ایران آوارگی (قسط 5)

گل حسن کلمتی

گزشتہ قسط میں، مَیں نے قصر قند سے پہلے ایک خوبصورت علاقے ’ھیت‘ کی بات کی تھی۔ علاقوں کی خوبصورتی کے بارے میں ایک بلوچی شعر ہے، جس میں ھیت، گنجا باد، بگ، پارود، راسک، باھو، کیچ کا ذکر ہے:
ھیتءء گنجاباد ءء بگاں،
پارودگوں ھاتوئیں جناںز
راسک گوں ٹی ءٔ ٹمبراں،
بھاؤ گوں مستیں لیڑواں،
انگت کیچ ء چنال ء مٹ نیاں

اس شاعری میں سرباز کے ھیت کا تذکرہ ہے

نیکشہر پہاڑوں میں گھرا ہوا اب ایک ترقی یافتہ شہر بن گیا ہے۔نیکشہر کے بعد ہم بنت پہنچے یہاں سے لاشار زمین کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ یہاں سے ایک راستہ چابہار اور دوسرا راستہ ایران شہر کو جاتا ہے۔ بنت میر کمبر کا علاقہ ہے۔ کمبر بنت کے سردار رئیس سلیمان کا بیٹا ہے۔ میر کمبر کی کہانی بلوچ روایات کی ایک عجیب کہانی ہے بہت طویل ہے کسی اور مرتبہ

ہم کندان، ھیچان، جسکان، تخت ملک، گز میر، تنگیں سر، اوگینگ، جاوشیر کے قصبوں سے گزرے۔ یہ سب علاقے لاشار زمین کے علاقے ہیں۔ پہاڑوں میں دو ٹنل آئے، جو پہاڑوں کو کاٹ کر بنائے گئے تھے۔
وارکات گاؤں سے ہم مین روڈ سے چھوٹی سڑک پر آئے کلکلی اور وشان کے بعد کجھور کے باغات میں گھرے ہم سات بجے لاشار زمین کے لاشار ریاست ایک خوبصورت علاقے کوپچ پہنچے

یہ گاؤں ہمارے دوست اور ہمسفر ڈاکٹر مبارک کے سسرال کا گاؤں ہے۔کوپچ، جیسے قپص بھی کہتے ہیں، یہاں پر لاشار کے سابق سرداروں کے خاندان کے نوجوان خلیل لاشاری نے ہمارا استقبال کیا۔ ایک بڑا گھر خالی کر کے ہمارے حوالے کیا گیا۔ سب دوست فریش ہوئے، کجھور اور چائے پیش کی گئی۔ یاد رہے کہ پورے ایران میں دودھ والی چائے کا رواج نہیں۔ چائے میں چینی ڈالی نہیں جاتی الگ سے چینی کی ٹکیاں دی جاتی ہے

یہاں بلوچی، جو فارسی زدہ تھی، ہمیں بھی سمجھ نہیں آئی، جو بلوچی بولتے ہیں۔

رات کو کچہری ہوئی، جس میں یہاں سے ایرانی اسمبلی کے ممبر خدا بخش لاشاری، یہاں کے بلوچی زبان کے مشہور شاعر اور ادیب عبدالحکیم ملازئی لاشاری، خلیل لاشاری، میر عبدی خان لاشاری، محمد امین، کامران، طارق، راشد، محمد لاشاری شامل تھے۔ مشکل بلوچی کی وجہ سے بہت سی باتیں پلے نہیں پڑیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہمارا ایک رکن میر محمد راجڑ نوٹ بک پر کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا تھا۔ کچہری میں جب بھی وقفہ یوتا تھا یہ ڈائری میں نوٹ کرتا تھا اتنی مشکل بلوچی۔ اس دوست نے ہمارے ساتھی گل محمد کو کہا کے مجھے یہ لکھوائیں۔ اب مشکل بلوچی ترجمان گل محمد جدگال اور سندھی میں لکھنے والے میر محمد راجڑ۔۔ خود اندازہ لگائیں کہ اس مضمون کیا حشر ہوگا

