بات گوربا چوف کے بہانے اس زمانے کی ہے، کچھ اس طرح کے ذکر اس پری وش کا ہے اور بیان اپنا ہے۔ قصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ پیار کسی فرد سے نہیں ہوتا، کسی نظریے یا سوچ سے بھی ہو سکتا ہے
عشق ہو جائے، جنوں کی حد جہاں محبوب کا پیمانہ مقید نہ ہو، بس اس کا خیال دائم ہو جائے۔ مجھے جن زمانوں میں کسی خوبصورت دوشیزہ سے پیار ہونا تھا، میرے خواب سارے، خیال سارے، سرخ انقلاب کے گرد گھومنے لگتے ہیں۔ اس راہ سے جو بھی ملے وہ کامریڈ تھے، سب پا بہ جولاں تھے، مست و رقصاں تھے۔ لگ بھگ تیس سال گزر گئے اس یار نامہ کو، کل ملا کے دس سال ان کامریڈوں کے ساتھ بھرپور زندگی گزاری، کبھی اس گلی کبھی اس نگر، بستی، گاؤں، میلوں میں پیدل سفر بھی نصیب ہوا، جھیل کنارہ یا کسی شاخ کے سائے میں فرش پر لمبی ٹانگیں کر کے رات بھی بتائی، کتنے سارے پمفلٹ جو لینن کی تحریریں تھیں جو ہاتھوں میں رہتی تھیں
کارل مارکس اور اینجلزکی درجنوں تصانیف بھی پڑھیں، تاریخی مادیت، جدلیاتی مادیت، ہیگل کا فلسفہ، فائر باخ کانٹ، شو پنہار۔۔ حیرت ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ اس عہد جوانی میں یہ سب پڑھِیں، سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ ابا ہمارے سرخے نہ تھے مگر سرخوں کے ساتھ چولی اور دامن کے رشتے کی طرح تھے۔ ان کو ان کی مادیت پرستی کی باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں، نہ اسٹالن نہ لینن، بس صرف اشتراکیت کے خیال کو اچھا سمجھتے تھے لیکن ساتھ اس کے انسان کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی اور جمہوریت کے شیدائی تھے۔ یہ سرخے ابا کو مولوی کہتے تھے اور ابا ان کو مذہب کے بارے میں ان کی رائے یہ کہہ کر درگزر کر دیتے تھے کہ یہ خلق خدا کے سچے سپاہی ہیں
وہ چلے گئے میرے لیے ایک کتابوں کی لائبریری چھوڑ گئے، ان کے قانون کی کتابوں کی ایک لائبریری تھی وہ میرے نصیب میں نہ آئی۔ میرے ساتھ پٹارو کالج میں پڑھے سب کے سب بڑے زمینداروں اور اثاثوں والے والدین کی اولاد تھے اور میں ایک فقیر منش کا بیٹا تھا۔ کچھ فوج میں چلے گئے، کچھ امریکا آباد ہوئے اور بہت سے سی ایس ایس کا امتحان دے کے افسر لگ گئے۔ مجھے جیسے روگ لگ گیا تھا، انقلاب کا روگ۔۔ ان کامریڈوں نے ایک اور چال چلی، مجھے اٹھارہ سال کی عمر میں ہی ذمے داری سونپ دی، پورے سندھ کا صدر بنا دیا، وہ بچے یا شاگرد جن کی عمر ابھی اٹھارہ سال نہیں ہوئی تھی، ماں حیات تھی، اسے یہ دیکھ کر کہ جو والد نے کیا اب یہ کرنے چلا ہے اور ان کامریڈوں سے خفا رہتی کہ وہ سب اس کے بیٹے کو انقلاب کی راہ پر لگا کہ اچھا نہیں کر رہے ہیں
راتوں راتوں جاگتے رہتے ہم کامریڈ، چائے پہ چائے کی پیالی کا دور چلتا رہتا، دھواں دھواں سی ہو جاتی میری بیٹھک۔ یہ کامریڈ بہت پیارے لوگ تھے مگر ان کو صرف باتیں کرنا آتی تھیں کہ ہمارے ایک دوست نے بلغاریہ کی ایک لڑکی سے شادی کی، وہ یہاں آئی، دو چار مہینے گزرے وہ واپس چلی گئی، ایئرپورٹ پر ہمارے ایک دوست کو ٹکرائی تو ماجرا خفا ہونے کا یہ بتایا کہ ہمارے دوست (یعنی ان کے شوہر) گھنٹوں گھنٹوں گپیں لگاتے رہتے ہیں اوطاق میں کامریڈوں کے ساتھ، ان کی بیٹھک پر تو انقلاب آ چکا، باقی کا ان کو اتا پتہ نہیں۔ یہ کامریڈ جو بھی تھے، پڑھے لکھے بہت تھے۔ یہ وہ دن تھے جب میں نے فیض کی کلیات پر حفظ کیا تھا، میر تقی میر، ن م راشد، غالب دل سے پڑھے، کتنے سارے ناول پڑھے
میکسم گورکی کے ناول سے شروعات کی جب عمر میری تیرہ سال تھی۔ پھر ٹالسٹائی، چیخوف، ترگنیف اور بالآخر دوستو وسکی کا کوئی ناول شاید ہی رہ گیا ہو۔ ایک رومانس تھی زندگی مگر میں اب سرخا نہ رہا، گورباچوف نے رہنمائی کی، جب اس نے سوویت یونین سے پردہ کھینچا تو حقیقت کچھ اور نکلی۔ قصور گورباچوف کا نہیں تھا، گوربا چوف آیا ہی اس وقت تھا، جب ایک رسم باقی رہ گئی تھی
