موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا میں خوراک کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے، لیکن ترقی پذیر ممالک غذائی قلت کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔کلائیمٹ چینج میں ان کا عمل دخل سب سے کم ہے لیکن ان ممالک میں عوام کو شدید قحط سالی کا سامنا ہے
غیر سرکاری برطانوی تنظیم آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید بھوک کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق آکسفیم نے امیر ملکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ کاربن کے اخراج میں کمی کریں اور کم آمدنی والے ممالک کو زرِتلافی ادا کریں
تجزیاتی رپورٹ ’ہنگر اِن اے ہیٹنگ ورلڈ‘ میں پتا چلا ہے کہ افغانستان، برکینا فاسو، جبوتی، گوئٹے مالا، ہیٹی، کینیا، مڈغاسکر، نائجر، صومالیہ اور زمبابوے میں گزشتہ چھ سالوں کے دوران غذائی بحران کے تناسب میں 123 فیصد تک اضافہ ہوا ہے
یہ وہ دس ممالک ہیں، جن کی جانب سے کلائیمٹ چینج کے باعث اقوام متحدہ کو سب سے زیادہ امداد کی اپیلیں موصول ہوئی ہیں
ایک اندازے کے مطابق ان ممالک میں 48 ملین افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، 2018ع میں یہ تعداد 21 ملین تھی
آکسفیم کی بین الاقوامی سربراہ گیبریلا بوچر کہتی ہیں ”موسمیاتی تبدیلی ایک بم کی مانند ہے اور یہ ہماری آنکھوں کے سامنے تباہی پھیلا رہا ہے“
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں شدید موسم جیسے خشک سالی، طوفان اور سیلاب کا باعث بن رہی ہے۔ ایسے واقعات پچھلے پچاس سالوں میں پانچ گنا بڑھ چکے ہیں اور اب یہ زیادہ جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں
آکسفیم کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی یہ صورتحال عالمی عدم مساوات کا نمونہ ہے۔ سب سے کم آلودگی والے ممالک خشک سالی، سیلاب اور دیگر شدید موسمییاتی واقعات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں
گیبریلا بوچر کا کہنا ہے ”مغربی ممالک متاثرہ ممالک میں وسائل کی بحالی کے لیے ان کے قرض معاف کر سکتے ہیں اور ہمیں عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلوں سے پیدا ہونے والی مشکلات سے نمٹنے کے لیے ان ممالک کو ادائیگیوں میں بھی مدد کرنی چاہیے“
انہوں نے کہا ’’کم آمدنی والے ممالک میں بہتری کے لیے اقدامات اور وہاں ہونے والے نقصان کے لیے ادائیگی کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ میں کی جانے والی اپیل کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر فنڈز مہیا کرنے کو یقینی بنانا ہوگا‘‘
رواں سال اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی ہمدردی کے تحت کی جانے والی امدادی اپیل 49 بلین ڈالر ہے۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق اگر گزشتہ پچاس سالوں میں فوسل فیول بنانے والی کمپنیوں کے یومیہ اوسط منافع کو مدنظر رکھا جائے تو یہ ان کے اٹھارہ دنوں کے منافع سے بھی کم ہے
آکسفام امریکا کی سینئر پالیسی ایڈوائزر لیا لنڈسے نے اے ایف پی کو بتایا کہ شدید موسم کے متعدد اثرات پہلے ہی محسوس کیے جا رہے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ دنیا کے رہنماؤں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اس حوالے سے کچھ کرے
صومالیہ، ہیٹی، جبوتی، کینیا، نائجر، افغانستان، گوئٹے مالا، مڈغاسکر، برکینا فاسو اور زمبابوے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بار بار شدید موسمی اثرات کی زد میں آئے ہیں
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 4 کروڑ 80 لاکھ افراد شدید بھوک میں مبتلا ہیں، اس کا مطلب ایسی بھوک ہے، جو کسی صدمے کی وجہ سے آئی ہو اور جس سے زندگی اور ذریعہ معاش کو خطرہ ہو
رپورٹ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ عالمی سطح پر بھوک کی وجوہات پیچیدہ ہیں، اس کی اہم وجوہات میں تنازعات اور اقتصادی رکاوٹوں بشمول کووڈ-19 کی عالمی وبا بھی شامل ہے
رپورٹ میں کہا گیا کہ نئی اور بدترین شدید موسمی صورتحال خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں غریب لوگوں کی بھوک سے بچنے کے لیے اگلے صدمے سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ختم کر رہی ہے
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مثال کے طور پر صومالیہ کو تاریخی بدترین خشک سالی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے دس لاکھ سے زائد لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں
رپورٹ میں بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی زیادہ اور شدید گرمی کی لہر اور دیگر شدید موسمی حالات بشمول سیلاب کی وجہ بن رہی ہے، جس سے پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، فصلیں اور زرعی انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے
گوئٹے مالا میں موسمی صورتحال کی وجہ سے 80 فیصد سے زیادہ مکئی کی فصل ختم ہوگئی، اس کے ساتھ ساتھ ’کافی کے بحران‘ نے خطے کو بری طرح متاثر کیا ہے، بڑی تعداد میں لوگ امریکا ہجرت کرنے پر مجبور ہیں
’خیرات نہیں، ذمہ داری‘
آکسفیم نے زور دیا کہ موسم کی وجہ سے بھوک عالمی عدم مساوات کو ظاہر کرتی ہے، جو ممالک اس بحران کے کم ذمہ دار ہیں، ان پر اس کے زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں
آلودگی پھیلانے میں صنعتی ممالک زیادہ ذمہ دار ہیں، جی-20 ممالک کا دنیا کے کاربن کے اخراج میں حصہ تین چوتھائی سے زیادہ ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ دس متاثرہ ممالک مجموعی طور پر صرف 0.13 فیصد ذمہ دار ہیں
اقوام متحدہ کی جانب سے 2022 میں انسانی بنیادوں پر امدادی اپیل 49 ارب ڈالر کی ہے، آکسفیم نے نوٹ کیا کہ یہ رقم ایندھن کی کمپنیوں کے 18 دن کے نفع سے بھی کم کے برابر ہے
گبریلا بُچر کا کہنا ہے کہ قرض کی منسوخی سے حکومتوں کو وسائل آزاد کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے، امیر ممالک زیادہ متاثرہ غریب ممالک کو معاوضہ دینے کی اخلاقی ذمہ داری رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا ”ان ممالک پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، یہ خیرات نہیں ہے“