سیلاب متاثرین کے لیے عالمی امداد کی اپیلیں کرنے والے وزیر اعظم کی نیویارک میں شاہ خرچیاں تنقید کی زد میں

ویب ڈیسک

پاکستان میں تھری اور فور اسٹار جرنیلوں کے لیے ڈیوٹی فری لگژری کاروں کی درآمد اور وزیر اعظم شہباز شریف کے نیو یارک میں ٹھاٹھ باٹ کی خبروں نے ملک کے کئی حلقوں میں تنقید کا ایک طوفان برپا کر دیا

معروف صحافی متین حیدر نے روف کلاسرا اور عامر متین کے ایک پروگرام میں انکشاف کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے سلسلے میں نیو یارک کے ایک مہنگے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں، جس میں ایک کمرے کا کرایہ پانچ ہزار ڈالر جب کہ سوئیٹ کا کرایہ نو ہزار ڈالر ہے

اس کے برعکس سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے دورہ نیو یارک کے دوران پاکستانی ہوٹل میں ٹھہرے تھے

کچھ ناقدین وزیر اعظم شہباز شریف پر اس حوالے سے بھی تنقید کر رہے ہیں کہ وہ بہت بڑا وفد لے کر نیو یارک پہنچے ہیں، جس پر سرکاری خزانے سے پیسہ خرچ ہو رہا ہے

وزیراعظم کے دورے کی شاہ خرچیوں کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان میں سنجیدہ حلقوں کی جانب سے ان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے

واضح رہے کہ گزشتہ روز انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک خبر میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وفاقی کابینہ نے تھری اسٹار اور فور اسٹار ریٹائرڈ جرنیلوں کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ چھ ہزار سی سی کی کاریں ڈیوٹی فری برآمد کر لیں۔ ان کاروں پر ٹیکسز بھی لاگو نہیں ہوں گے

سوشل میڈیا پر تنقید کی وجہ سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اس معاملے کی وضاحت کے لیے فی الحال نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا اور اس کے لیے وزیر اعظم کی اجازت کا انتظار کیا جا رہا ہے، مزید براں ایف بی آر نے ایک ٹویٹ میں اس خبر کی تردید بھی کی ہے

تاہم سوشل میڈیا پر وزارت خزانہ کا ایک نوٹیفیکیشن شیئر کیا جا رہا ہے، جس میں گاڑیوں کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دی گئی ہے۔ جبکہ حکومتی ترجمان کی طرف سے اس خبر کی اب تک کوئی تردید نہیں آئی ہے

تینوں سروسز چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی ریٹائرمنٹ کے فورا بعد اس طرح کی کاریں درآمد کر سکیں گے۔ تھری اسٹار جنرل ایک ایک ایسی کار در آمد کر سکیں جبکہ فور اسٹار جنرل اس طرح کی دو دو گاڑیاں درآمد کر سکیں گے

اخبار کے مطابق انہیں پانچ برس تک مارکیٹ میں بیچا نہیں جا سکے گا۔ اگر ان کو اس مدت سے پہلے بیچا گیا، تو تمام ڈیوٹی اور ٹیکسز بیچنے والے کو ادا کرنے پڑیں گے

اس خبر کے نشر ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ سیاست دانوں سے لے کر صحافیوں تک سب نے اس حکومتی فیصلے کو ہدف تنقید بنایا۔ معروف صحافی مبشر زیدی نے لکھا کہ اس انقلابی اقدام کی منظوری کابینہ نے دی ہے

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے لکھا، ”صاحبانِ اختيار اس خبر کی تصديق يا ترديد کريں کہ فوج سے ريٹائر ہونے والے جنرل صاحبان کو 6000 cc کی دو گاڑياں ڈيوٹی/ٹيکس فری منگوانے کی اجازت ہوگی۔ پاکستان تو اس عياشی کا مُتحمل نہيں ہو سکتا۔ جنرل صاحبان کی خوشنودی کی خاطر ايسا فيصلہ رشوت، غريب عوام پر ظُلم اور فوج کی بدنامی ہے۔‘‘

کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، حاکم طبقات عوام کے پیسے اس طرح اڑا رہے ہیں

ایف بی آر سے وابستہ سابق عہدیدار ڈاکٹر اکرام الحق کہتے ہیں ”اس طرح کی کاروں میں ڈیوٹی ڈھائی سو فیصد ہوتی ہے جبکہ ڈیوٹی کا تقریبا پینتیس فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس کی شکل میں دینا ہوتا ہے۔ جو بہت بڑی رقم بنتی ہے۔‘‘

اکرام الحق کے مطابق کرڑوں عوام سیلابوں کی وجہ سے فاقہ کشی کا شکار ہیں اور ایسے میں وزیر اعظم کے دورے میں شامل افراد کی شاہ خرچیاں اور ٹیکس فری کار کی امپورٹ کا فیصلہ انتہائی شرمناک ہے

اس فیصلے اور وزیر اعظم کے مہنگے دورہ نیو یارک پر تنقید صرف کچھ حلقوں کی طرف سے ہی نہیں ہو رہی بلکہ حکومتی اتحاد میں شامل کچھ جماعتیں بھی اس پر تنقید کر رہی ہیں۔ جے یو آئی ایف کی مرکزی شوری کے رکن محمد جلال الدین ایڈوکیٹ نے اس حوالے سے کہا ”ہم اس امپورٹ کے شدید مخالف ہیں۔ ہمارے خیال میں جرنیلوں، ججوں اور وزرا کو اس طرح کی رعایت بالکل نہیں ملنی چاہیے۔ ہم اس رعایت کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔‘‘

محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کے مطابق اگر وزیر اعظم نے بھی اپنے دورے کے دوران مہنگے ہوٹل میں قیام کیا ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔ ”ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم یا وزرا کو سادگی اپنانی چاہیے۔ امریکی عہدیدار آ کر اپنے سفارتخانوں مین قیام کرتے ہیں، تو ہم اور ہمارے حکمراں ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close