بلدیاتی انتخابات میں مزدور کی بیٹی کی پیپلز پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں بڑے مارجن سے فتح

ویب ڈیسک

بلدیاتی الیکشن 2022 کے پہلے مرحلے میں سندھ کے چودہ اضلاع میں پولنگ کے دوران برسر اقتدار جماعت کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں اور رگنگ پر تو بات ہو ہی رہی ہے، لیکن اس حوالے سے کچھ دیگر چیزیں بھی زیر بحث ہیں

انہی میں سے ایک ،ضلع خیرپور کی یونین کونسل جیلانی سے کونسلر کی جنرل نشست پر آزاد امیدوار پروین شیخ کی جیت بھی ہے، جنہوں نے سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو شکست دے کر بھرپور توجہ حاصل کی ہے

سندھ میں اتوار کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ضلع کونسلز، میونسپل کمیٹیوں، ٹاؤن کمیٹیوں اور یونین کونسلز کے لیے انتخابات منعقد ہوئے

ان انتخابات میں نشستوں کی تعداد 7164 تھی جن میں سے ایک ہزار سے زائد نشستوں پر امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوئے جبکہ باقی 6083 نشستوں پر ساڑھے 24 ہزار کے قریب امیدوار میدان میں تھے

بلدیاتی انتخاب کے اس پہلے مرحلے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ عام نشستوں پر خواتین امیدوار نہ ہونے کے برابر تھیں تاہم بعض خواتین آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑیں

چھ بچوں کی ماں پروین شیخ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے والد پہلے گدھا گاڑی چلاتے تھے آج کل وہ بازار میں پتھارے میں بچوں کے کھانے پینے کی اشیا فروخت کرتے ہیں جبکہ پروین کے شوہر ایک وفاقی ادارے میں نچلی سطح پر ملازم ہیں

پروین نے خود پرائمری تک تعلیم حاصل کی ہے تاہم مقامی سطح پر فلاحی کاموں کا سرگرم حصہ رہی ہیں

پروین شیخ نے بتایا ”جب میں غریبوں کی حالت دیکھتی تھی تو مجھے دکھ ہوتا تھا اور میں سوچتی تھیں کہ ان کی کیسے مدد کریں، پھر میں نے سوچا کہ سیاست کے ذریعے ہی ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔“

پروین شیخ ضلع خیرپور کے علاقے سلیم آباد سے وارڈ کے الیکشن میں 430 ووٹ لے کر کامیاب ہوئی ہیں جبکہ ان کے مخالف امیدوار صرف 190 ووٹ لے سکے

واضح رہے کہ خیرپور میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل بڑی جماعتوں کے طور پر موجود ہیں۔ سابق وزرائے اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور سید غوث علی شاہ کا تعلق بھی اسی ضلع سے ہے جبکہ جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام میں سید قائم علی شاہ کی بیٹی اور موجودہ رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ یہاں سے ضلعی ناظم رہ چکی ہیں

پروین شیخ جس علاقے سے انتخاب جیتی ہیں، وہ ایک غریب آبادی ہے جس میں مرد محنت مزدوری کرتے ہیں جبکہ خواتین کارخانوں اور گھروں میں کھجور کی صفائی کا کام کرتی ہیں

پروین کے مطابق اس علاقے میں سیوریج کا کوئی نظام نہیں، بجلی دستیاب نہیں کیونکہ غریب لوگ بل ادا نہیں کر سکتے اس لیے حیسکو والے پی ایم ٹی نہیں لگاتے جبکہ پینے کا پانی تک نہیں آتا اور لوگ پندرہ لٹر پانی کی بوتل بیس سے پچیس روپے میں خریدتے ہیں، یہ وہ مسائل تھے جن کو لے کر وہ میدان میں اتریں

پروین کہتی ہیں کہ جب سے اُنہوں نے نامزدگی فارم جمع کروایا، تب سے ہی اُن کی کردارکشی شروع کر دی گئی ”غلط غلط باتیں کرتے، گندی گالیاں دیتے تھے۔ رات کو ہم سوتے تھے تو دروازے پر آ کر اونچی آواز میں گالیاں دے کر جاتے تھے، اس قدر کہ لاؤڈ اسپیکر پر بھی برا بھلا کہا جاتا تھا۔ میں نے ووٹوں کی اپیل کے لیے پینا فیلکس لگانے کی کوشش کی تو وہ لگانے نہیں دیتے تھے یا اتار دیتے تھے تاکہ میں اپنی مہم نہ چلا سکوں۔ مجھے کہتے تھے تم عورت ہو سیاست کر کے کیا کرو گی، گھر میں بیٹھو“