کارل مارکس نے انقلاب کے لیے کبھی پسماندہ روس کو موزوں نہ سمجھا تھا۔ اس کے نزدیک امریکا یا نیوریاک کے علاقے بھی جہاں صنعتی انقلاب برپا ہو چکا تھا اور ڈھیر سارا پرولتاریا اور اس کا مخالف بورژوا مضبوط شکل رکھتا تھا۔ طارق علی نے میرے انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کی کہ کارل مارکس کی ’’پرولتاریہ ڈکٹیٹرشپ‘‘ کا کبھی بھی یہ مطلب نہیں تھا، ایک پارٹی کی حکومت ہو۔ لینن صاحب تو جلدی چل بسے انقلاب کے بعد، ٹراٹسکی جو خود بھی ظلم اور بربریت میں کسی سے کم نہ تھے وہ بھی اسٹالن اڑا گئے، پوری کی پوری سینٹرل کمیٹی کے سیکڑوں لیڈر مروا دیے۔ ہزاروں کلاکس مروا دیے
انقلاب پر قبضہ کر کے بیٹھ گئے، خود آپ ہی انقلاب کی شکل تھے مگر تھے سچے، ہٹلر سے اس لیے مختلف تھے کہ اس نے بہت بڑا انفرااسٹرکچر دیا رشیا کو، دنیا کی کمیونسٹ تحریک کو مضبوط کیا۔ سینٹرل ایشیا کے انفرااسٹرکچر کو مضبوط کیا۔ یہ روسی نہ تھا، جارجین تھا، بہت بڑی فوج دی روس کو اسٹالن نے۔ پھر خوروچیف آئے، وہ گورباچوف سے کچھ حد تک ملتے جلتے تھے، کھلے ڈھلے تھے
اس وقت اسٹالن کی سوچ ابھی باقی تھی۔ یہ واحد تھے کے خود گورباچوف بھی کہ وہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پے زیادہ نہیں رہے، باقی برزنیف جو لگ بھگ بائیس سال رہے پھر یوری آندروپوف، پھر چونینکو اس عہدے کے دوران رحلت پاگئے۔ جب کہ بورس یالستین پارٹی میں گورباچوف سے بھی آگے نکل گئے مگر گورباچوف جو 1985 کو اقتدار سنبھال لیتے ہیں اور ہم سرخے تھے۔ ہمارے لیڈر امام علی نازش اور پروفیسر جمال نقوی تھے کہ رسول بخش پلیجو بھی خفا ہوتے کہ میں کیسے قاضی صاحب کا بیٹا ہو کے ان نقوی یا نازشی اور سازشیوں کے ہتھے چڑھ گیا ہوں۔ جوں جوں گورباچوف قدم جماتے گئے، سویت یونین کا Iron Curtain اترتا گیا
جوں جوں گورباچوف کھلتے گئے، ہمارے کمیونسٹ پارٹی کے اندر بھی تضاد بڑھتے گئے، ہم پروفیسر جمال نقوی کی صفوں سے نکل کر مختار باچہ کی صفوں میں چلے گئے، کلاسیقی انداز کو چھوڑ کے ہمیں اسٹالن سے اختلاف تھا۔ ہمیں گورباچوف اچھا لگنے لگا اور پھر جب برلن کی دیوار گرتی ہے، یہ وہ وقت تھا گورباچوف کھل کے سامنے آئے۔ وہ 1989 میں برلن گئے اور کہا کے یہ فیصلہ جرمنی کے عوام خودکریں گے، ہم نہیں
یہاں ہوتی ہے سرد جنگ ختم، مگر فوکویاما اسے End of the History سے مماثلت دیتے ہیں۔ Left wing populism کا یہاں خاتمہ ہوتا ہے مگر جو بات فوکویاما نہیں سمجھ پائے کہ اب جو ٹرمپ، بولسنارو، موڈی پیوٹن کی شکل میں Right wing Populism ہے تو کیا اس کے لیے بھی اک اور End of the History ہوگی؟
مورخہ 30 اگست اس سال، آج سے چند دن قبل اکانوے برس کی عمر میں گورباچوف انتقال کر گئے اور میرے سامنے سارے منظر ابھر آنے لگے۔ وہ جو آج کے روسیوں کو اچھے نہیں لگتے اور بہت سے سرخے دنیا میں اس کو قصوروار سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ سوویت یونین کو اس نہج پر گورباچوف نہیں لایا تھا، وہ بیانیہ لایا تھا جو کمیونسٹ انقلاب پیدا کرتا ہے۔ معیشت پر توجہ نہ دے سکے، دفاع پر بہت توجہ دی، سوویت یونین سفید ہاتھی بن گیا
گوربا چوف نے تو اس کو پاگلوں کے ہتھے چڑھنے نہ دیا بلکہ اس کو امن کے ساتھ، شانتی سے دفن کیا۔ دنیا کے امن میں اس کا ایک عظیم کردار ہے کہ سرد جنگ کے دور سے ہم نکلے، اس کے اس عظیم کام کے اعتراف میں امن کا نوبل انعام بھی ان کو ملا۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز