فیصل آباد میں بھگت سنگھ کا گاؤں، جس کے مکین آج بھی ان پر فخر کرتے ہیں۔۔

ویب ڈیسک

بھگت سنگھ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے گاؤں 105 چک بنگے میں 27 ستمبر 1907 کو پیدا ہوئے، آج بھی ان کا شمار جنگِ آزادی کے اہم ہیروز میں ہوتا ہے

بھگت سنگھ کی یادیں آج بھی اس گاؤں میں ان کی رہائش گاہ اور اسکول کی صورت میں موجود ہیں، جنہیں دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں

اس گاؤں کو جانے والی ذیلی سڑک کے آغاز پر بھگت سنگھ کے کارناموں سے مزین بورڈ یہاں سے گزرنے والوں کو جنگ آزادی میں پھانسی کا پھندا چومنے والے اس انقلابی ہیرو کی یاد دلاتا ہے

چند ہزار آبادی والے اس گاؤں میں اکثریت 1947ع کی تقسیم کے بعد بھارت سے پاکستان آنے والے لوگوں کی ہے، جو ایک طرف آج بھی اپنے آبائی علاقوں کو یاد کرتے ہیں، جنہیں وہ چھوڑ کر آئے ہیں، وہیں انہیں جنگ آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ کے اس گاؤں میں رہنے پر فخر بھی ہے

اگرچہ یہاں اب کوئی سکھ یا ہندو خاندان تو رہائش پذیر نہیں ہے، لیکن بھگت سنگھ کی حویلی کو ثقافتی ورثہ قرار دے کر اصل حالت میں بحال کرنے کے بعد ایک فوٹو گیلری میں تبدیل کر دیا گیا ہے

یہ حویلی تقسیم کے بعد مقامی وکیل ثاقب ورک کے بزرگوں کو الاٹ ہوئی تھی اور اب وہی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں

ثاقب ورک کے مطابق 1947ع میں یہ گھر ان کے دادا فضل قادر ورک کو الاٹ ہوا تھا

انہوں نے بتایا ”یہ 1890ع کے بنے ہوئے دو کمرے ہیں، جو اسی حالت میں موجود ہیں جیسے بھگت سنگھ کے والدین نے بنائے تھے“

ثاقب ورک بتاتے ہیں ”اس کی چھت خراب ہو گئی تھی۔ اس کی چھت کو اتار کر دوبارہ کچھ شہتیر اور بالے نئے ڈالے گئے اور باقی جو تھے، ان کو رندہ لگا کر دوبارہ قابل استعمال بنا لیا گیا“

بھگت سنگھ کی آبائی رہائش گاہ اور اسکول کو ثقافتی ورثہ قرار دینے کا سہرا نور الامین مینگل کے سر ہے، جنہوں نے 2014ع میں ثقافتی اسے ورثہ قرار دے کر اس کی بحالی و تزئین و آرائش پر لگ بھگ ایک کروڑ روپے کے فنڈز خرچ کیے تھے، جب وہ یہاں ڈی سی او تھے

ثاقب ورک کے مطابق بھگت سنگھ کی جنم بھومی کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں اور انہیں فخر ہے کہ وہ اس حویلی کو دیکھنے اور بھگت سنگھ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آنے والوں کی میزبانی کرتے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ اس گھر میں لگے دروازے، کھڑکیاں، فرش اور چھتیں تمام کی تمام تقریباً اسی دور کی ہیں، جبکہ بھگت سنگھ کے زیر استعمال تجوری، چرخے اور ان کے ہاتھ کے لگائے ہوئے بیری کے درخت کو وہ اس حویلی کا قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس گھر کی دیکھ بھال کا خرچہ خود اٹھاتے ہیں اور اگر حکومت اس ثقافتی ورثے کو قومی تحویل میں لے کر اسے مزید بہتر بنانا چاہتی ہے تو وہ اس کا کوئی معاوضہ نہیں لیں گے بلکہ اس میں لگی ہوئی سینکڑوں تاریخی تصویروں اور دیگر اشیا کو بھی عطیہ کر دیں گے