پروین شیخ نے بتایا کہ مقامی سیاست دانوں سے لے کر افسران تک نے اُنہیں کہا کہ دستبردار ہو جاؤ اور مبینہ طور پر پیسوں کی لالچ بھی دی گئی، جب بات نہیں بنی تو پھر دھمکایا بھی گیا لیکن وہ نہ مانیں

پروین شیخ کہتی ہیں ”میں مہم کے لیے گھر گھر جاتی تھی اور لوگوں سے ووٹ کی درخواست کرتی تھی، لوگ کہتے تھے کہ آپ ہماری پڑوسی ہو ہماری طرح غریب کی اولاد ہو اور ہماری بچی ہو، ہم آپ کا ساتھ دیں گے ہم نے وڈیروں اور بڑے لوگوں کو کئی بار ووٹ دیے، اب ہم اپنے غریبوں کو ووٹ دیں گے“

پروین شیخ کہتی ہیں کہ ان کے سامنے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے جن کی الیکشن مہم نفیسہ شاہ بھی چلا رہی تھیں

’میرے شوہر مہم میں نہیں جاتے تھے جبکہ بھائی اور دیور پریشان رہتے تھے لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ مجھے لوگ پسند کر رہے ہیں اور حمایت کرتے ہیں تو پھر اُن کا بھی حوصلہ بلند ہو گیا۔‘

پروین شیخ کے خاندان میں کبھی کسی نے سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ بقول ان کے ان کی جیت پر اُنہیں رونا آ رہا تھا اور اُنہوں نے تو کنٹرول کر لیا لیکن والد آنسو بہاتے رہے

دوسری جانب سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ کے علاقے نصیر آباد سے وارڈ پر جنرل نشست پر انتخاب لڑنے والی فوزیہ سینگھار نوناری نے بھی حصہ لیا، لیکن وہ جیت نہ سکیں

فوزیہ ایک سال قبل اپنے لاپتہ شوہر سینگھار نوناری کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج تھیں

ایک سال قبل یعنی 26 جولائی کو سینگھار چھتیس روز کی جبری گمشدگی کے بعد رہا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے

فوزیہ گریجویٹ ہیں۔ چند سال قبل تک وہ ایک عام گھریلو خاتون تھیں لیکن شوہر نے ان کی ہمت افزائی کی اور وہ بھی طبقاتی سیاست کے میدان میں اتر آئیں، حالیہ بلدیاتی انتخابات میں گھر گھر جا کر الیکشن ورک کیا جس کا سوشل میڈیا پر کافی چرچا رہا

فوزیہ کا کہنا تھا ’الیکشن سے قبل ہی مشکلات کا آغاز ہوا اور پولنگ اسٹیشن دور کے گاؤں میں منتقل کر دیے گئے جبکہ مخالف امیدوار کی جانب سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ رکن اسمبلی جو کبھی کبھار نظر آتا وہ ذاتی طور پر چار مرتبہ مخالف امیدوار کی مہم چلانے کے لیے آیا۔‘

واضح رہے کہ قمبر شہداد کوٹ سندھ کے ان اضلاع میں سے ہے جس کی سرحدیں بلوچستان سے ملتی ہیں۔ یہاں سرداری نظام کافی مضبوط ہے

فوزیہ نوناری بتاتی ہیں کہ وہ گھر گھر جایا کرتی تھیں اور اس دوران خواتین سے بات چیت ہوتی تھی جن کا کافی مثبت جواب ملتا تھا ”وہ اپنے گھروں سے نکلنا چاہتی تھیں اور اپنے وجود کا اظہار کرنا چاہتی تھیں۔ میں نے بھی اعلان کیا تھا کہ اگر کامیاب ہوئی تو جو خواتین کے مقامی مسائل ہیں اُنھیں اجاگر کروں گی۔ مجھے شکست تو ہوئی لیکن جو تین سو سے زائد ووٹ حاصل کیے ان میں زیادہ تر ووٹ خواتین کے ہی تھے“

فوزیہ نوناری کے بقول وہ سمجھتی ہیں کہ بلدیاتی انتخابات سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آ سکتی تاہم اس کے باوجود اُنھوں نے میدان خالی نہیں چھوڑا کیونکہ جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف یہ بھی ایک میدان ہے جس میں آواز اٹھائی جا سکتا ہے

فوزیہ کہتی ہیں ”ہماری سیاست صرف ووٹ اور الیکشن تک نہیں، مقامی مسائل سے لے کر مہنگائی اور دیگر مسائل کے لیے احتجاج جاری رکھیں گے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close