محکمۂ موسمیات تو کل کی بات ہے، لیکن شاید کم لوگ جانتے ہیں کہ انسان قدیم دور سے ہی اس قابل ہے کہ وہ آنے والے موسم کی پیش گوئی کر سکتا ہے
موسم کی پیش گوئی کا سب سے قدیم ذکر ہمیں بابل کی تہذیب میں 650 قبل مسیح میں ملتا ہے۔ یہ تہذیب آج کے عراق اور شام کے علاقوں میں آباد تھی۔ یہ لوگ بادلوں کی ساخت اور ستاروں کی حرکت سے معلوم کر لیتے تھے کہ انہیں کس طرح کے موسم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
350 قبل مسیح میں تو یونانی فلسفی ارسطو نے موسموں کی تبدیلی کی حرکیات پر باقاعدہ کتاب لکھ دی، تاہم سائنس انیسویں صدی میں آ کر اس قابل ہو سکی کہ وہ موسم کی پیش گوئی کر سکے۔ 300 قبل مسیح میں چینیوں نے سال کو 24 ادوار میں تقسیم کر رکھا تھا اور ہر 15 دنوں کی تقسیم موسم کے مطابق کی گئی تھی
برطانوی رائل نیوی کے آفیسر فرانسس بیفورٹ نے 1835 میں ایک ایسا آلہ بنایا جو ہوا کی رفتار بتاتا تھا۔ 1859 میں رائل نیوی کا ایک جہاز سمندری طوفان کی وجہ سے غرق ہو گیا جس کے بعد رائل نیوی کے ہی ایک آفیسر رابرٹ فٹز رے نے موسم کی خرابی کا پتہ لگانے کے لیے 15 سٹیشن بنائے جہاں روزانہ کی بنیاد پر موسم کی رپورٹ مرتب کی جاتی تھی۔ 1861 میں ٹائم اخبار دنیا کا پہلا اخبار تھا جہاں روزانہ کے موسم کی پیش گوئی شائع ہوتی تھی
سندھ کی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی موسم کی پیش گوئی کرنے کی صلاحیت نہ صرف صدیوں سے موجود ہے بلکہ یہ روایت آج تک چلی آتی ہے۔ یہ پیش گوئی زیادہ تر مون سون کے مہینوں جون جولائی، اگست، ستمبر اور اکتوبر میں کی جاتی ہے جس کے لیے وہ ہوا کے رخ، بادل، چاند، سورج، ستاروں، پرندوں، جانوروں اور پودوں وغیرہ سے مدد لیتے ہیں۔ یہ لوک دانش صدیوں سے نسل درنسل منتقل ہو رہی ہے
شمالی پنجاب اور پوٹھوہار میں لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر پنجابی مہینہ ہاڑ کی دوسری تاریخ کو کہیں دور سے آسمان پر چمک آئے تو اس کا مطلب ہے کہ بارش ہونے والی ہے۔ پوٹھوہار میں ایک پرندہ جسے مقامی زبان میں ٹخ ٹخی کہتے ہیں وہ جب اچانک آسمان پر نمودار ہوتا ہے اور ’ٹی ٹی‘ کی آواز نکالتا ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ بارش قریب ہے
ایس انعام منظور جو طویل عرصے سے شکار کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ’پرندوں میں مرغابیاں اور سرخاب بھی بارش کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ آسمان پر مرغابیوں کا غول اڑتا نظر آئے تو بارش ہو گی، اسی طرح سرخاب گنگنائے تو بھی بارش ہو گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ایک بار وہ شکار پر گئے تو اس وقت آسمان بالکل صاف تھا کہ اتنے میں ان کے مقامی گائیڈ نے کہا کہ جلدی نکلیں طوفان آ رہا ہے۔ میں نے کہا، ’تمہیں کیسے پتہ چلا؟‘
اس نے کہا: ’دور افق پر ایک لکیر نظر آئی ہے۔ ہم نکلے ہی تھے کہ پندرہ، بیس منٹ میں طوفان نے آ لیا اور ہم بھیگ گئے۔‘
پوٹھوہار میں جب چونٹیاں بےحساب نکلیں اور اپنی خوراک جمع کرنے لگیں تو بھی کہا جاتا ہے کہ بارشیں معمول سے زیادہ ہوں گی۔ اسی طرح اگر اگست سے نومبر تک درجہ حرارت میں بے ترتیبی زیادہ ہو تو بھی خیال کیا جاتا ہے کہ بارش کا امکان زیادہ ہو گا
گلگت بلتستان میں جن چشموں سے لوگ پانی پیتے ہیں جب ان کے پانی میں بےترتیبی نظر آئے یعنی پانی اچانک کم یا زیادہ ہونے لگے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ اوپر کوئی گلیشیئر پھٹنے والا ہے
قاسم نسیم اسکردو سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مصنف ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمارے ہاں مینا جب گھروں کی منڈیروں پر آ کر بولے تو سمجھا جاتا ہے کہ برف باری شروع ہونے والی ہے۔ اسی طرح مختلف پرندے غول کی شکل میں آسمان پر نظر آئیں تو بھی سمجھا جاتا ہے کہ موسم میں کوئی تبدیلی آ رہی ہے
