تباہی کے دہانے پر کھڑی پی آئی اے اس حال تک کیسے پہنچی؟

ویب ڈیسک

حکومت پاکستان نے قرض کے بوجھ تلے دبی قومی فضائی کمپنی، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے منصوبوں کا اعلان کر دیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ایئرلائن مالی لحاظ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ سے حکومت اسے نجی ہاتھوں میں سونپنے اور ایئرپورٹ آپریشنز کی آوٹ سورسنگ کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے

حکومت کے اس اعلان کے بعد ملازمین کو اپنی ملازمتوں اور پنشن کے متعلق تشویش لاحق ہے اور وہ حکومت کے منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جبکہ بعض حلقے یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ کیا نجکاری ہی وہ واحد حل ہے، جو پی آئی اے کو مالی بحران سے نکال سکتی ہے؟

ملک ان دنوں اقتصادی مسائل کا شکار ہے، ایسے میں حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو سبسڈی نہیں دے سکتی۔ یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب پاکستان اپنے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے جون میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے تین ارب ڈالرکا قرض حاصل کرنے کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوا تھا

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان کے مطابق، ایئر لائن ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہے، جن کی نجکاری پر غور کیا جا رہا ہے اور اس کی نجکاری جلد ہی ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول، قومی ایئرلائن کو اس وقت اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیرِ نجکاری فواد حسن فواد تو اس میں ایک دن کی تاخیر کے بھی روادار نظر نہیں آتے

لیکن پی آئی اے آفیسر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم کا کہنا ہے کہ بعض عناصر اپنے مفادات کی خاطر جان بوجھ کر پی آئی اے کا تشخص خراب کر رہے ہیں

انہوں نے کہا کہ اس وقت جو جہازوں کا فلیٹ چل رہا ہے، اس سے بھی پی آئی اے کو 22 ارب روپے کے لگ بھگ منافع مل رہا ہے۔ اور اس کے اخراجات 20 ارب روپے کے لگ بھگ اخراجات ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ ان قرضوں کا ہے جو پی آئی اے پر واجب الادا ہیں، جو ان کے مطابق، ماہانہ کوئی آٹھ ارب روپے کی قسطیں بنتی ہیں

انہوں نے کہا کہ حکومت اب بھی پی آئی اے کی مالی مدد اور انتظامی طور پر اہل افراد تعینات کرے، جو کسی دباؤ کے بغیر کام کر سکیں تو یہ قومی اثاثہ تباہی اور کوڑیوں کے مول بکنے سے بچ سکتا ہے

صفدر انجم کا خیال ہے کہ ایسے عناصر جو پی آئی اے کی نجکاری کرنا چاہتے ہیں، ان کی اصل نظر پی آئی اے کے لینڈنگ رائٹس پر ہے

اُن کے بقول قومی ایئرلائن کو نیویارک، لندن، یورپ کے مختلف شہروں سمیت مشرق بعید کے ممالک، افریقہ اور آسٹریلیا تک میں پروازیں اتارنے کی اجازت حاصل ہے۔ لیکن مختصر فلیٹ ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا اور یہ حقوق ہی ان کے مطابق اربوں ڈالرز کے ہیں

دوسری جانب پی آئی اے کے ملازمین اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت اس ایئرلائن میں لگ بھگ گیارہ ہزار ملازمین ہیں

پی آئی اے سے گزشتہ سال ریٹائرڈ ہونے والی ایک ملازمہ روبینہ خان کا کہنا ہے کہ انہیں تشویش ہے کہ کہیں ان کی پنشن نہ رک جائے اور دیگر ملازمین، جنہیں ملازمت سے فارغ کیا جا سکتا ہے، ان کے واجبات بھی ادا نہیں کیے جائیں گے۔

ایک اور سبکدوش ملازم جاوید اختر نے بتایا کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ پہلے ہی بے روزگار ہیں اور پی آئی اے کی نجکاری سے مزید افراد کی ملازمت چھن جائے گی۔ فطری طور پر ملازمین اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان ہیں

ایئر لائن کے انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ”پی آئی اے کے ایگزیکیوٹیو کو بھاری بھرکم تنخواہیں ملتی تھیں اور انہیں بڑی مراعات اور دیگر نوازشات سے بھی نوازا جاتا تھا اور اب دیگر ملازمین کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔“

پی آئی اے کے ادارے نے عروج کے بعد زوال کا عروج دیکھا ہے۔ نجی سرمایہ کاروں کے ذریعہ اورینٹ ایئر کے نام سے شروع کی گئی ایئرلائن کو سن 1950کی دہائی میں حکومتی کنٹرول میں لے لیا گیا اور اس کا نام پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) رکھا گیا

