مقبوضہ کشمیر کی ایک ان پڑھ شاعرہ نے اپنی شاعرانہ تخلیقات کو ذہن نشین کرنے کے لیے ایک انوکھا رسم الخط ایجاد کیا ہے، جسے صرف وہ خود ہی لکھ اور پڑھ سکتی ہیں
سری نگر سے چالیس کلومیٹر دور بانڈی پورہ کے ایک گاؤں میں رہنے والی ظریفہ جان نے کشمیری زبان میں سینکڑوں نظمیں کہی ہیں۔ وہ اپنی نظمیں اور اشعار یاد رکھنے کے لیے اپنی ہی تخلیق کردہ ایک منفرد علامتی زبان کا استعمال کرتی ہیں
ان کی یہ زبان دائروں کی شکل میں ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ یہ دائرے کی علامات ایک دوسرے سے بہت معمولی طور پر مختلف ہیں
یہ دائرے ان کی منفرد زبان کے الفاظ ہیں۔ ان دائروں کی زبان میں وہ اپنی شاعرانہ تخلیق لکھتی ہیں اور انہیں پہچان کر وہ اپنا پورا کلام سناتی ہیں
ظریفہ نے اپنی شاعری میں تصوف کے موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے گھر والوں کے مطابق، وہ بچپن سے تصوف سے متاثر تھیں لیکن وہ پڑھ لکھ نہیں سکیں
ظریفہ سے پوچھا گیا کہ دائروں کی شکل میں اس ’ڈڈ‘ زبان کا تصور ان کے ذہن میں کیسے آیا؟ تو انہوں نے کہا ”شادی کے بعد میں ایک دن مٹکے میں پانی بھرنے گئی تھی۔ وہیں مجھے چکر آیا اور میں بے ہوش ہو کر گر گئی۔ اسی وقت کسی نے مجھے ذہن میں اس زبان کے بارے میں بتایا۔ تب سے میں اسی زبان میں اپنے اشعار رقم کرتی ہوں“
انہوں نے بتایا ”جب میرے ذہن میں پہلا کلام آیا اس وقت میرے سر پر ایک مٹکا تھا۔ میرے چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔ میں نے آہستہ آہستہ یہ مٹکا نیچے اتارا۔ میری نظر چھوٹے بچوں کے بستوں پر پڑی اور میں نے ایک پینسل نکالی اور اپنا پہلا کلام ان دائروں کی زبان میں لکھا“
ظریفہ اس واقعہ کو تصوف سے جوڑ کر دیکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد ان کا کلام نکھرتا گیا
اگرچہ وہ پڑھی لکھی نہیں ہیں، لیکن ان کے صوفیانہ اشعار بہت معیاری ہوتے ہیں اور ان میں وزن قافیے اور قواعد کا صحیح استعال ہوتا ہے
ظریفہ جان مقامی لوگوں میں بہت مقبول ہیں اور انہیں بہت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ کئی اعزازات سے بھی نوازی جا چکی ہیں۔ وہ اپنے کلام موقع کی مناسبت سے بہت شوق سے سناتی ہیں
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ظریفہ کی منفرد زبان بعض سائنسی اصولوں پر قائم ہے
ریاضی دان ڈاکٹر شہباز خان کہتے ہیں ”کمپیوٹر کی زبان صفر اور ایک کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ظریفہ بھی دائروں اور کہیں کہیں ایک کا استعمال کرتی ہیں۔ ابھی تو صرف وہی اس زبان کو سمجھ سکتی ہیں لیکن بہت ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں دائروں کی یہ زبان واضح ہو سکے اور دوسرے لوگ بھی اسے لکھ اور پڑھ سکیں“
اب تک تین سو سے زائد نظمیں اور کلام تخلیق کرنے والی ظریفہ جان کا ارادہ اس کلام کو شائع کرانے کا ہے۔ انہیں جب بھی موقع ملتا ہے یا جب ان کے ذہن میں نئے اشعار آتے ہیں، وہ انہیں دائروں کی اپنی زبان میں نوٹ کر لیتی ہیں
وہ تیقن کے ساتھ کہتی ہیں ”ایک وقت آئے گا جب یہ دائرے بھی زبان بنیں گے۔ کوئی ایسا انسان ضرور آئے گا چاہے میرے مرنے کے بعد یا اس سے پہلے، یہ ایک زبان بنے گی“