ایک طرف جہاں دہائیوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے زیر اقتدار سندھ کے بیشتر علاقے سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور شہر آثار قدیمہ کا منظر کر رہے ہیں، وہیں سندھ کی ہزاروں سال قدیم تہذیب کی علامت موئن جو دڑو کے ہزاروں سال پرانے نکاسی آب کے نظام کی بدولت پانی اس میں ٹھہر نہیں سکا
ڈائریکٹر جنرل اینٹی کوئیٹیز اینڈ آرکیالوجی منظور احمد کے مطابق ”موئن جو دڑو میں پانی کی نکاسی کا ساڑھے چار تا پانچ ہزار سال قدیم نظام آج بھی کام کر رہا ہے“
منظور احمد کو اس بات کا اندازہ اگست کے وسط میں ہونے والی بارشوں کے دوران ہوا، جب صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں 1400 ملی میٹر بارش برسنے کے بعد موئن جو دڑو میں موجود اسٹوپا کے باہر بنی حفاظتی دیوار تو گر گئی، لیکن انہیں کہیں بھی پانی کھڑا ہوا نظر نہیں آیا
ڈائریکٹر جنرل اینٹی کوئیٹیز اینڈ آرکیالوجی منظور احمد کہتے ہیں ”یہاں پانی ٹھہرا ہی نہیں۔ ہم بھاگتے ہوئے یہاں پہنچے تو پتا چلا کہ ساڑھے چار ہزار سال پرانے اس نالے سے پانی بہہ کر باہر نکل چکا ہے۔ اس مقام سے پانی نکالنے میں میری ٹیم کا کوئی عمل دخل نہیں، یہ خود ہوا ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہوا کہ جب پانی یہاں سے نکل گیا تو باہر جا کر چند سال پرانے بنے کمپاؤنڈ میں جمع ہو گیا، جسے نکالنے میں ہمیں تین ہفتے لگے“
واضح رہے کہ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق قدیم انجنیئرنگ کے شاہکار موئن جو دڑو کی ساڑھے چار ہزار سال قدیم تہذیب کی ایک بڑی خصوصیت اس کا پائیدار نکاسی آب کا نظام ہے۔ جبکہ یہاں کے شہری آبادکاری کے نظام کی مثال آج بھی دی جاتی ہیں۔ اس وقت یہ جگہ یونیسکو کے زیرِ انتظام ہے، جس کی ٹیم ہر ماہ یہاں کا معائنہ کرنے آتی ہے
چند ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ یونیسکو نے موئن جو دڑو کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے اپنی فہرست سے نکال دیا ہے لیکن ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے
منظور احمد نے بتایا کہ یونیسکو اتنا بڑا فیصلہ پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر ازخود نہیں کر سکتا
وہ کہتے ہیں ”اس جگہ کی دیکھ بھال اور سنبھالنے کے لیے چند اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے جو یونیسکو کی تجاویز کے عین مطابق ہوتی ہیں۔ ماہرین نے صرف یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس جگہ کی دیکھ بھال یونیسکو کی تجاویز کے مطابق نہ ہوئی تب موئن جو دڑو کے لیے اس فہرست سے نکلنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ موئن جو دڑو کو فہرست سے نکال دیا گیا ہے“
اس وقت یہاں موجود مزدور موئن جو دڑو کے اسٹوپا کے گِرد بنی حفاظتی دیوار دوبارہ سے بنا رہے ہیں۔ یہاں آس پاس دیکھنے کے لیے اتنا ہی پرانا حمام جبکہ چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں ہیں، جن سے گزر کر اس تہذیب کا جائزہ لیا جا سکتا ہے
اس اسٹوپا کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے اس کے گِرد حفاظتی دیواریں بنائی گئی تھیں۔ بارش اور سیلاب کے نتیجے میں اس کے گِرد بنی دیواریں تو گِر گئیں لیکن اسٹوپا بچ گیا ہے
منظور احمد کے مطابق موئن جو دڑو میں 1922ع سے لے کر اب تک بہت کم کھدائی ہوئی ہے اور اب بھی 90 فیصد کھدائی ہونا باقی ہے۔ اب بھی اس زمین کے نیچے قدیم تہذیب سے منسلک کئی راز دفن ہیں
ان کے مطابق ”موئن جو دڑو کو دریافت ہوئے ایک سو برس گزر چکے ہیں اور ان برسوں میں اتنی بارش کبھی ریکارڈ نہیں کی گئی“
واضح رہے کہ صوبہ سندھ حالیہ سیلاب کے نتیجے میں بہت بری طرح متاثر ہوا، جہاں اب تک کی اطلاعات کے مطابق صوبے کا 70 فیصد حصہ زیرِ آب ہے
اس دوران آثارِ قدیمہ کے مقامات کو بچانے کی مہم بھی تیز ہو گئی ہے۔ ماہرین نے موئن جو دڑو جیسی قدیم تہذیب کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کی اپیل بھی کی ہے۔
منظور احمد نے کہا کہ ان مقامات اور خاص طور سے موئن جو دڑو کی حفاظت کی ذمہ داری حکومتِ سندھ کی ہے
انہوں نے بتایا ”2010ع کے سیلاب کے دوران مکلی کے قبرستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کو پناہ دی گئی تھی، جس سے اس جگہ کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ اس وقت ان مقامات کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر بنتی تھی لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد اب یہ حکومتِ سندھ کے دائرہ کار میں ہے“
انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گیترس کے حالیہ دورے سے اس جگہ کی حفاظت کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑے گی
”اب تک ہمیں بہت اچھا ردعمل ملا ہے۔ سب کو ہی موئن جو دڑو کی فکر ہے۔ لیکن آنے والے دنوں میں ہمیں ان بڑے اداروں کی ضرورت رہے گی تاکہ اسے خبروں سے اوجھل نہ ہونے دیں“