بھگت سنگھ یا ان کی جدوجہدِ آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے اس گاؤں کے زیادہ تر افراد تو اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن گاؤں کے بزرگ افراد اب بھی بھگت سنگھ کو ایسے ہی یاد کرتے ہیں، جیسے کوئی اپنے پرکھوں کا ذکر کرتا ہے

محمد صدیق ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں اور ان کی عمر پچھتر سال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بھگت سنگھ نے جس کم عمری میں آزادی کے لیے جدوجہد کی، اس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے

محمد صدیق کہتے ہیں ”بھگت سنگھ کہتا تھا کہ یہ ملک ہمارا ہے، یہاں کی زمین بھی ہماری ہے لیکن حکومت، حکمرانی اور قانون انگریز کا چلے، یہ مجھے منظور نہیں اور اسی جدوجہد میں اس نے اپنی جان بھی قربان کر دی“

انہوں نے بتایا کہ بھگت سنگھ اور ان کے بزرگ انگریزوں سے آزادی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ رفاع عامہ کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے

انہوں نے بتایا ”بھگت سنگھ کے والدین نے گاؤں کے لیے پرائمری اسکول منظور کروایا، جس میں دیگر بچوں کے ساتھ ان کا بیٹا بھی پڑھتا تھا“

اس کے علاوہ انہوں نے لوگوں کو سہولت دینے کے لیے ’جنج گھر‘ بنایا، وہاں کنواں بنایا، برآمدے اور بیٹھکیں بنائیں اور گاؤں کے لیے پانی کے تین تالاب بنوائے

محمد صدیق کے مطابق ان کے بزرگ مثال دیا کرتے تھے کہ یہاں سکھ رہ کر گئے ہیں اور انہوں نے گاؤں کا کیسا اچھا نظام قائم کیا تھا لیکن بعد میں آنے والوں نے ہر چیز تباہ کر دی

بھگت سنگھ نے گاؤں کے جس اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی، وہ اسکول اب بھی قائم ہے اور اس میں دو کمروں کی وہ عمارت آج بھی اسی حالت میں موجود ہے، جیسی وہ آج سے سو سال پہلے تھی

جس کلاس روم میں کبھی بھگت سنگھ بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے اس کی دیواروں پر اب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے ساتھ ساتھ بھگت سنگھ کی تصاویر بھی آویزاں ہیں

اس اسکول کے ہیڈماسٹر نصیر احمد خود بھی بھگت سنگھ کے چاہنے والوں میں شامل ہیں اور انہوں نے اپنے ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک طویل نظم بھی لکھی ہے، جو اس تاریخی عمارت کے کلاس رومز اور بھگت سنگھ کی آبائی حویلی میں آویزاں ہے

انہوں نے بتایا ”جب باہر سے لوگ اس تاریخی اسکول کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں، تو پھر یہاں پڑھنے والے طالب علموں میں بھی یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھگت سنگھ کی طرح اپنا اور اپنے گاؤں کا نام روشن کریں“

نصیر احمد کہتے ہیں ”آج بھگت سنگھ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی فکر کو اپنایا جائے، نئی نسل کو بتایا جائے کہ مذہب، رنگ اور نسل سے زیادہ اہم انسان ہونا اور انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کرنا ہے“

انہوں نے کہا ”بھگت سنگھ نے جو ایک تحریک چلائی تھی، جو اس کی فکر تھی، اس فکر کو آگے لے کر چلیں تو ہم یکجا ہو سکتے ہیں۔ مذہب الگ الگ ہو سکتے ہیں، فرقے الگ الگ ہو سکتے ہیں مگر انسان تو ایک جیسے ہی ہیں“

ان کا کہنا تھا کہ بھگت سنگھ نے کسی خاص مذہب یا فرقے کی جنگ نہیں لڑی بلکہ وہ اس خطے کے پسے ہوئے پسماندہ طبقوں کو بلا تفریق مذہب انگریزوں کے جبر سے نجات دلانا چاہتے تھے

نصیر احمد کہتے ہیں” یہ بھگت سنگھ کی سوچ اور فکر کی جیت ہے کہ جہاں دو ملکوں کا مذہب کے نام پر بٹوارا ہوا تھا وہاں آج بھی بھگت سنگھ کو سرحد کے دونوں جانب اپنا ہیرو تسلیم کیا جاتا ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close