بہروپیا (افسانہ)

نوشابہ خاتون

”کا سماچار ہے ماسٹرجی! کہاں بم پھٹا، کہاں آگ لگی۔ کتنے مرے، کتنے گھائل ہوئے؟“ اپنے ڈیوڑھی پر بیٹھا بھولے روز ماسٹرجی سے یہی سوال کرتا

”ای سسری مہنگائی او بےروجگاری کمر توڑ دیئے ہے“

بھولے روز روز کی ہڑتال اور بےروزگاری سے بیزار تھا۔ جب اسے کام ملنے کی امید بندھتی، تب ہی بند کا اعلان ہوتا

”آتنکوادی مندر میں گھس آئے۔۔۔ بھارت بند۔“

”کسی بڑے لیڈر کا اپہرن ہو گیا۔۔۔ بھارت بند۔“

”سڑکوں کا ٹیکس بڑھ گیا۔۔۔ چکا جام۔“

بھولے کی طرح ہزاروں مزدور اس صورتحال سے پریشان تھے

”آپ لوگن پڑھے لکھے ہو ماسٹرجی! کچھ تو کرو۔ ای بھرشٹا چار کو روکو۔ کوئی آواج اٹھاؤ۔“ بھولے بیچارہ معصوم دیہاتی، کیا جانے کہ طاقتور آواز کے نیچے دب کر کمزور آواز دم توڑ دیتی ہے

ایک روز اسکول سے واپس آتے ہوئے بھولے نے ماسٹر جی کا راستہ روک کر سینے پر ہاتھ رکھ کر بلبلا تے ہوئے کہا ”ماسٹر جی آج تو گجب ہوگیا“

اس کی بسورتی صورت دیکھ کر ماسٹر جی نے پوچھا ”کیا ہوا بھائی؟“

”او آج ہم کام پر جاتے رہے تو گُنڈے لوگن نے ہم کو مارا پیٹا اَو ہمری سائکل چھین لیا۔۔“

”تو اپنے بچاؤ میں تم نے کچھ نہیں کیا؟“

”تھانہ میں رپٹ لکھوائے آئے ہیں۔“

”رپورٹ لکھوانے سے کچھ نہیں ہوتا ہے بھائی۔ تھانہ پولس کچھ نہیں کرے گی۔ دس بار تمہیں دوڑائے گی۔ اوپر سے پیسہ بھی جھینٹے گی۔“

”پھر ہم کا کریں؟“

”خود میں ہمت پیدا کرو۔ لڑو اور اپنی چیز کی حفاظت کرو۔“

”کا حپھاجت کریں ماسٹر جی۔۔ لوگ تو گھر ہوں سے بے کسور کو پکڑ کر لے جاوت ہیں۔“

”دیکھو اس بار اپنے گانوَ کا مکھیا الکشن میں کھڑا ہو رہا ہے۔ شاید کچھ سدھار کرے۔ گانوَ والوں کا کچھ بھلا ہو جائے۔“ ماسٹر جی اتنا کہہ کر آگے بڑھ گئے

الیکشن قریب آرہا تھا۔ بھاشن کا زور بڑھ گیا تھا۔ ایک بڑی سبھا کا آیوجن کیا گیا تھا۔ کئی گانوَ کے لوگ جمع ہوئے تھے۔ مکھیا نے بھاشن کا آغاز کرتے ہوئے کہا ”بھائیو اور بہنو! ہمارا گانوَ ایک پچھڑا ہوا گانوَ ہے۔ ہمیں اس میں سدھار لانا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں سڑک کی طرف دھیان دینا ہے۔ اس کی مرمت کرانی ہے تاکہ باہر سے ہمارا سمپرک بنا رہے۔ جگہ جگہ ہینڈپمپ لگانا جروری ہے تا کہ گانوواسیوں کو جو پینے کے پانی کی سمسیا ہے، وہ دور ہو جائے۔ گانو میں ایک اچھے اسکول اور ہاسپٹیل کا ہونا جروری ہے کہ ہمارے بچے مورکھ نہ رہ جائیں اور بیمار پڑنے پر گانوواسیوں کو علاج کی پوری سویدھا مل سکے اور اس کے لیے مجھے آپ کا سہیوگ چاہئے۔ اس گانو پر جتنا ہمارا حق ہے اتنا ہی آپ کا بھی ہے۔ ہمیں بھید بھاؤ جات پات سے اوپر اٹھ کر ایک جُٹ ہو کر کام میں لگ جانا ہے تبھی ہم اپنے دیش کو انّتی کی اور لے جانے میں سپھل ہو سکتے ہیں۔“

مکھیا کی تقریر نے گانوواسیوں کے دل میں ایک نیا جوش پید ا کر دیا۔ تالیوں کی گڑگڑاہٹ نے اس کی باتوں سے متفق ہونے کا اعلان کیا۔ دیر تک یہ بھاشن چلتا رہا۔ تالیاں بجتی رہیں۔ دوسرے دن سویرے سویرے یہ افواہ پورے گانو میں پھیل گئی کہ مندر سے بھگوان جی کا اپہرن ہو گیا۔ پورے گانو میں کھلبلی مچ گئی