صحرا کے لوگوں میں لوک دانش زیادہ ہوتی ہے۔ انہیں پانی کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اس لیے بارش کب ہو گی اور قحط سالی کا کتنا خطرہ ہے اس بارے میں ان کی لوک دانش سب سے زیادہ ہے۔ تھر میں جب سورج غروب ہو رہا ہو اور اس وقت وہ بادلوں میں چھپ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اگلے تین دنوں میں بارش ہو گی۔ اسی طرح بادل کس سمت سے آ رہے ہیں، اس سے بھی بارش کے کم یا زیادہ ہونے کی پیش گوئی کی جاتی ہے
چاند کے حجم اور رنگ سے بھی بارش کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔ عموماً یہ پیش گوئیاں رمضان، شوال اور ذی قعد کے مہینوں میں کی جاتی ہیں۔ ان مہینوں میں بزرگ چاند کو دیکھ کر آنے والے مہینوں میں قحط سالی کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے
تھرپارکر میں اگر چاند اور سورج ایک ہی وقت پر طلوع ہوں تو اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ بارش ہو گی۔ اسی طرح اگر چاند کے گرد چار ستارے ظاہر ہوں تو سمجھا جاتا ہے کہ شدید بارشیں ہوں گی لیکن ایک ستارے کا مطلب ہے کہ معمول کی بارش ہوگی
چاند کی طرح تھر کے لوگ ستاروں سے بھی موسم کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ ساون کے مہینے میں اگر سورج کے غروب ہوتے ہی ایک ستارہ آسمان پر چمکے تو شدید بارشیں ہوں گی۔ اسی طرح ایک ستارہ جو ہر چالیس پچاس سال بعد آسمان پر ظاہر ہوتا ہے جب یہ نظر آئے تو تھر کے لوگ سمجھتے ہیں کہ اب ایسی بارشیں ہوں گی جو ان کے لیے خوشحالی لے کر آئیں گی
تھر میں پرندوں سے بھی موسم کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔ ایک پرندہ جسے مقامی زبان میں ’تارو‘ کہتے ہیں، جس کا ذکر شاہ عبد الطیف بھٹائی کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔ اس کے سر پر تاج بنا ہوتا ہے اور مقامی لوگ کہتے ہیں کہ اس کی گردن میں ایک سوراخ ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ زمین میں موجود پانی پی نہیں سکتا۔ جب بارش ہوتی ہے تو پانی اس کی گردن سے اس کے اندر چلا جاتا ہے۔ جب یہ گنگنانے لگتا ہے تو تھر کے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ بارش آ رہی ہے۔ یہ پرندہ صرف اسی وقت دکھائی دیتا ہے جب بارش پندرہ سے بیس دنوں میں ہونے والی ہو۔ عموماً اس پرندے کی آواز رات دس سے گیارہ بجے کے دوران ہی سنائی دیتی ہے
مور تھر کا ایک اہم پرندہ ہے۔ جون کے مہینہ میں اگر اس کی آواز بدلے تو سمجھا جاتا ہے کہ بارش آ رہی ہے۔ اسی طرح تیتر اگر صبح سے شام تک گائے تو بھی سمجھا جاتا ہے کہ بارشیں آ رہی ہیں۔ کوا بھی ایک ایسا پرندہ ہے جس سے موسم کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔ جب کسان کھیتوں میں ہل چلا رہے ہوتے ہیں تو وہ کوے کو کھانا ڈالتے ہیں۔ اگر کوا یہ کھانا کھا لے تواسے اچھا شگون سمجھا جاتا ہے لیکن اگر وہ کھانا لے کر اڑ جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ قحط سالی آ رہی ہے
کوا ساون کے مہینے میں انڈے دیتا ہے، اگر اس نے دو انڈے دیے ہوں تو دو اچھی بارشوں کی پیش گوئی کی جاتی ہے اور اگر اس کا گھونسلا انڈوں سے خالی ہو تو سمجھا جاتا ہے کہ قحط سالی ہو گی۔ 15 جون کے بعد اگر کونجیں آسمان پر ایک تکون بنا کر اڑ رہی ہوں تو سمجھا جاتا ہے کہ بارش ہوگی
سوات میں ایک موسمی کیلنڈر ’بہادر تقویم‘ کے نام سے موجود ہے جس کی روشنی میں مقامی کاشت کار فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ یہ کیلنڈر نو مہینوں پر مشتمل ہے اور ہر مہینے کے 40 دن ہوتے ہیں
بہادر ایک مقامی رہائشی تھے جو ستاروں کی حرکت اور دیگر نشانیوں سے موسم کا اندازہ لگاتے تھے۔ سوات سے تعلق رکھنے والے محقق اور مصنف زبیر توروالی انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج بھی یہاں پہاڑی علاقوں میں لوگ بہادر کیلنڈر کی ہی پیروی کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کب بارشیں ہوں گی اور کب نہیں ہوں گی
لیکن موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے قدیم دور سے رائج یہ اندازے اب غلط ثابت ہو رہے ہیں۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو