جمہوریت اور آزادیِ اظہار: کیا برطانیہ میں بادشاہ یا ملکہ کی مخالفت کرنا ممکن ہے؟

ویب ڈیسک

برطانوی پارلیمنٹ جسے ’’جمہوریت کی ماں‘‘ قرار دیا جاتا ہے، اس کی پُرشکوہ عمارت بڑی شان سے برطانیہ کے دِل، لندن میں موجود ہے۔ 1016ع میں تعمیر ہونے والی اس عمارت نے زمانے کے کئی گرم، سَرد دیکھے ہیں

برطانیہ میں جیسے جیسے شاہی نظام اپنی طاقت کھوتا گیا، ویسے ویسے پارلیمانی نظام پروان چڑھتا گیا اور پھر وہ وقت بھی آیا، جب بادشاہت کی جگہ، پارلیمانی نظام نے لے لی

لیکن ایک طرف یورپ کے سر کے تاج برطانیہ کو دنیا کی قدیم ترین جمہوریت اور جمہوریت کا قابل تقلید ماڈل قرار دیا جاتا ہے، وہیں ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں، جو برطانوی جمہوریت اور آزادیِ اظہار پر سوالات اٹھاتے ہیں

حال ہی میں برطانیہ میں ملکہ الزبتھ دوم کی وفات اور ان کے بیٹے چارلس کو بادشاہ بنائے جانے کی رسومات کے دوران مختلف مواقعوں پر احتجاجی مظاہرے بھی دیکھے گئے، جن کے بعد کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا

اس کے بعد آزادی اظہار کے بارے میں کام کرنے والے چند اداروں نے تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کا سوال ہے کہ شاہی نظام کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر کارروائی ان کے ‘اظہار رائے کی آزادی‘ کے حق کی خلاف ورزی تو نہیں؟

اور اگر ایسا ہے تو ان افراد کی گرفتاری کیا جائز ہے؟ اس معاملے میں برطانیہ کا قانون کیا کہتا ہے؟

گرفتاریاں

اتوار کو اسکاٹ لینڈ کے دارالحکومت ایڈنبرا میں ایک خاتون کو گرفتار کیا گیا۔ یہ خاتون چارلس کو نیا بادشاہ بنائے جانے کے باضابطہ اعلان سے متعلق ایک جلسے میں سائن بورڈ لیے کھڑی تھیں۔ جس پر لکھا تھا ’شاہی نظام کو ختم کرو‘۔ بعد میں اس خاتون کے خلاف بد امنی پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا

اسی روز آکسفورڈ میں سائمن ہل نامی ایک اور شخص کو گرفتار کیا گیا۔ اس نے بھی شاہ چارلس کے لیے منعقد ایک جلسے میں چیخ کر پوچھا تھا ’ان کا انتخاب کس نے کیا؟‘

اس شخص کے خلاف امن و امان میں خلل ڈالنے کا الزام عائد ہوا

سائمن ہل نے اس واقعے کے بارے میں ایک بلاگ پوسٹ میں لکھا کہ انہوں نے جب پولیس سے پوچھا کہ انھیں کس بنیاد پر گرفتار کیا جا رہا ہے تو پولیس نے ’الجھے ہوئے جواب دیے۔‘

اس کے بعد ایڈنبرا میں ایک اور شخص کو گرفتار کیا گیا، جن ہر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر شاہ چارلس کے بھائی شہزادے اینڈریو کے ساتھ ہاتھا پائی کی تھی۔ یہ واقعہ تب پیش آیا جب ایڈنبرا کے رائل مائل میں ایک شاہی جلوس نکل رہا تھا۔ اس شخص پر بھی نقص امن کا الزام لگایا گیا

اسی روز ایک وکیل بیرسٹر پال پولسلینڈ نے ٹویٹ کیا کہ لندن میں پارلیمان کے نزدیک ایک پولیس اہلکار نے ان سے کہا کہ اگر انہوں نے کسی کورے کاغذ پر ’ناٹ مائی کنگ‘ یعنی وہ میرے بادشاہ نہیں لکھا تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا

پال نے اس واقعے کی ایک وڈیو پوسٹ کی جس کے بعد پیر کی شام مقامی میٹروپولیٹن پولیس نے بھی ٹویٹ کیا ’لوگوں کو مخالفت کا پورا حق ہے۔ اور ہم نے اس بارے میں اس غیر معمولی پولیس آپریشن سے منسلک سبھی اہلکاروں کو بھی واضح طور پر بتا دیا ہے۔‘

احتجاج اور برطانوی قانون

برطانیہ میں ہر کسی کو امن برقرار رکھتے ہوئے احتجاج کا پورا حق ہے۔ اپنے خیالات کا اظہار اور مظاہرے کے لیے اکٹھے ہونے کی آزادی انسانی حقوق کے یورپی کنوینشن میں دی گئی ہے، جسے 1998ع میں برطانیہ کے انسانی حقوق کے قوانین میں بھی شامل کر لیا گیا تھا

لیکن ان انسانی حقوق کی ایک حد یہ کہہ کر مقرر کر دی گئی ہے کہ اگر پولیس کو امن برقرار رکھنے کے لیے ضروری لگتا ہے تو وہ دیگر قوانین کے تحت لوگوں کی آزادی پر کنٹرول رکھ سکتی ہے۔ ایسا خاص طور پر تب ہوتا ہے، جب قومی سلامتی، عوام کی سلامتی، ہنگامی صورت حال پر قابو پانے یا جرائم کو روکنے کے لیے ضروری ہو

پبلک آرڈر ایکٹ کے تحت مظاہرین کو گرفتار کیا جا سکتا ہے

اس قانون کی شق پانچ کے تحت انگلینڈ اور ویلز کی پولیس کے پاس اختیار ہے کہ وہ ایسے کسی بھی شخص کو گرفتار کر سکیں، جس کا برتاؤ کسی ’مسئلے‘ کا سبب ہو سکتا ہے۔ جرم ثابت ہونے پر جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے

انگلینڈ اور ویلز میں مارچ 2022 تک کے ایک سال کے عرصے میں 470,000 سے زیادہ ایسے مقدمات درج کیے گئے

ایسے مقدمات میں مظاہرین کو ’بد امنی پھیلانے‘ کے الزام میں گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے

انگلینڈ اور ویلز میں بد امنی پیدا کرنے کو جرائم میں شامل نہیں کیا گیا ہے لیکن کراؤن پراسیکیوشن سروس یعنی سی پی ایس پھر بھی مجسٹریٹ سے لوگوں کے برتاؤ پر غور کرنے کو کہہ سکتی ہے

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ بد امنی پھیلانا کسے کہیں گے۔ ساتھ ہی وہ اس سے ہونے والے نقصان کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کرتے ہیں

’ڈوناہیو سالیسیٹرز‘ سے وابستہ کیون ڈوناہیو تسلیم کرتے ہیں کہ ’برطانیہ میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں گرفتاری کے دوران اس قانون کا اکثر غلط استعمال ہوتا ہے یا پھر اسے غلط ڈھنگ سے سمجھایا جاتا ہے‘

اسکاٹ لینڈ میں ’بد امنی‘ پھیلانا جرم ہے اور وہاں کئی گرفتاریوں میں اس قانون کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں وہ تمام باتیں شامل ہیں، جن کی وجہ سے عام لوگوں کو خطرے کا اندیشہ ہوتا ہو یا کسی مقامی آبادی کو بد امنی کا خوف ہو

اس قانون میں چیخنا چلانا، گالی گلوچ، ہتھیار دکھانا یا ٹیکسٹ مسیج کے ذریعے کسی کو دھمکانا یا پریشان کرنا بھی شامل ہے

اسکاٹ لینڈ کی ہائی کورٹ کا کہنا ہے کسی بھی شخص کے برتاؤ کو جرم قرار دیے جانے کے لیے اس کا برتاؤ حقیقت میں خوفناک اور پریشان کن ہونا چاہیے

اسکاٹ لینڈ میں 2020 سے 2021 کے درمیان بد امنی پھیلانے کے الزام میں 3,137 مقدمے درج ہوئے۔ وہاں اس کے لیے زیادہ سے زیادہ ساٹھ دنوں کی جیل یا ڈھائی ہزار پاؤنڈ جرمانہ دینا پڑتا ہے

ماضی میں کیا ہوا؟

2011 میں شہزادہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن کی شادی کے روز ’نقصِ امن‘ کے الزام میں متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا تھا، جب وہ ’زامبی ویڈنگ‘ سمیت مختلف احتجاجی مظاہروں کے منصوبے بنا رہے تھے، جن کے سبب شادی کی رسومات میں خلل پیدا ہو سکتا تھا

جن افراد کو حراست میں لیا گیا، ان میں سے 9 کو چھوڑ کر باقی سبھی کو شادی کی تمام رسومات کے مکمل ہو جانے تک پولیس نے حراست میں رکھا۔ ان پر کوئی بھی کیس درج کیے بغیر بعد میں انہیں چھوڑ دیا گیا۔ نو افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔ یہ معاملے بعد میں یورپی انسانی حقوق کی عدالت تک پہنچا

وہ لوگ اپنی قانونی جنگ ہار گئے۔ یورپی انسانی حقوق کی عدالت نے کہا کہ وہ اس بارے میں غور نہیں کرے گی کہ گرفتاری جائز تھی یا نہیں

عدالت نے اس کی وجہ یہ دی کہ برطانوی جج نے معاملے کی شنوائی کے دوران پولیس کے امن برقرار رکھنے کی ذمہ داری اور گرفتار ہونے والے افراد کے حقوق کے درمیان توازن کے بارے میں پہلے ہی غور کر لیا تھا

ایک دیگر مقدمے میں عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سنایا تھا کہ فوجی ہتھیاروں کی ایک پریڈ کے دوران سڑک بلاک کرنے والوں کو مجرم قرار نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔ اور اس معاملے میں ان کے عارضی اور پر امن احتجاج کے حق کو مد نظر رکھا جانا چاہیے تھا

نیا قانون کیا ہے؟

اس برس کے آغاز میں پاس ہونے والے نئے قانون کے تحت انگلینڈ اور ویلز کی پولیس کو احتجاجی مظاہرے کرنے والوں کو قابو کرنے کے لیے مزید طاقت دی گئی ہے

مثال کے طور پر اس قانون کے تحت اب پولیس یہ طے کر سکتی ہے کہ امن و امان میں کس قسم کے خلل کو قانون کی خلاف ورزی سمجھنا ہے؟ احتجاجی مظاہرہ کب شروع ہوگا اور کب ختم ہوگا اور اس میں کس حد تک شور کیا جا سکتا ہے یہ بھی طے کر سکتی ہے۔ حتیٰ کہ صرف ایک شخص کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کے خلاف کارروائی کے لیے بھی اس قانون کا استعمال کیا جا سکتا ہے

حکومت کا کہنا ہے کہ نئے طریقہ کار ’زیادہ خطرناک مظاہروں‘ کے لیے ضروری ہیں

دعوؤں کے مطابق ایکسٹنکشن ریبیلیئن (ماحولیات کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والا گروپ) جیسے گروہوں کی جانب سے کیے جانے والے مظاہروں نے پبلک فنڈز کو نقصان پہنچایا ہے

امریکہ سے نسلی امتیاز پر شروع ہونے والے مظاہرے ’بلیک لائف میٹرز‘ جیسے مظاہروں میں پولیس اہلکاروں پر متعدد حملے ہوئے

لیکن انسانی حقوق پر پارلیمان کی مشترکہ کمیٹی نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ ان معاملوں میں پولیس کو مزید طاقت دے رہی ہے جہاں پولیس کے پاس پہلے سے ہی کافی طاقت موجود ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close