ایک وقت تھا کہ پی آئی اے کا شمار اس علاقے کی بہترین ایئرلائنز میں ہوتا تھا، لیکن آج یہ سنگین بحران سے دوچار ہے۔ کمپنی کو کئی سالوں سے مالی مسائل کا سامنا ہے اور متعدد ملازمین کے سبکدوش ہوجانے کے باوجود سن 2017 سے اس میں قابلِ ذکر بھرتیاں نہیں کی گئیں۔ اس وقت اس کے تیس میں سے صرف انیس طیارے آپریشنل ہیں

حکومتی تیل کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل نے بھی واجبات کی عدم ادائیگی کے سبب قومی ایئر لائن کو تیل کی سپلائی بند کر دینے کی دھمکی دی ہے۔ ایئرلائن کو واجبات کی عدم ادائیگی اور اس کے طیاروں کو ضبط کرنے کی دھمکی کے معاملے پر ملیشیا میں قانونی چارہ جوئی کی ہزیمت بھی اٹھانی پڑی۔ اس پر مستزاد یہ کہ جعلی پائلٹ لائسنس اسکینڈل کی وجہ سے یورپ اور برطانیہ کے لیے پی آئی اے کی پروازیں سن 2020 سے معطل ہیں

ایوی ایشن انڈسٹری کے تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی چند ماہ یا چند برسوں کی کہانی نہیں بلکہ دہائیوں کی بدعنوانی اور اقربا پروری نے دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں سے ایک کو موجودہ تاریک حال تک پہنچا دیا ہے

ایوی ایشن ایکسپرٹ طاہر عمران کا کہنا ہے ”پی آئی اے موجودہ حالت کو ایک دن میں نہیں پہنچی بلکہ اس میں بدانتظامی برسوں سے ہوتی چلی آئی ہے۔ یہاں جنرل ضیاء کی آمریت کے دور میں لیے گئے کچھ فیصلے ایسے تھے، جس کے بعد سے اس کی تنزلی کا سفر شروع ہوا“

اُن کے بقول اہل انتظامیہ کا فقدان، سول حکومتوں، فوج اور ایئرفورس کی پی آئی اے کے امور میں مسلسل مداخلت اس کی چند ایک وجہ ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ آج سے دس سال سے بھی کم عرصے قبل تک پی آئی اے وفاقی وزارتِ دفاع کے ماتحت تھی

طاہر عمران کہتے ہیں کہ ایک جانب دنیا کی بہترین ایئرلائن میں شمار ہونے والی ایمریٹس کی مینجمنٹ پچیس تیس سال سے وہی ہے، جس نے اسے قائم کیا تھا اور وہ مستقل مزاجی سے اس ایئرلائنز کے پلانز کو دیکھتی ہے، لیکن یہاں تو صورتِ حال بالکل مختلف ہے

اُن کے بقول ہر حکومت آ کر یہاں اپنے بندے تعینات کرتی ہے جو اپنا پلان بناتا ہے، پیسہ لگاتا ہے اور جب اس کے نتائج دیکھنے کا وقت آتا ہے تو نیا شخص یہاں ادارے کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے

طاہر عمران کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی تباہی کی ذمے دار حکومت کی اوپن اسکائی پالیسی بھی رہی، جس کے تحت پاکستان میں ہوا بازی کے شعبے میں خلیجی ممالک کو فوقیت ملتی رہی

ان کے خیال میں پاکستان کے جتنے بھی ایئر سروس ایگریمنٹس ہیں، وہ پاکستان یا قومی ایئرلائن کے حق میں نہیں بلکہ ان معاہدوں سے دیگر ممالک بالخصوص خلیجی ممالک کو فائدہ ہوا

واضح رہے کہ پاکستان میں اوپن اسکائی پالیسی کا آغاز 90 کی دہائی میں کیا گیا، جس کے تحت بین الاقوامی ایئرلائنز بالخصوص خلیجی ممالک، سری لنکا اور ترکیہ کی ایئرلائنز کو پاکستان میں اپنا آپریشن کئی ایئرپورٹس بشمول چھوٹے ایئرپورٹس تک بڑھانے کی اجازت دی گئی

ماہرین کے مطابق اس سے پی آئی اے کا بزنس کم ہونے لگا جب کہ غیر ملکی ایئرلائنز بالخصوص متحدہ عرب امارت کی ایئرلائنز کو بے حد فائدہ پہنچا

صفدر انجم بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ قومی ایئرلائن کی اصل تباہی کی ذمہ دار اوپن اسکائی جیسی پالیسیاں اور نااہل انتظامیہ ہے

انہوں نے کہا ”اوپن اسکائی پالیسی کی بدولت دنیا کی ایئرلائنز پاکستانی مسافر اٹھا رہی ہیں لیکن پاکستان کی اپنی ہی ایئرلائن خالی ہاتھ ہوتی ہے۔ اسی طرح یہاں گزشتہ کئی عرصے سے لازمی سروس ایکٹ نافذ ہے، یونین پر ایک طرح سے مکمل طور پر پابندی ہے اور کسی قسم کی مزاحمت بھی نہیں ہوئی“