”بڑی آشچرج جنک بات تھی۔ بھگوان جو ہر کسی کی رکھچا کرتے ہیں انہیں غائب کرنے کی کس نے ہمت کی۔ ہو نہ ہو یہ کسی ناستک کا کام ہے۔ یا ہو سکتا ہے وہ خود ہی لپت ہو گئے ہوں۔“ کچھ بھی ہو، ماحول گرم ہو چکا تھا

لوگ سڑک پر چلتے ہوئے ادھر ادھر ہو رہے تھے کیونکہ سامنے سے ایک بڑا جلوس آ رہا تھا۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے، جو بہت ہی جوش خروش سے نعرے لگا رہے تھے

“دیش کی رکھشا کرو۔ دھاندلی چھوڑ دو۔ گنڈاگردی بند کرو بند کرو بند کرو۔“

اچانک نہ جانے کیسے دو گروپ میں جھگڑا شروع ہو گیا

ہر طرف وحشت اور خوف کے بادل منڈلا رہے تھے۔ لوگوں کے چہرے پر مایوسیوں کی برف جمی ہوئی تھی۔ سب اپنے اپنے گھروں میں محبوس ہوکر رہ گئے تھے۔ لیکن وہ جو اقتدار حاصل کرنے کے نشہ میں چور تھے، انسانی ذہنوں میں تعصب کا بیج بو کر اندر ہی اندر اپنی کامیابی کا جشن منا رہے تھے

لڑائی ہاتھا پائی سے شروع ہوکر گولا بارود پر ختم ہوئی۔ پولس آئی مگر اس سے قبل بہت سارا خون بہہ چکا تھا۔ کیونکہ انسانی خون کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ یہ دوسری ساری چیزوں سے زیادہ ارزاں ہو چکا ہے۔ پھر گلی کوچوں میں جلی کٹی لاشیں سسکتی رہیں، تڑپتی رہیں۔ کئی دنوں تک یہ کھیل جاری رہا۔ سبھی حواس باختہ اور خوف زدہ تھے۔ مندر کے سامنے بھیڑ لگی تھی۔ بھگوان جی ہلدی سے لپے پتے اپنے آسن پر براجمان تھے۔ پنڈت پروہت کا کہنا تھا کہ بھگوان جی بیاہ رچانے گئے تھے۔ اور جیسے آگ سرد ہو گئی۔ بربریت کا زور تھم گیا۔ حالات قابو میں آ گئے۔ لیکن اب بھی لوگوں کی آنکھوں میں خوف چہرے پر وحشت اور بےسکونی چھائی تھی۔ ایسے میں مکھیا مسیحا بن کر سامنے آیا۔ اس نے لوگوں کے زخمی دلوں پر پھاہا رکھا۔ ہمدردی جتائی۔ پیسوں سے مدد کی۔ سب کے مرجھائے ہوئے چہروں پر سکون در آیا۔ مرنے والوں کا سوگ کب تک منایا جاتا کہ جانے والے تو لوٹ کر واپس نہیں آ سکتے۔ الکشن ہوا۔ مکھیا نے پیسہ پانی کی طرح بہا دیا۔ آخر اس کی فراغ دلی کام آ ہی گئی۔ کامیابی نے اس کے قدم چومے۔ مکھیا اب ودھائک بن چکا تھا۔ گانوواسیوں کو اس کے درشن درلبھ ہو گئے تھے

گانو اور گانووالوں کے حالات بدستور ویسے ہی تھے۔ سڑک اپنی خستہ حالی پر رو رہی تھی۔ بچے گلی کوچوں میں کھیلتے اور لڑتے جھگڑتے نظر آ رہے تھے۔ غریب بغیر دوا دارو کے مر رہے تھے۔ بھولے کا بچہ سخت بیمار تھا۔ وہ مدد کے لیے ودھائک جی کی حویلی پہنچا۔ اتفاق سے وہ حویلی کی بیٹھک ہی پر موجود تھا۔ بھولے اس کے قدموں پر گر گیا

”مائی باپ! ہمرا بچہ بہت بیمار ہے، اُو کے بچنے کا کوئی امید نا ہے۔ ہمری مدد کرو۔“

”بھولے! تُو تو جانتا ہے کہ یہاں سب ہی جرورت مند ہیں۔ کس کس کی مدد کی جائے۔تو ایسا کر کہ اپنا کوئی سامان بیچ دے۔“

”ہمرے پاس کا سامان ہے مالک۔“

“تیرے کتنے بچے ہیں؟“

”بھگوان کی کرپا سے مالک تین بیٹا اور پانچ بیٹی ہے۔“

”تو پھر کاہے چنتا کرتا ہے۔ اگر ایک بچہ مر بھی گیا تو تجھے کا فرق پڑتا ہے۔“

بھولے ہکا بکا منہ دیکھتا رہ گیا

”تو ای بھاسن ای جلوس یہ سب کا تھا۔“

معاً اس کی نظروں میں مکھیا کا چہر ایک بہروپیے کے چہرے میں بدل گیا۔ جس کی نہ کوئی ذات ہے، نہ دھرم۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close