عراق: پرتشدد واقعات میں متعدد افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی

بااثر شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کے سیاست چھوڑنے کے اعلان کے بعد سے بغداد میں پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک تقریباً 20 افراد ہلاک اور تین سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں

عراق کے طاقتور شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدرنے پیر کے روز سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لینے اور ملک میں جاری سیاسی تعطل کی وجہ سے اپنے تمام اداروں کو بند کر دینے کا اعلان کیا، جس کے بعد سے ان کے ناراض حامی سڑکوں پر اتر آئے۔

کل سے جاری پرتشدد واقعات میں اب تک کم از کم 20 افراد کے ہلاک اور 350 دیگر کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

اطلاعات کے مطابق پرتشدد مظاہرین نے بغداد میں انتہائی سکیورٹی والے علاقے گرین زون میں واقع سرکاری عمارت ری پبلیکن پیلیس پر بھی دھاوا بول دیا۔ خونریز جھڑپوں میں دو عراقی فوجیو ں کی ہلاکت کی بھی خبریں ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل داغے۔ تشدد کا سلسلہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا ہے

مقتدیٰ الصدر نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کیوں کیا؟

مقتدیٰ الصدر نے ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا، "میں نے سیاسی امور میں حصہ نہیں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں اب حتمی طورپر سیاست سے اپنی سبکدوشی کا اعلان کرتا ہوں۔” انہوں نے مزید کہا، "اگر میں مر جاؤں یا قتل کر دیا جاؤں تو آپ میرے لیے دعا کریں۔”

مقتدیٰ الصدر ایک عرصے سے عراق کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ وہ تاہم اصلاحات کی اپنی اپیلوں پر ساتھی شیعہ رہنماؤں کی جانب سے تعاون نہیں ملنے پر نالاں بھی ہیں۔

اپنے دفاتر کو بند کرنے کی کوئی وجہ بتائے بغیر الصدر کا کہنا تھا کہ ان کے بعض ثقافتی اور مذہبی ادارے کام کرتے رہیں گے

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مقتدیٰ الصدر نے سیاست سے سبکدوشی کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ سے ان کا ناقدین کا کہنا ہے کہ پیرکے روز انہوں نے جو اعلان کیا اس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔

جیسے ہی ان کے حامیووں اور مخالف گروپوں کے درمیان تصادم کی خبریں آنی شروع ہوئیں، مقتدیٰ الصدر نے بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک تصادم کا سلسلہ بند نہیں ہو جاتا وہ بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے

ملک گیر کرفیو کا اعلان

عراقی فوج نے ملک گیر کرفیو کا اعلان کیا ہے جب کہ وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے کابینہ کے اجلاس معطل کر دیے ہیں۔ انہوں نے سکیورٹی فورسز اور فوج یا مسلح عہدیداروں سے "مظاہرین پر فائرنگ کرنے سے گریز کرنے” کی اپیل کی۔

عراق میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم آئی) نے نئی پیش رفت کو انتہائی خطرناک قرار دیا اور تمام فریقین سے کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنے کا مشورہ دیا جس کے نتیجے میں ناخوشگوار واقعات کا لامتناہی سلسلہ نہ شروع ہو جائے

امریکہ نے بھی عراق میں متحارب سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات پر زور دیا ہے تاکہ صورت حال پر امن رہے اور سیاسی اختلافات تشدد کی شکل اختیار نہ کر جائیں اور موجودہ کشیدگی مزید عدم استحکام میں تبدیل نہ ہو جائے۔

امریکہ نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ بغداد میں امریکی سفارت خانہ خالی کر دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ اکتوبر میں پارلیمانی انتخابات میں الصدر کی جماعت سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی تاہم وہ حکومت بنانے میں ناکام رہی۔ انہوں نے ایرانی حمایت یافتہ اپنے حریفوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے ا نکار کردیا تھا جس کے بعد سے ہی ملک میں سیاسی غیر یقینی کی صورت حال ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close