سکھ رہنما کا قتل، کینیڈا کا مناسب وقت پر شواہد شیئر کرنے کا اعلان۔ یہ معاملہ یورپ کا امتحان کیسے بنا؟

ویب ڈیسک

کینیڈا کے سینیئر سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا ملک سکھ رہنما کے قتل میں انڈین ایجنٹ کے ممکنہ طور پر ملوث ہونے کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ مل کر ہر پہلو سے جائزہ لے رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق کینیڈا کے سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہم اس معاملے پر امریکہ کے ساتھ مل کر باریک بینی سے کام کر رہے ہیں۔ کینیڈا کے پاس موجود شواہد مناسب وقت پر شیئر کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ کینیڈا کے وزیراعظم نے خالصتان کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے واقعے میں انڈیا کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کینیڈا میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ پون کمار کو ملک بدر کیا تو انڈین حکومت نے اس الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انڈیا سے کینیڈا کے ایک سینیئر سفارتکار کو ملک چھوڑنے کا کہا

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کینیڈین انٹیلیجنس الزامات کا جائزہ لے رہی ہے۔ انڈیا نے اس دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے جوابی اقدام کے طور پر کینیڈین سفارت کار کو ملک چھوڑنے کے لیے پانچ دن کی مہلت دی تھی۔

اس تنازع نے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کو دھچکا پہنچایا ہے، جو برسوں سے کشیدہ ہیں کیونکہ نئی دہلی کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر ناخوش ہے۔

جسٹن ٹروڈو کے سابق خارجہ پالیسی مشیر اور اوٹاوا یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر رولینڈ پیرس کہتے ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ دونوں حکومتوں کے درمیان معمول کی بات چیت مشکل ہوگی جب تک یہ مسئلہ حل ہو۔

کینیڈا کے کنزرویٹو اپوزیشن لیڈر پیئر پوئیلیورسمیت کچھ رہنما جسٹن ٹروڈو پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ثبوت دکھائیں جو حکومت کے پاس ہیں

کمیونٹی گروپ سکھز آف امریکہ کے بانی اور چیئرمین جیسی سنگھ نے واشنگٹن کے ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے تھنک ٹینک کے زیر اہتمام ایک تقریب میں کہا کہ جسٹن ٹروڈو کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں

جیسی سنگھ نے کہا کہ ’انہوں (جسٹسن ٹروڈو) نے یہ بغیر ثبوت کے کہا کہ قابل اعتبار الزام ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا پڑے گا کہ آیا کوئی ثبوت موجود ہے اور پھر مزید فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ انڈیا میں سکھوں کی خالصتان تحریک کی حامی شاخ سے منسلک رہنے والے عہدیدار ہردیپ سنگھ نجار کو رواں سال 18 جون میں برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جب وہ گوردوارے کے اندر موجود تھے۔

ہردیپ سنگھ نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی کو کم از کم چار کیسز میں مطلوب تھے ان پر شدت پسندی اور ہندو پنڈت کے قتل کے لیے سازش کرنے کے علاوہ علیحدگی پسند سکھس فار جسٹس (ایس ایف جے) تحریک چلانے اور دہشت گردی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے الزامات تھے۔

معاملہ یورپ کا امتحان بن گیا

خالصتان کے حامی سکھ رہنما کے قتل کے معاملے نے جہاں کینیڈا اور انڈیا کے درمیان سفارتی تنازع کا روپ دھار لیا ہے، وہیں اس تنازعے پر مغربی دنیا میں تقسیم پیدا ہونے کے امکانات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے

انڈیا کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے پیش نظر امریکہ، برطانیہ اور دیگر اہم مغربی ممالک کینیڈا کا ساتھ دیں گے یا انڈیا کا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔

تاہم بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مغربی ممالک کے وزراء اور حکام اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ کینیڈا اور انڈیا کے درمیان سفارتی تنازع دوسرے ممالک کے بین الاقوامی تعلقات کو خراب نہ کرے