سبکدوش ملازمہ روبینہ خان کا خیال ہے کہ ایگزیکٹیو کی غلط پالیسیاں ایئر لائن کی بتدریج تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ اس میں مہنگے نرخوں پر ہوائی جہاز کو پٹے پر لینا بھی شامل ہے

ایک ٹریڈ یونین لیڈر سہیل مختار اس حوالے سے پی آئی اے کے لیے سری لنکا سے بہت زیادہ قیمت پر دو طیارے حاصل کرنے کی مثال دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ”ایک نجی ایئر لائن نے ایک طیارہ ساڑھے چار ہزار ڈالر فی گھنٹہ کی شرح سے حاصل کیا لیکن پی آئی اے نے وہی طیارہ ساڑھے سات ہزار ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے حاصل کیا۔۔ ہمیں اس شرح پر دو طیارے ملے جس کی وجہ سے تقریباً سترہ سے اٹھارہ ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا“

انہوں نے مزید بتایا ”پی آئی اے نے انتہائی مہنگے انجن بھی خریدے، جن میں بعد میں خرابیاں بھی پیدا ہو گئیں“

روبینہ خان کا کہنا ہے ”کیٹرنگ اور دیکھ بھال کے لیے بیرونی ٹھیکیداروں کی خدمات حاصل کرنے سے بھی کافی نقصان ہوا۔ پی آئی اے کے ذمہ داروں نے اس قومی ایئرلائن کی مالیات کو نچوڑ کر رکھ دیا“

انہوں نے مزید کہا ”ایگزیکیوٹیوز کی بھاری بھرکم تنخواہیں، غیر ذمہ دارانہ رویہ اور دیگر سرکاری محکموں کی جانب سے پی آئی اے کے واجبات کی عدم ادائیگی نے بھی قومی ایئرلائن کی مالی پریشانیوں میں اضافہ کیا“

لاہور میں مقیم، ایئرلائنز امور کے ماہر قاسم اسلم کا کہنا ہے ”سیاسی روابط رکھنے والے نجی ایئرلائنز کے مالکان، جو اپنی ایئر لائنز شروع کرنا چاہتے تھے، کو پی آئی اے میں ایگزیکیوٹیو بنادیا گیا۔ جس کے نتیجے میں پی آئی اے کا زوال شروع ہو گیا، جب کہ ان کی ذاتی ایئرلائنز منافع بخش بنتی گئیں۔“

اسلام آباد میں مقیم ماہر معاشیات شاہد محمود کہتے ہیں ”فوجی اور سویلین دونوں ہی حکومتیں، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے سرکاری اداروں کو من پسند بیوروکریٹس، پارٹی ممبران اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ معیشت کا خون کر رہے ہیں۔“ ان کے مطابق، اس لیے ان اداروں کی نجکاری کی جانی چاہئے

تاہم پاکستان کے وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ ’حکومت کا فیصلہ مبینہ مفاد پرست افراد کے مفادات کو فائدہ پہنچانا ہے‘ ان کے بقول، ”نجکاری کا عمل سختی کے ساتھ قانون کے مطابق کیا جارہا ہے اور ہر قدم پر مکمل شفافیت برتی جا رہی ہے“

وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے دعویٰ کیا کہ قانونی ڈھانچے اور اثاثوں کی قیمت کا تعین دنیا کے سرفہرست سرمایہ کاری بینک کر رہے ہیں

انہوں نے مزید کہا ”موجودہ معاشی دباو میں حکومت کے لیے اوسطاً دس سے بارہ طیاروں کو آپریشنز پر ہر سال تقریباً ڈیڑھ سو ارب روپے کے بھاری خسارے کو پورا کرنا ممکن نہیں ہے“

انہوں نے کہا، نجکاری کے لیے ایک دن بھی ضائع ہونے سے بچ سکے، تو ایسا کرنا چاہیے

تاہم ٹریڈ یونین لیڈر سہیل مختار کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے ملازمین نجکاری کی مزاحمت جاری رکھیں گے اور دیگر افراد کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ٹریڈ یونین سے تعلق رکھنے والی عالیہ بخشل کے مطابق ان کی یونین بھی پی آئی اے کے ملازمین کے ساتھ رابطے میں ہے اور وہ پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف مزاحمت کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر کام کر رہے ہیں

عالیہ بخشل کہتی ہیں ”حکومت پی آئی اے کے ملازمین کو بھوک اور فاقوں کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے اور اس اقدام کی پوری طاقت سے مخالفت کریں گے“

پی آئی اے آفیسر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے اصرار کیا کہ پی آئی اے کی نجکاری ہی اس کے مسائل کا حل نہیں بلکہ پی آئی اے اب بھی ماضی کی طرح دوبارہ ترقی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ نگراں حکومت کے پاس پی آئی اے کو پرائیویٹائز کرنے کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close