نے کرب کے عالم میں کہا ”سب ڈوب گیا۔ یہ پندرہ فٹ پانی ہے۔ یہ تو ابھی کھڑا ہے۔ جب سیلاب آیا اور یہ پانی چل رہا تھا تو اس کی سطح اس سے کہیں بلند تھی“

انہوں نے اپنے ٹخنوں اور گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بتایا کہ پہلے بھی سیلاب آتا تھا، مگر اتنا اونچا نہیں ہوتا تھا۔۔مگر اب تو یہاں تک آیا ہے‘ میوہ خان نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بتایا

وہ اپنے پوتے کے ہمراہ تباہ شدہ مکان سے کچھ کمبل، کپڑوں کے چند جوڑے، چادریں اور جوتے ہی ڈھونڈ پائے تھے۔ ان اشیا کو دادا پوتا مل کر نچوڑتے اور پھر ایک ریڑھی پر لاد لیتے

یہ سامان جمع کر کے انہیں قریب ہی سڑک کنارے بیٹھے اپنے خاندان کے پاس جانا تھا

حالیہ سیلاب سے اب تک کے حکومتی اندازوں کے مطابق نقصان کا تخمینہ تیس ارب ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے۔ سیلاب سے جہاں زراعت تباہی کا شکار ہوئی ہے وہیں اینٹوں کی صنعت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے

واضح رہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں بھارت اور بنگلہ دیش کے بعد اینٹیں بنانے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ سنہ 2018ع کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بیس ہزار سے زائد اینٹوں کے بھٹے تھے

یہ بھٹے پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے طول و عرض میں ہر اس جگہ موجود ہیں، جہاں کی مٹی پختہ اینٹیں بنانے کے لیے بہتر ہے۔ ان بھٹوں سے لاکھوں افراد کا روزگار جڑا ہے اور ان سے حاصل ہونے والی آمدن ملکی جی ڈی پی کا 1.5 فیصد ہے

لیکن اب حالیہ سیلاب سے یہ بھٹے اور اُن سے جڑے خاندان شدید متاثر ہوئے ہیں۔ سینکڑوں بھٹے بند ہو گئے ہیں اور یہاں کام کرنے والے مزدور بے گھر اور بیروزگار ہو چکے ہیں

دشت میں ہی ایک بھٹے پر مزدوری کرنے والے جمشید کا گھر بھی ڈوب چکا ہے

انہوں نے بتایا ”ایک دن میں ایک ہزار اینٹیں تیار کریں تو پانچ یا چھ سو دیہاڑی ملتی تھی جس میں سے کچھ رقم ٹھیکیدار اس لیے اپنے پاس رکھ لیتے تھے کہ کہیں ہم بھاگ نہ جائیں۔ ایک ہزار اینٹوں کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے میں، میرے بچے اور بیوی سب ہی اس بھٹے پر کام کرتے تھے۔ اب تو ایک وقت کی روٹی ہے نہ گھر پر چھت“

جمشید نے بھی وہاں بسنے والے دیگر خاندانوں کی طرح اس مقام پر گھر تعمیر کیا تھا، جو بھٹے میں اینٹوں کے لیے مٹی نکالنے سے کھائی کی شکل اختیار کر چکا تھا اور اب وہاں سیلاب کا پانی بھر گیا ہے

جمشید نے بتایا ”سب کچھ ڈوبنے کے بعد ان بھٹوں کے مالکان نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ کوئی وڈیرہ آیا اور نہ ہی کوئی ٹھیکیدار کہ ہم سے پوچھے کہ کس حال میں ہو۔ سب جھوٹ بولتے ہیں۔ کوئی حکومت سے بھی نہیں آیا کہ ایک خیمہ یا راشن کا پیکٹ دے جائے۔ کوئی بھی نہیں آیا۔ دور دور جاتے ہوں گے مگر یہاں ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ ہم نے پلاسٹک کی شیٹ ڈھونڈ کر سڑک کے پاس خیمہ بنایا اور اس میں رہتے ہیں“

جمشید کا کہنا تھا ”میرا ایک بچہ موذی مرض کا شکار ہے، اس کی دوائی کے لیے ایک روپیہ نہیں۔ کھانے کے لیے روٹی نہیں اور سر پر چھت نہیں رہی۔ اب تو سمجھ نہیں آتا کہ کہاں جائیں اور کیا کریں“

چھتیس بھٹوں کے مالک وڈیرہ اللہ یار پھروانی نے بتایا کہ ایک بھٹے پر کم از کم پچاس سے ساٹھ مزدور کام کرتے ہیں، جبکہ ایک بھٹے کی تعمیر پر چالیس سے پچاس لاکھ کا خرچ آتا ہے

وڈیرہ اللہ یار نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بتایا ”اب سیلاب سے سب کام ختم ہو گیا ہے۔ سیلاب کے پانی نے بھٹوں کو تباہ کر دیا۔ یہاں کچی اینٹیں ختم ہو گئی ہیں۔ مٹی خراب ہو گئی ہے اور گھر ڈوب گئے ہیں۔ یہاں کلی (گاؤں) میں چار سو گھر تھے، سب ختم ہو گئے ہیں۔ ابھی اس وقت ہمارے پاس اتنے پیسے ہی نہیں کہ ہم بھٹوں کی مرمت کریں یا نئے سرے سے تعمیر کریں۔ ایک ہی دن میں کروڑوں کا نقصان ہوا“

جب اُن سے پوچھا گیا کہ یہاں انہوں نے اور اُن جیسے دیگر وڈیروں نے ان مزدوروں کی کوئی مدد کی ہے، جن کے گھر ڈوب گئے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا ”جتنا ہو سکتا تھا ہم نے مدد کی، کھانے کو بھی دیا مگر اب تو ہمارے بس میں بھی نہیں رہا۔ حکومت والے آتے نہیں۔ اب ہم کیا کریں؟“

دشت کے علاقے میں پانی کے یہ بیسیوں تالاب سوکھنے اور یہاں بھٹوں کی مرمت کے بعد کام شروع ہونے میں کافی وقت لگے گا

جمشید بتاتے ہیں ”اس وقت کئی لوگ یہاں سے نقل مکانی کرنے کا سوچ رہے ہیں تاکہ کسی اور مقام پر کوئی مزدوری کی جا سکے۔ اب جھونپڑیوں میں یا پلاسٹک کی شیٹ تلے ہی رہنا ہے تو وہ کہیں بھی رہ لیں گے“

اس دوران میوہ خان جمالی اپنی ریڑھی پر بچا کھچا سامان باندھ چکے تھے۔ اُن کا کمسن پوتا رسی کھینچ رہا تھا جبکہ وہ اپنی ضعیف العمری کے باعث بڑی دقت سے ریڑھی کو دھکا لگا رہے تھے

لیکن قسمت کی ستم ظریفی کہ ایک مقام پر ریڑھی توازن کھو بیٹھی اور ان کا سامان ایک بار پھر گر گیا اور وہ دونوں پھر سے سب سمیٹنے بیٹھ گئے

ان خانماں برباد لوگوں کے ان تلخ اور تکلیف دہ حالات اور بے سرو سامانی کی چیخیں دشت میں صدا بصحرا بن کر رہ گئی ہیں، جب کہ میڈیا پر حکومت کے امدادی کاموں کے کھوکھلے دعووں کی گونج سنائی دیتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close