پیر کے روز کینیڈین وزیر اعظم کی پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کے بعد سے نئی معلومات سامنے آئی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ امریکا انٹیلیجنس پر مبنی معلومات جمع کرنے میں ’بہت قریب سے‘ شریک تھا، جن کی وجہ سے کینیڈا میں حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ بھارتی ایجنٹس ہردیپ سنگھ نچر کے قتل میں ممکنہ طور پر ملوث تھے

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز نے کینیڈین حکومت کے سینئر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ہم امریکا کے ساتھ مل کر بہت قریب سے کام کر رہے ہیں، جس میں کل عوامی سطح پر کیا گیا انکشاف بھی شامل ہے

سینئر عہدیدار نے کہا کہ کینیڈا کے پاس موجود شواہد کو مناسب وقت پر شیئر کیا جائے گا

جبکہ منگل کو واشنگٹن میں موجود امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ کینیڈا کی تحقیقات کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ ’ہم اس معاملے پر اپنے کینیڈین ساتھیوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں۔ ہمیں الزامات کے حوالے سے کافی تشویش ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ضروری ہے کہ مکمل تحقیقات ہو اور ہم انڈین حکومت سے اس تحقیقات میں تعاون کرنے کی درخواست کریں گے۔‘

عالمی جغرافیائی اور سیاسی شطرنج کی بساط پر انڈیا ایک اہم کھلاڑی ہے۔ ایسے میں امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں ایسی کوئی چيز نہیں چاہیں گے جو انھیں انڈیا سے علیحدہ کر دے

انڈیا ناصرف ایک بڑھتی ہوئی طاقت ہے بلکہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت۔ اس کے ساتھ ہی مغربی ممالک اسے چین کے خلاف ممکنہ بندھ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں

انڈیا میں ہونے والے جی-20 ممالک کے حالیہ سربراہی اجلاس میں انڈیا کی اس اہمیت کا اظہار ہوا جب یوکرین کے مغربی اتحادیوں نے ایک حتمی اعلامیے پر اتفاق کیا، جس میں روس کے حملے کی مذمت نہیں کی گئی تھی۔

انھوں نے مشترکہ بیان پر کسی قسم کے تنازعے سے گریز کرتے ہوئے انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بچانے کا انتخاب کیا۔ یہ ایک ایسا انتخاب تھا، جس نے یوکرین میں کچھ لوگوں کو ناراض بھی کیا۔

مغربی سفارت کاروں میں دوسرا خوف یہ ہوگا کہ کینیڈا-انڈیا تنازعے میں کہیں دوسرے ممالک ایک دوسرے کے حلیف نہ بننے لگیں۔

دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی رواں ہفتے اس وقت کافی بڑھ گئی جب کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے مغربی کینیڈا میں جون کے مہینے میں ایک سکھ رہنما کے قتل کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا۔

حالیہ مہینوں میں انڈیا خود کو ترقی پذیر ممالک کے رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جسے بعض اوقات ’گلوبل ساؤتھ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی ممالک نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

امریکہ اور بعض یورپی ممالک ان ممالک کو منانے کی حقیقی سفارتی کوششیں کر رہے ہیں اور انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگ اور ان کی معیشت بھی ان کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔

عالمی سفارت کار یہ نہیں چاہیں گے کہ یہ تنازع ان کی کوششوں کو بکھیر دے اور کہیں یہ دو دولت مشترکہ ممالک کے درمیان شمالی بمقابلہ جنوبی جنگ نہ بن جائے جس میں ایک ٹرانس اٹلانٹک طاقت ہے تو دوسرا ترقی پذیر ملک۔

کینیڈا کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے یہ معاملہ امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے ساتھ بھی اٹھایا ہے۔

