اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ نے ملنے والے شواہد کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ ہزاروں برس قبل انسانی لاشوں کی تدفین کے وقت آخری رسومات کے دوران افیون بھی استعمال کی جاتی تھی۔ ایسا افیون کی ساڑھے تین ہزار برس پرانی باقیات ملنے کے باعث ممکن ہوا
اس بارے میں اسرائیل کے محکمہ آثار قدیمہ اور وائزمین انسٹیٹیوٹ آف سائنس نے اپنی مشترکہ سائنسی چھان بین 2012ع میں اس وقت شروع کی تھی، جب اسرائیل کے وسطی حصے میں یہود نامی قصبے میں کھدائی کے دوران ماہرین کو کانسی کے عہد کے آخری دور کی کئی قبریں ملی تھیں
ان قبروں سے ملنے والے تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پرانے برتنوں میں ماہرین کو افیون کی ایسی باقیات ملی تھیں، جن کے تجزیے کے نتائج کے بعد اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ اس دور میں اس نشہ آور مادے کو انتقال کر جانے والے انسانوں کی آخری رسومات کے وقت استعال کیا جاتا تھا
آثار قدیمہ کی اسرائیلی اتھارٹی نے بتایا ہے کہ ماہرین کو پوست کے پھول جیسی دکھائی دینے والی ایک جگہ سے کئی قدیمی برتن ملے۔ یہ نوادرات چودہویں صدی قبل از مسیح کے دور کے ہیں
ماضی میں کئی قدیمی مسودوں سے بھی اس امر کے اشارے ملے تھے کہ تب کنعان میں مُردوں کی تدفین کے وقت افیون استعمال کی جاتی تھی۔ ان اشاروں کی روشنی میں ماہرین نے یہ جائزہ لینے کی کوشش کی کہ آیا ان برتنوں کو افیون رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ تو ثابت یہ ہوا کہ ہزاروں سال پرانے ان برتنوں میں سے کم از کم آٹھ میں افیون کی باقیات موجود تھیں
اسرائیلی آرکیالوجیکل اتھارٹی کے ایک ماہر رون بیئری نے بتایا ”یہ برتن مرنے والوں کے اہل خانہ کی طرف سے یا تو قبروں میں کھانے کے ساتھ رکھے جاتے یا پھر آخری رسومات کے دوران استعمال ہوتے تھے‘‘
رون بیئری کا کہنا ہے ”ان رسومات کے دوران مرنے والوں کے اہل خانہ یا ان کی طرف سے کوئی مقامی مذہبی شخصیت مرنے والوں کی روحوں کو بلانے کی کوشش کرتے تھے اور اس عمل کے دوران ’ذہنی اور فکری تیاری‘ کے لیے افیون استعمال کی جاتی تھی‘‘
تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ”اب بھی بہت سی باتوں کا ہمیں علم نہیں۔ ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ تب اس نشہ آور مادے کو دراصل کیسے استعمال کیا جاتا تھا۔ ہم ہزاروں سال پہلے افیون کے اس طرح استعمال کے بارے میں اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔‘‘