کوپچ میں یہ کچھری رات کو دو بجے تک جاری رہی

یہاں بلوچوں کو جو پریشانیاں ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بنیادی تعلیم فارسی میں دی جاتی ہے۔ بلوچوں کو خدشہ لاحق ہے کہ ان کی زبان اس طرح ختم ہو جائے گی۔ جس کے لئے آواز اٹھانے کے بعد ایران حکومت نے یہ بات مان لی ہے کہ پرائمری تک تعلیم بلوچ علاقوں میں بلوچی میں دی جائے گی۔

یہاں صوبے کو استان کہتے ہیں۔ سیستان بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے۔

بلوچوں کو دوسری پریشانی یہ ہے کہ بلوچ علاقوں میں اہلِ تشیع کی بھرپور تبلیغ کی وجہ سے اور حکومت کے جانب سے مذہب کی بنیاد پر سہولتیں دینے کی وجہ سے بلوچ، جو سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، اہل تشیع مسلک اختیار کر رہے ہیں۔

تیسری پریشانی ان کو یہ ہے کہ حکومت بلوچی ادب اور تاریخ پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے، اس لیے یہاں بلوچی ادب سے لوگ خصوصی طور پر نوجوان دور ہوتے جا رہے ہیں۔

کچہری میں یہ سوال اٹھا کہ لاشار پر یہ نام کیسے پڑا؟ وہاں موجود لاشاریوں طرف سے جواب ملا کہ اس کے لیے دو آراء ہیں۔ ایک یہ کہ ”لاشار کے پہاڑوں سے بہت سی ندیاں آ کر ایک بڑی ندی کا روپ اختیار کرتی ہیں۔ قدیم زمانے میں سیلابی صورتحال میں لوگ اس میں ڈوب جاتے اور اس کی وجہ سے لاشیں بہہ آتی تھیں۔ اس ندی کو لاش ۔آر (لاش لے کر آنے والی ندی) کہس گیا، جو بگڑ کر لاشار ہوا۔ تاہم اس کے بارے میں انہوں کہا کہ اس بات کی کوئی حقیقت نہیں

اس بات کی تصدیق ڈاکٹر مبارک علی بلوچ نے بھی کی، جو ہمارے ھمسفر ہیں

کچہری میں میر عبدی خان نے کہا کہ ”اس کا کچھ پانی  ندی میں گرتا ہے، باقی پانی جاز موریان، جو ایک چھوٹی جھیل ہے، اس میں جمع ہوتا ہے“

ان کا کہنا ہے کہ اوپر والی زمین سطح مرتفع کو لاشار کہتے ہیں۔ لاشار کی زمین باقی زمینی سطح سے اوپر ہے، اس لیے اس سطح مرتفع کے علاقے کو بلوچی میں "لاشار” کہتے ہیں۔ اس لیے یہ سرد علاقہ ہے۔ جولائی میں بھی ہم گرم پانی سے نہائے۔

ڈاکٹر مبارک علی بلوچ نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ”لاشار زمین سات چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل ہے۔ ان کے نام کچھ اس طرح ہیں:

1. لاشار۔ جس کا سردار مہیم خان تھا، اس وقت محمد خان ہیں، جو لندن میں جلاوطن ہے۔(مہیم خان اور داد شاھ قصہ اگلی قسط میں)

2. ہنوچ ریاست۔ یہاں شیرانی لاشاری ہیں۔

3.چانپ ریاست۔ یہاں مبارکی لاشاری ہیں

4. بنت ریاست۔ شیرانی لاشاری، میر کمبر کا ملک۔

5. دھان ریاست۔ شیرانی لاشاری ۔ دھان کو سندھ میں ڈھانی (ڏَھاڻي) کہتے ہیں۔

6. شگیم ریاست۔ یہ چھوٹی ریاست ہے، جہاں مبارکی لاشاری رہتے ہیں۔

7۔ اسپکہ ریاست۔ مبارکی خاندان ، عیسیٰ خان مبارکی یہاں کا مشہور آدمی تھا، جو یورپ چلا گیا۔

ان سب ریاستوں کو ملا کر ”لاشار زمین“ کہتے ہیں۔یہاں کے لوگ اسے ملک لاشار کہتے ہیں“

(جاری ہے)


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close