فی الحال کینیڈا کے اتحادی اس کے ساتھ وفادار تو ہیں لیکن محتاط بھی ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ امریکہ کو قتل کے الزامات پر ’گہری تشویش‘ ہے۔ اس کے ساتھ مزید کہا ہے کہ ’یہ انتہائی اہم ہے کہ کینیڈا کی تحقیقات آگے بڑھیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘

برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کے لیے، جہاں سکھ برادری کی اچھی خاصی تعداد ہے، اس طرح کے سفارتی تنازع پر گھریلو سیاسی نتائج کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

برطانیہ کے خارجہ سکریٹری جیمز کلیورلی نے کہا کہ برطانیہ ’کینیڈا کی طرف سے اٹھائے گئے سنگین خدشات کو بہت غور سے سنے گا۔‘

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے سوموار کو کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانی جولی سے ان الزامات کے بارے میں بات کی تھی اور برطانیہ نے ’کینیڈا کی باتوں کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔‘

برطانیہ کے خارجہ سکریٹری جیمز کلیورلی نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ آیا برطانیہ انڈیا کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کرے گا یا نہیں لیکن انھوں نے یہ کہا کہ برطانیہ مزید کارروائی کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے کینیڈا کی تحقیقات مکمل ہونے کا انتظار کرے گا۔

مسٹر کلیورلی نے کہا: ’کینیڈا اور انڈیا دونوں برطانیہ کے قریبی دوست ہیں، وہ دولت مشترکہ کے شراکت دار بھی ہیں۔‘

آسٹریلیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ کنبیرا ان الزامات سے ’سخت فکر مند‘ ہے، اور اس نے ’انڈیا کو سینیئر سطحوں پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔‘

لہٰذا، ابھی مغربی ممالک کو اس بات کا انتظار رہے گا کہ کینیڈا میں تفتیش کس طرح آگے بڑھتی ہے۔

کچھ اتحادیوں کو کینیڈین انٹیلی جنس کی معلومات تک رسائی ہوگی۔ اگر پختہ ثبوت ملیں گے تو ہو سکتا ہے کہ صورت حال تبدیل ہو جائے۔

اگر ایسا ہوا تو مغربی طاقتوں کو اوٹاوا اور دلی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ اور اس طرح یہ بات سامنے آئے گی کہ کون قانون کی حکمرانی کے اصول کی حمایت کرتا ہے اور کون حقیقی سیاست کی سخت ضرورت کے سامنے جھکتا ہے۔

ماضی میں مغربی ممالک نے روس یا ایران یا سعودی عرب جیسے ممالک کی طرف سے کیے گئے مبینہ ماورائے عدالت قتل کی مذمت کی ہے۔ وہ نہیں چاہیں گے کہ انڈیا بھی اس فہرست میں شامل ہو۔

عالمی دارالحکومتوں سے ردعمل

ان کشیدہ حالات کے دوران جب بھارت، کینیڈا کے خلاف جارحانہ انداز میں آگے بڑھنے کا سوچ رہا ہے، دنیا کے اہم ممالک کی جانب سے سامنے آنے والا ردعمل محتاط اور بھارت کے مقابلے میں کینیڈا کے مؤقف کا زیادہ حامی محسوس کیا گیا

برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کی حکومت کینیڈا کی تحقیقات کی حمایت کرتی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کیا ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت ملوث تھا

اسی طرح دارالحکومت کینبرا میں آسٹریلوی وزیر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ آسٹریلیا کو ان الزامات پر گہری تشویش ہے اور وہ اس معاملے میں جاری تحقیقات کو نوٹ کرتا ہے

ترجمان نے مزید کہا کہ ہم معاملے کی پیش رفت پر شراکت داروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں مصروف ہیں اور ہم نے اپنے تحفظات سے اعلیٰ سطح پر بھارت کو آگاہ کردیا ہے

آسٹریلیا اور کینیڈا فائیو آئیز انٹیلی جنس شیئرنگ گروپ کے رکن ہیں، دیگر اراکین میں امریکا، برطانیہ اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close