’بند مٹھی لاکھ کی، کھل گئی تو خاک کی‘
ہر جلسے سے پہلے حقیقی آزادی کے لیے فیصلہ کن تحریک کا طبل بجنے کی آس بندھائی جاتی ہے۔ سب دم سادھے انقلابی اعلان کے انتظار میں ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔ تقریر کے آغاز میں امید دلائی جاتی ہے کہ اہم اعلان آخر میں ہوگا۔ آخر بھی آ کے چلا جاتا ہے اور حتمی اعلان بھی اگلے جلسے تک کے لیے سینت لیا جاتا ہے
سانڈے کا تیل بیچنے والا بھی پرہجوم بازار کے فٹ پاتھ پر چادر بچھاتا ہے۔ ٹوکری سے نکال کر چار پانچ زندہ سانڈے الٹے کر کے سجاتا ہے۔ تیل کی چار پانچ شیشیاں آگے پیچھے پروستا ہے۔ کسی باتصویر یورپی یا جاپانی رسالے سے کاٹی ہوئی روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے والی تصاویر سجاتا ہے
اور پھر تقریرِ دل پذیر اس وعدے سے شروع ہو جاتی ہے کہ آخر میں وہ اپنی پٹاری سے دنیا کا سب سے زہریلا سانپ نکال کے گلے میں ڈال کے اس سے اٹھکیلیوں کا خطرناک مظاہرہ کرے گا۔ اور اسی سانپ کا منکا بھی دکھائے گا جسے دودھ میں ڈبو کر دودھ پینے سے انسان ایک سو ستر حوروں کا سامنا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے
پھر اصل مدعے یعنی سانڈے کے تیل کے فضائل پر ذاتی تحقیق پر مبنی جادو بیانی شروع ہو جاتی ہے۔ تقریر کے آخر تک مجمع میں سے کم ازکم درجن بھر افراد سانڈے کے تیل کی تباہ کن قوت سے مغلوب ہو شیشیاں خرید لیتے ہیں۔ بعضے بعضے تو تصوراتی ہوکے میں دو تین چار خرید لیتے ہیں۔ مگر مجمع کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا کے سب سے زہریلے سانپ کی رونمائی کے انتظار میں اور بڑھ جاتا ہے
جب مطلوبہ تعداد میں شیشیاں بک جاتی ہیں تو تیل فروش اگلے جمعے کو اسی جگہ پر دنیا کے سب سے زہریلے سانپ کی نمائش کا وعدہ کر کے سامان لپیٹ اگلے چوک کا رخ کرتا ہے۔ متجسس تماشائیوں کی تعداد کبھی کم نہیں ہوتی۔ نہ ہی تیل والے کی روزی میں کوئی کمی آتی ہے
سانڈے کا تیل ایک ہی طرح سے تھوڑی بک رہا ہے۔ ایک صاحب معاہدہِ تاشقند کا سانپ پٹاری سے نکالنے کے وعدے پر مجمع لوٹ کے لے گئے
ایک صاحب چادر سے نظامِ مصطفیٰ نکالتے نکالتے ایک دن خود بھی نکل لیے
ایک صاحب تیس برس تک شہری علاقوں کو حقوق دلانے کا معجونِ فلک سیر ٹنوں کے حساب سے فروخت کر کے سٹک لیے
ایک صاحب نے ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کا وعدہ کیا، وعدہ پورا نہیں کر پائے تو خود شیر کی کھال پہن لی، پھر بے آبرو ووٹ کی عزت بحال کرانے کا اکسیری مرہم بیچا اور اب اقتصادی کمزوری کا مردانہ تیل بنا کے پرانی شیشیوں میں بھرنے میں لگے پڑے ہیں
ایک اور صاحب نے پہلے کرپشن کے سو دن میں خاتمے کا چورن بیچا اور اب حقیقی آزادی کے کشتے کی کامیاب مارکیٹنگ جاری ہے۔ نہیں بدلی تو تماشائیوں کی سہل پسند نفسیات نہیں بدلی
جو شخص سانڈے کا تیل خرید سکتا ہے وہ کوئی بھی چورن، مرہم یا پھکی خرید سکتا ہے۔ بس یہ کہ بیچنے والا ممکنہ گاہکوں کی جبلی روحانی و جسمانی کمزوریوں، خواہشات اور بے صبر طبیعت کو شاندار گرما گرم تقریر کے دھاگے میں پرونے کی صلاحیت رکھتا ہو
سچ پوچھیں تو ہمیں بھی منزل نہیں لچھا ساز رہنما چاہیے۔ وہ خواب فروش چاہیے جو تلخ زندگی کے چند محروم لمحوں کی مانگ وعدوں کے موتیوں سے بھر دے
اس برصغیر میں وہی فلم باکس آفس پر کھڑکی تڑواتی ہے، جس کی کہانی کوہ قاف کی سیر کروا سکے۔ اس خطے میں وہی لیڈر سپر اسٹار بن سکتا ہے جو تمام پیچیدہ مسائل کا ہپناٹک حل ایک چٹکی میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہمیں ہر دم نیا گیت، تازہ جادو بیانی، دلفریب جھوٹ اور جاذبِ نظر راک اسٹار چاہیے
ہماری فلمی شاعری دیکھ لیجیے۔ ’پل بھر کے لیے کوئی ہمیں پیار کر لے جھوٹا ہی سہی‘، ’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ‘، ’جنا تیری مرضی نچا بیلیا‘، ’اگر مجھ سے محبت ہے تو اپنے غم مجھے دے دو‘، ’چین اک پل نہیں اور کوئی حل نہیں‘ ، ’ایک دنیا نئی دکھا دی ہے، تو نے کیا شے مجھے پلا دی ہے‘، ’جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں‘، ’میں دنیا بھلا دوں گا تیری چاہ میں‘، ’وے سب توں سوہنیا ہائے وے من موہنیا‘۔۔۔۔ اور کتنی مثالیں چاہییں؟
روٹی تو ہم پہلے بھی کما رہے تھے، اب بھی کما لیں گے۔۔ زندگی پہلے بھی ہمیں گذار رہی تھی، آئندہ بھی گذار ہی لے گی۔۔ غربت ازل سے ہے ابد تک رہے گی، طاقت کا ہمیشہ سے ڈنکا پٹتا ہے، آئندہ بھی ہمارا ڈنکی ہی پٹے گا۔ انصاف پہلے بھی خیرات تھا، آئندہ بھی اپنے اپنوں میں بٹے گا
بس تم ہمیں انٹرٹین کرتے رہو، زندگی کی بوریت کم کرنے کے لیے نت نئے جادو سے حیران کرتے رہو۔ گڑ دو نہ دو، گڑ جیسی بات کرتے رہو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں تب تلک جب تک بستی میں کوئی تم سے بہتر نیا شعبدے باز نمودار نہیں ہو جاتا۔
یہ توہم کا کارخانہ ہے،
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا (میر)
بشکریہ: بی بی سی اردو