عمران خان پر قاتلانہ حملہ: شہباز، رانا ثنا اور ایک آرمی افسر پر الزام۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کیا کہتے ہیں؟

ویب ڈیسک

گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر اور میاں اسلم اقبال نے اپنے ایک وڈیو بیان میں عمران خان کا پیغام جاری کیا، جس میں ان کے مطابق عمران خان کی طرف سے کہا گیا کہ ان پر حملے کے ذمہ دار وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور میجر جنرل فیصل ہیں

گزشتہ رات ہسپتال سے سوشل میڈیا پر اپنے براہ راست خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا ”پکڑے جانے والے ملزم کو جنونی اور انتہاپسند کہا گیا، یہ انتہاپسند نہیں بلکہ اس کے پیچھے پورا منصوبہ ہے، یہ منصوبےکو بے نقاب کریں گے، اس میں اور لوگ بھی ملوث ہیں اور یہ منصوبہ پہلے کا بنا ہوا ہے“

عمران خان نے کہا ”ریکارڈ جلسوں کے بعد چار افراد نے بند کمرے میں مجھے مارنے کا فیصلہ کیا اور میں نے ٹی وی پر جا کر لوگوں کو بتایا، وڈیو بنائی اور چار لوگوں کے نام دیے اور وڈیو باہر رکھی ہوئی ہے، اگر مجھے کچھ ہوا تو یہ وڈیو ریلیز کریں تاکہ دنیا اور قوم کو پتا ہو کہ کس نے یہ کیا کیونکہ یہاں جو قتل ہوتا ہے تو پتا نہیں چلتا“

عمران خان نے کہا کہ ’جو انہوں نے وزیرآباد میں کیا، ان کا منصوبہ یہ تھا کہ کہیں گے دینی انتہا پسند نے عمران خان کو قتل کردیا جس طرح سلمان تاثیر کا ہوا تھا کیونکہ اس نے مذہب کی توہین کی تھی۔‘

عمران خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے الزام عائد کیا ’اسلام آباد میں میجر جنرل فیصل نصیر کی تعیناتی کے بعد سے ان کی طرف سے پی ٹی آئی کے حامیوں اور میڈیا پر دباؤ بڑھایا گیا اور بلیک میلنگ کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اراکین اسمبلی کو ڈرایا جاتا ہے کہ ہمارے پاس تمہارے کرپشن کیسز ہیں، وہ نہیں مل رہا ہو تو گندی وڈیوز بنائی جا رہی ہیں، یہ تماشا ہو رہا ہے پاکستان میں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ ہماری اپنی ایجنسیاں جمہوری عمل کو چلنے نہیں دی رہی ہیں اور یہ استعمال کر رہی ہیں غلطی کا احساس کرنے کے بجائے غلطی کو دہراتے جارہے ہیں اور لوگوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں‘۔

اس کے ردعمل میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ادارے اور ایک مخصوص سینیئر آرمی افسر پر بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات ناقابل قبول اور بلاجواز ہیں

ایک بیان میں آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور قوائد ضوابط پر فخر کرتی ہے اور اس میں کسی یونیفارمڈ اہلکار کی جانب سے کسی ممکنہ غیر قانونی اقدام پر اندرونی احتساب کا ایک مؤثر نظام موجود ہے

اس میں کہا گیا ہے کہ رینک اینڈ فائنل پر بے بنیاد الزامات لگائے جانے پر ادارہ ہر صورت میں افسران اور فوجیوں کو تحفظ فراہم کرے گا

انہوں نے کہا ’کسی کو بھی ادارے یا فوجی افسران کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے اور ادارے پر بے بنیاد الزامات سے اسے بدنام کرنے کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا

آئی ایس پی آر کے مطابق ’مفاد پرستوں کے فضول الزامات سے فوجیوں کی عزت کو داغ دار کیا جا رہا ہے

ڈی جی آئی ایس پی آر نے حکومت سے ادارے اور افسر کے خلاف ہتک عزت پر قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا

ادہر پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے نام لیے بغیر عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایک شخص ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے ہر لائن عبور کر رہا ہے اور ایجنسیز کے خلاف زہر افشانی کر رہا ہے۔‘

ہفتے کے روز پیپلز پارٹی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری بیان میں آصف علی زرداری کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس شخص کو نہ تو ملک کی سالمیت کی فکر ہے نہ اداروں کی

انہوں نے کہا ’اس کو اقتدار، اقتدار اور اقتدار کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا، اداروں کی بقا سے ہی ملک کی بقا ہے۔ ان پر حملہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔‘

آصف علی زرداری کے مطابق ’1947 سے لے کر ہم نے اور اداروں نے مل کر دشمن کا مقابلہ کیا اور اب بھی کریں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’دشمن نے اس بار اندر کے لوگوں سے حملہ کروایا ہے، فوج کی قربانیوں اور شہادتوں کو نہیں بھلا سکتے۔ دشمن کی اس سازش کو بھی ناکام بنائیں گے۔‘

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کے عمران خان پر الزامات بے بنیاد ہیں، انہوں نے کبھی فوج کو بطور ادارہ تنقید کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ اس کو مضبوط بنانے کی بات کی ہے اور شخصیات پر تنقید کو ادارے پر تنقید نہ سمجھا جائے

ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے بیان میں انہوں نے آئی ایس پی آر سے سوال کیا کہ ’اگر ادارے کا کوئی بھی رکن کچھ غلط نہیں کرتا تو کورٹ مارشل کیوں کیا جاتا ہے۔ جنرل افسران کا بھی ماضی میں کورٹ مارشل کیا گیا ہے۔ اگر ارکان ایسا کام کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر ان کے خلاف کورٹ مارشل کیا جاتا ہے تو ان پر بطور شخص تنقید کیوں نہیں جا سکتی؟‘

اسد عمر نے کہا کہ ایسے کسی بھی اقدام کو رد کرتے ہیں، جس کے تحت شخصی تنقید کو اداروں پر تنقید سے منسوب کیا جائے۔ ادارے قابلِ عزت ہوتے ہیں، جس کی بنیاد ان کی طرف سے قوم کے لیے دی گئی قربانیاں ہیں۔ البتہ ہر شخص اس عزت کے قابل نہیں ہوتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close